سپیشل رپورٹ

آیئے آپ کو کشمیر کی دلیر خاتون ’سپاہی خانوان بی بی‘ سے ملواتے ہیں

برصغیر کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو جدوجہد آزادی کے لیے مسلمانوں کی بے مثال قربانیاں تاریخ کا حصہ ہیں، انگریزوں اور ہندوؤں کے تسلط کے خلاف کشمیر میں جدوجہد آزادی کی ایک طویل تاریخ موجود ہے، جس میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

ایسی ہی ایک جاں باز اور دلیر خاتون کشمیر سے تعلق رکھنے والی سپاہی خانوان بی بی ہیں، 1947-48 کی جنگ میں سپاہی خانوان بی بی نے آزادی کشمیر کے لیے عزم و ہمت اور دلیری کی ایک نئی داستان رقم کی۔

اکتوبر 1947 میں اپنے شوہر سردار عنایت اللہ خان کی شہادت کے بعد سپاہی خانوان بی بی نے مجاہدین گروپ ”حسین فورس“ میں شمولیت اختیار کر لی تھی، بعد ازاں خانوان بی بی نے کپیٹن حسین خان کی زیر کمان 3 آزاد کشمیر رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی۔

سپاہی خانوان بی بی کے فرائض میں جنگ کے دوران خواتین اور بچوں کا تحفظ کرنا شامل تھا، ان کی بہادری اور دلیری کو دیکھتے ہوئے دیگر خواتین بھی آزادئ کشمیر کی جنگ میں شامل ہو گئیں۔ سپاہی خانوان بی بی نے ڈوگرہ فوج کے خلاف گھات لگا کر حملے کیے اور ایک حملے میں شدید زخمی بھی ہوئیں، بی بی نے راولاکوٹ کی جنگ اور فتح میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

خانوان بی بی کے اہل خانہ نے بھی اس سلسلے میں اپنے جذبات کا اظہار کیا، ان کی بیٹی نے کہا ”اکتوبر 1947 کو کافروں کی پوری پلاٹون آئی اور میری ماں کو کہا کہ اس لڑکی کو یہاں پھینکو اور یہاں سے چلو، میری ماں نے انکار کر دیا، ان کے ہاتھ میں برچھیاں تھیں جو ان کی ٹانگوں پر ماریں جس سے نشان پڑ گئے۔“

بیٹی نے مزید بتایا ”پورا دن ان کے ساتھ لڑائی رہی، میری ماں نے کہا کہ یہ نہیں مانتے تو کیوں ان کو لے جانا چاہتے ہو، انھوں نے جواب دیا تم چپ رہو، ہمیں حکم ہے کہ عورتوں اور مردوں کو مارو اور جو ساتھ نہیں آتا اسے ادھر ہی ختم کرو۔“

انھوں نے بتایا ”پھر وہ ان کو لے گئے اور تھوڑا آگے جا کر ان کو گولی مار دی، ہمیں نہیں پتا تھا انھیں گولی مار دی گئی ہے، پھر میری ماں نے پورا دن ان کے ساتھ مقابلہ کیا۔ چار دن وہ کھیتوں میں چھپے رہے، پھر انھوں نے وائرلیس پر اطلاع دی کہ یہ عورت بہت سخت ہے اور ہمیں مارتی ہے، تو انھوں نے کہا کہ اسے مارو، وہ ڈنڈا ماریں تو یہ ڈنڈا چھین کر پھینک دیں، اس طرح میری ماں نے ان کا مقابلہ کیا۔“

خانوان بی بی کے نواسے نے کہا ”میری نانی بہت دلیر خاتون تھیں، ان کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ اکتوبر1947 میں جب ڈوگرہ فوج نے لوگوں کے خلاف ظلم و بربریت شروع کیا تو سدھن قبیلے نے بغاوت کر دی۔ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں جب ڈوگرہ تھوراڑ سے لنجگراں پہنچے تو وہاں پر میرے نانا سردار عنایت اللہ خان نے ان کو لوٹ مار سے روکا، جس پر میرے نانا کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا اور لاش جنگل میں پھینک دی گئی۔“

نواسے نے مزید بتایا ”اس دوران خانوان بی بی کو جب لوگوں نے شور کرتے ہوئے دیکھا تو اکٹھے ہونا شروع ہو گئے، اس کے بعد خانوان بی بی نے نہ صرف ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ اس دوران ان کا دائیں بازو فریکچر ہو گیا مگر انھوں نے اپنے گھر کو آگ نہیں لگانے دی۔ اس کے باوجود کہ ان کا خاوند شہید ہو چکا تھا خانوان بی بی نے پتھروں سے ان پر وار کیے اور انھیں وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔“

نواسے کے مطابق ”اس کے بعد وہ اوپر ایک اہم مقام پر جا بیٹھیں، خواتین کو ساتھ اکٹھا کیا اور وہاں سے نیچے ڈوگرہ فوج پر بڑے بڑے پتھروں سے حملہ کرتی رہیں، جو اس لڑائی کا سب سے بڑا حملہ سمجھا جاتا ہے۔ اس حملے میں مقامی لوگوں کے مطابق خانوان بی بی نے 35 سے 40 ڈوگرہ سپاہیوں کو جہنم واصل کیا، اگر یہ حملہ نہ ہوتا تو ڈوگرہ فوج نے بہت ظلم کرنا تھا۔ اس حملے کے بعد ڈوگرہ فوج راولاکوٹ شہر کی جانب نہ جا سکی بلکہ وہاں سے ہی واپس پونچھ بھاگ گئے۔“

سپاہی خانوان بی بی کی بہادری اور دلیری کے اعتراف میں انھیں ”مجاہدہ حیدری اعزاز“ جو ”ستارہ جرأت“ کے برابر ہے سے نوازا گیا، خانوان بی بی کا انتقال 18 فروری 1979 کو ہوا، ان کی دلیری، بہادری اور وطن کے لیے خدمات نوجوان خواتین کے لیے مشعل راہ ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button