Columnمحمد مبشر انوار

افرادی قوت کی طلب

تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض)
گذشتہ تحریر میں قارئین کیلئے الریاض میں ہونیوالی افرادی قوت کی نمائش کا احوال رقم کیا تھا جس میں وزیراعظم کے معاون خصوصی، او ای سی کے منیجنگ ڈائریکٹر اور سفارت خانہ پاکستان کی خصوصی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ او ای سی نے کئی ایک ایم او یوز اور ایل او آئیز پر دستخط کرکے پاکستانی محنت کشوں کے ذریعہ معاش کیلئے بھرپور کوششیں کی ہیں۔ سعودی عرب اس وقت خلیج کی سب سے بڑی مملکت ہے کہ جہاں سعودی وزیراعظم و ولی عہد محمد بن سلمان کے ویژن 2030کے طے کردہ اہداف حاصل کرنے کیلئے پوری ریاستی مشینری سرگرم عمل ہے۔ اس ضمن میں ایک طرف تو تعمیراتی کام اپنے پورے زور و شور سے جاری ہے اور یہاں تعمیراتی کارکنوں کی ناصرف اشد ضرورت ہے بلکہ اپنے شعبہ میں باقاعدہ تعلیم یافتہ ہنرمندوں کی بڑی تعداد مطلوب ہے، یہاں یہ فرق واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جو میگا بلکہ گیگا منصوبے زیر تعمیر ہیں، وہاں اناڑی محنت کشوں کیلئے مواقع کمتر ہوتے جارہے ہیں۔ تسلیم کہ پاکستانی ہنرمندوں کی ذہانت بسا اوقات کسی تعلیم یافتہ ہنرمند سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، ان کی مہارت روزمرہ زندگی میں دیگر عام محنت کشوں سے بڑھ کر ہوتی ہے لیکن ایسے نگینے بالعموم لگی بندھی نوکری کو قطعاً ترجیح نہیں دیتے بلکہ وہ اپنے زور بازو پر اعتماد کرتے ہوئے انفرادی حیثیت میں چھوٹے چھوٹے لیکن مؤثر منصوبے حاصل کرتے ہیں۔ اپنی محنت اور اپنی چھوٹی سی ٹیم بناکر ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں اور انہی منصوبوں سے چار/ چھ لوگوں کو روزگار فراہم کرتے ہوئے، اپنے لئے، اپنے خاندان کیلئے اور وطن عزیز کیلئے زرمبادلہ کماتے ہیں۔ گوکہ ان کا یہ طریقہ کار تاحال تو کارآمد ہے اور وہ اس وقت بھی جیسے تیسے کرکے، اپنے کام کو چلا رہے ہیں لیکن مستقبل میں جب قوانین اور سخت ہوں گی تو ان کیلئے یہ طریقہ کار قائم رکھنا مشکل نظر آتا ہے۔ تعمیراتی منصوبوں کی تکمیل تو بہرحال ویژن 2030کا ایک جزو ہے، روزگار کے اصل مواقع تو اس کے بعد شروع ہوںگے کہ جب بڑے میگا منصوبے مکمل ہو جائیں گے تب ان کی کامیابی کیلئے ماہرین کی ضرورت پڑے گی، جس میں آئی ٹی کا شعبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے تو دوسری طرف مہمانداری کا شعبہ بھی اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ اس وقت شعبہ مہمانداری میں فلپائن کے علاوہ سری لنکا کی افرادی قوت قابض نظر آتی ہے کہ ان کی اکثریت اس شعبہ سے منسلک اپنی کارکردگی کا لوہا منوا رہی ہے، تاہم اس خصوصی شعبہ میں پاکستان ابھی سے منصوبہ بندی کرتے ہوئے، حصہ بقدر جثہ وصول کر سکتا ہے بشرطیکہ پاکستانیوں کو شعبہ مہمانداری میں باقاعدہ خصوصی تربیت کا انتظام ابھی سے شروع کر دے۔ اس ضمن میں او ای سی کو خصوصی اقدامات اٹھاتے ہوئے، اس کی تربیت کا انتظام کرنا ہوگا جبکہ نجی شعبہ سے او ای پیز بھی بہرطور اس شعبہ میں آگے آئیں اور باکستانیوں کیلئے مختصر دورانیے کی لیکن کارآمد تربیت کا انتظام کریں تاکہ مستقبل قریب میں سعودی عرب میں نکلنے والے مواقع سے مستفید ہو سکیں۔
شعبہ مہمانداری کے حوالے سے بات فقط سرو کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ سعودی عرب میں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے کیفے کھولنے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے کہ جس کی وجہ سے یہاں مختلف قسم کے مشروبات تیار کرنے کی مہارت والے افراد درکار ہوں گے۔ اسی طرح سیکڑوں کی تعداد میں عالمی معیار کے ہوٹلز بھی یہاں کھل رہے ہیں اور اس میں ہوٹل انڈسٹری سے متعلقہ ہزاروں کی تعداد میں نوکریاں نکلیں گی، یہ وہ ذریعہ معاش ہوگا کہ جو مستقل حیثیت رکھتا ہے اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر کوئی بھی محنت کش طویل عرصہ تک اپنے ذریعہ معاش سے بے غم ہوسکتا ہے۔ او ای سی اور او ای پیز کو ان متوقع مواقع کو قبل از وقت بھانپتے ہوئے ابھی سے ان کے متعلق منصوبہ کرنی چاہئے کہ اس طرح ناصرف ان کے اپنے کاروبار بلکہ پاکستانیوں کیلئے اچھے روزگار کے مواقع بھی میسر ہوں گے۔ علاوہ ازیں سعودی حکومت بیرونی سرمایہ کاروں کوکئی ایک شعبہ جات میں خوش آمدید کہہ رہی ہے اور ان کیلئے بہت سے مواقع بھی موجود ہیں البتہ مقامی قوانین کے مطابق اب ایسے بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے ٹیکس کی شرح مقامی کی نسبت زیادہ ہے، جس کو ہمارے سرمایہ کار کسی بھی مقامی شریک کار کے ساتھ ملکر بچا سکتے ہیں۔ تاہم اپنے سرمایہ کو محفوظ رکھنے کیلئے، مقامی قوانین سے واقفیت اولین شرط ہے، جس کیلئے کسی مقامی وکیل یا ازخود تحقیق کر کے مقامی قوانین سے متعلق رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے اور اپنے سرمایہ کو قانونی اور محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔
ان شعبہ جات کے علاوہ سعودی عرب میں گھریلو ملازمین کی طلب انتہائی زیادہ ہے اور اس میں خانساماں، ڈرائیور، مالی و خادمہ تک سب شامل ہیں۔ کبھی وقت تھا کہ سعودی اپنے گھریلو معاملات کیلئے پاکستانیوں کو ترجیح دیا کرتے تھے لیکن پاکستانیوں کے مزاج اور زیادہ تنخواہ کے باعث، اب ڈرائیور یا خانساماں کیلئے ان کی ترجیح بھارت، بنگلہ دیش، مراکش یا فلپائن بن چکی ہے تاہم خلیج کے دیگر ممالک گھریلو ملازمین کی، غیر انسانی حرکات والی پھیلی ویڈیوز کے باعث، اب ترجیح مسلم ملازمین کی ہوتی جارہی ہے۔ ڈرائیورز، خانساماں اور مالی وغیرہ کی ملازمت کیلئے پاکستانیوں کی بڑی تعداد اب بھی سعودی عرب میں موجود ہے لیکن گھریلو خادمائوں کے حوالے سے، پاکستان کی پالیسی جنرل ضیاء کے وقت سے ہنوز قائم ہے۔ گھریلو خادمائوں کے حوالے سے جنرل ضیاء نے عمر کی حد مقرر کی تھی کہ کم از کم چالیس سال سے کم عمر خادمہ کو نہیں بھجوایا جائیگا، جس کے پس پردہ کئی ایک محرکات تھے، جن سے انکار ممکن نہیں کہ ایک مسلم ملک کی خاتون کی ساتھ ایسا سلوک کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سعودی قوانین بھی بہت تبدیل ہوچکے ہیں بالخصوص غیر ملکی کارکنوں کے حوالے سے بہت تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں اور اگلے چند سالوں میں مزید تبدیلیاں متوقع ہیں کہ جن میں کارکن کے حقوق کا تحفظ زیادہ بہتر طریقے سے ممکن بنایا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ مستقبل قریب میں گھریلو ملازمین کے حصول کا طریقہ کار بھی تبدیل ہورہا ہے اور انفرادی طور پر کسی کیلئے ممکن نہیں کہ وہ گھریلو ملازمین کی خدمات حاصل کر سکے۔ اس ضمن میں سعودی حکومت نے کئی ایک میگا کمپنیوں کو لائسنس دیا ہے تو اسی طرح کئی ایک چھوٹے مؤسسات کو بھی لائسنس دیا ہے، جو گھریلو ملازمین کو اپنی کفالت میں رکھتے ہوئے، مقامی افراد کو مہیا کریں گے۔ یوں کسی بھی ملازم کا کفیل انفرادی سعودی نہیں ہوگا بلکہ ایک کمپنی یا مؤسسہ ہوگا، جو براہ راست ملازمین کے معاملات پر حکومت کو جوابدہ ہوگا۔ اسی طرح ایسے گھریلو ملازمین تک رسائی ان کے سفارت خانہ کو بھی ہوگی اور کسی مشکل کی صورت میں، تارکین وطن اپنے سفارت خانہ سے بآسانی رابطہ کر سکے گا۔
تصویر کا یہ ایک رخ ہے تو دوسرا رخ بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ بالعموم سننے میں یہ آتا ہے کہ بالعموم پاکستان سے خادمہ کے ویزہ پر آنے والی خاتون کے مدنظر حرمین کی زیارت ہوتی ہے اور ابتدائی تین ماہ میں یہ فریضہ ادا کرنے کے بعد، اسے اپنی نوکری سے کوئی شغف باقی نہیں رہتا اور اسے گھر والوں کی یاد ستانے لگتی ہے یا وہ کسی بہانے سے واپس جانا چاہتی ہے۔ بصورت دیگر وہ پاکستان میں اپنے اقارب کے ذریعہ بھیجنے والے کیخلاف مقدمہ دائر کر دیتی ہے، جس سے پاکستانی ایجنٹ کا لائسنس کینسل تک ہو جاتا ہے اور اسے قانون نافذ کرنے والے ادارے دھر لیتے ہیں۔ بسا اوقات ان شکایات میں سچائی بھی ہوتی ہے لیکن ان کی شرح اس حد تک نہیں ہوتی، بہرکیف پاکستانی ایجنٹ اس کام میں ہاتھ ڈالنے سے گریز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بدلتے ہوئے حالات میں، سعودی عرب میں پاکستانی خادمائوں کی طلب بھی بڑھ رہی ہے اور اس ضمن میں او ای سی، او ای پیز اور حکومت کو مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے اگر خادمائوں کے طور پر پاکستانی خواتین کو ذریعہ معاش فراہم کرنا ہے وگرنہ معاملات جیسے چل رہے ہیں ویسے ہی چلتے رہیں کوئی مضائقہ نہیں، بہرحال سعودی عرب کو مستقبل قریب میں ان شعبہ جات میں افرادی قوت مطلوب ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button