ColumnImtiaz Aasi

حکومت اور الیکشن کمیشن پر سوالیہ نشان؟

 

تحریر : امتیاز عاصی
انتخابات سے قبل ہونے والے اقدامات پر تشویش کا پایا جانا فطری امر ہے۔ عوام ایک عرصے سے حقیقی جمہوریت کے منتظر ہیں، ان کی دیرینہ خواہش ہے ملک کی باگ ڈور راست باز قیادت سنبھالے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے جس کیلئے شفاف اور منصفانہ الیکشن کا انعقاد بے حد ضروری ہے۔ عوام کی قسمت کے فیصلے انہی جانے پہچانے سیاست دانوں کے ہاتھوں میں آنا سب سے بڑی بدقسمتی ہے۔ جس روز عوام کو آزادی سے اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کا حق مل گیا ملک و قوم کے گونا گوں مسائل حل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ یہ کام تبھی ہوسکتا ہے جب تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم اور جلسوں کا انعقاد کرنے کی اجازت ہو۔ کسی مخصوص جماعت کو انتخابات سے پہلے ہر طرح کی آزادی کا مقصد عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ ملکی آئین اور قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کسی فرد واحد کی غلطی کی سزا پوری قوم کو دی جائے۔ اس وقت ہمارا ملک نازک دوراہے پر ہے انتخابات منصفانہ اور شفاف ہونے کی صورت صاف ستھری اور راست باز قیادت آنے سے ملک و قوم کی ترقی کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہوسکتی ہیں ورنہ دوسری صورت میں ملک و قوم کا ندھیروں سے نکلنا دشوار ہو جائے گا۔ یہ بات نگران حکومت اور الیکشن کمیشن پر منحصر ہے کہ وہ آنے والے انتخابات کو متنازعہ ہونے سے روکنے کے لئے کیا اقدامات کرتے ہیں؟ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے ملک میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور انتخابی عمل میں کھلے عام مبینہ سازباز کا الزام لگایا ہے جس میں ایک مخصوص سیاسی جماعت کے حصے بخرے کئے جارہے ہیں جس سے شفاف انتخابات پر سوال اٹھتا ہے۔ کمیشن نے پارٹی رہنمائوں پر پارٹی چھوڑنے، کاغذات نامزدگی چھیننے اور وکلا کو عدالتوں میں پیش ہونے سے روکنے کو اسی عمل کا حصہ قرار دیا ہے۔ جس صورت حال سے ہمارا ملک گزر رہا ہے اس کی روشنی میں عوام پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا قیمتی ووٹ ڈالنے کے لئے گھروں سے ضرور نکلیں اور اپنے ووٹ کی حفاظت کریں تو راست باز قیادت کا اقتدار میں آنا یقینی ہوسکتا ہے۔ عوام ماضی کی طرح گھروں میں بیٹھے رہے تو وہی چہرے جنہیں دیکھ دیکھ کر وہ تنگ آئے ہوئے ہیں ہمارا مقدر ہوگا۔ پنجاب میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں صوبے کے عوام نے ووٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی تمام کوششوں کا ناکام بنایا تو حیرت انگیز تبدیلی رونما ہوئی جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ضمنی الیکشن کے نتائج نے پنجاب کو اپنا قلعہ سمجھنے والوں کی نیندیں حرام کر دیں جس کے اثرات ابھی تک باقی ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے دو مخصوص جماعتیں انتخابات کے انعقاد کے حق میں نہیں ہیں انہیں اس بات کا پورا ادراک ہے کہ صوبوں کے عوام کے ذہن بدل چکے ہیں لہٰذا وہ کسی بڑی تبدیلی کے منتظر ہیں۔ یہ بھی قدرتی امر ہے کسی بھی ملک کے عوام چند عشروں بعد تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں لہٰذا پاکستان میں تبدیلی کی لہر چل پڑی ہے ۔ ہم یہاں چھوٹی سی مثال پیش کریں گے عوام کی خدمت کے دعویٰ دار سیاست دانوں نے مہنگائی کم کرنے کے لئے اقتدار سنبھالا تو لوگوں کو امید تھی انہیں زندہ رہنے کے لئے کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور ملے گا۔ عوام اس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب روایتی سیاست دانوں اور عوام سے جھوٹ بولنے والوں نے مہنگائی کی بجائے اپنے خلاف مقدمات ختم کرنے کو ترجیح دی اور عوام کو مہنگائی کے چنگل میں چھوڑ کر چلتے بنے۔ اب وہی سیاست دان نئے روپ میں عوام سے ووٹ لینے کے خواہاں ہیں۔ اگرچہ وہ اپنے خلاف مقدمات ختم کرنے میں کامیاب رہے تاہم عوام کے دلوں میں ان کے خلاف جو نفرت پید ا ہوئی اس کا بدلہ وہ آنے والے الیکشن میں ووٹ کی طاقت سے لیں گے۔ تاسف ہے نگران حکومت اور الیکشن کمیشن نے انتخابات سے پہلے پیدا ہونے والی صورت حال پر چپ سادھ رکھی ہے حالانکہ الیکشن کا منصفانہ اور شفاف انعقاد ان کی آئینی ذمہ داری ہے۔ اس سے قبل ہم کئی کالموں میں لکھ چکے ہیں 8فروری کو الیکشن کا انعقاد مشکل نظر آرہا ہے۔ منظور نظر جماعتیں الیکشن کو التواء میں رکھنے کی خواہاں ہیں تو ایسے میں انتخابات کا ہونا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ موسم کی خرابی اور دہشت گردی کے واقعات تو محض بہانہ ہیں۔ ہمیں یاد ہے کے پی کے اس وقت کے انسپکٹر جنرل پولیس نے ضمنی الیکشن کے انعقاد کے لئے فورس دینے اور امن عامہ کی ذمہ داری لی تو اگلے روز انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ درحقیقت پرانے چہروں کو انتخابی ماحول اپنے حق میں دکھائی نہیں دے رہا ہے لہٰذا وہ انتخابات کو التواء میں رکھنے کے لئے نت نئی تاویلیں دے رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کسی کام کو التواء میں ڈالنا ہو تو امن عامہ کا عذر صحیح بہانہ ہے۔ دراصل عوام اور خصوصاً نوجوان نسل میں تبدیلی کی لہر چل پڑی ہے جسے روکنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ سوشل میڈیا کو دیکھ لیں ایک طوفان مچا ہوا ہے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں۔ بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر کنٹرول کسی کے بس کی بات نہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے سیاسی رہنمائوں کی کردار کشی روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ چھوٹے اور بڑوں کی عزت و احترام ختم ہوچکا ہے، جو جی چاہے کسی کے بارے سوشل میڈیا پر ڈال دیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ عوام تو ویسے پرانے چہروں سے عاجز تھے کہ سوشل میڈیا کی یلغار نے لوگوں کے ذہن بدل دیئے ہیں۔ ہمیں انتخابات کے منصفانہ اور شفاف ہونے کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو اگر موجودہ صورت حال رہی تو الیکشن کا منصفانہ ہونے کے بہت کم امکانات ہیں۔ عجیب تماشا ہے ایک سیاست دان کی نااہلی برقرار ہونے کے باوجود اس کے کاغذات نامزدگی منظور کر لئے گئے جب کہ دوسری طرف کاغذات نامزدگی جمع کرانے والوں کو روکنا حکومت اور الیکشن کمیشن پر سوالیہ نشان ہے؟ انتخابات میں جو وقت رہ گیا ہے نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کسی فرد واحد کی بجائے تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت دیں۔ سیاسی جماعتوں کو اپنا منشور عوام کو جلسوں میں بتانے کی اجازت ہونی چاہئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button