Columnمحمد مبشر انوار

افرادی قوت کی برآمد

محمد مبشر انوار
سعودی حکومت اپنے وژن 2030کے طے کردہ اہداف کو حاصل کرنے کے لئے پوری طرح بروئے کار ہے اوراس ضمن میں مملکت کے طول و عرض میں بالعموم جبکہ دارالحکومت الریاض اور جدہ میں بالخصوص مسلسل اور تواتر کے ساتھ مختلف نمائشوں کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ یہ نمائشیں کسی ایک جہت تک محدود نہیں بلکہ ان میں جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لئے ہر طرح کی نمائش کا اہتمام کیا جا رہا ہے اور جو اہداف سعودی حکومت نے ہر شعبہ ہائے زندگی کے لئے، اپنے وژن 2030کے لئے طے کر رکھے ہیں، دنیا بھر سے ان کے ماہرین، سرمایہ کار، معاون سہولیات فراہم کرنے والی کمپنیوں کو بھرپور اور یکساں مواقع فراہم کر رکھے ہیں کہ وہ ان نمائشوں میں سعودی حکومت کے لئے کس طرح کارآمد ہو سکتے ہیں، اس میں سعودی حکومت کی معاونت کریں۔ گزشتہ دنوں ایسی ہی ایک نمائش کا اہتمام دارالحکومت الریاض میں ہوا، جس کا مقصد دنیا بھر سے تارکین کو سعودی عرب میں بھجوانے والے پروموٹرز کو سعودیہ میں کاروباری مواقع جانچنے اور خود کو متعارف کروانے کا موقع فراہم کیا گیا۔ اس نمائش میں پاکستانی اوورسیز پروموٹرز کی ایک بڑی تعداد شریک نظر آئی جو پاکستانیوں کے لئے ،وژن 2030کے تناظر میں پاکستانیوں کے لئے روزگار کے مواقع دیکھنے کے لئے یہاں پہنچے، ان انفرادی پروموٹرز کے علاوہ، پیوپاکے جنرل سیکرٹری نے پیوپا کی نمائندگی کی اور ان کے ساتھ پیوپا کے چند ایک عہدیدار بھی اس نمائش میں شریک ہوئے۔ انفرادی پروموٹرز کے علاوہ اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن کے مینجنگ ڈائریکٹر نصیر کاشانی بھی اپنے رفقاء کے ساتھ اس نمائش میں شریک دکھائی دئیے، درحقیقت اس نمائش میں او ای سی کے زیر انتظام پاکستان پویلین قائم کیا گیا تھا، جس میں او ای سی سعودیوں کے ساتھ افرادی قوت کے ممکنہ طلب کے حوالے سے نہ صرف معلومات اکٹھی کر رہی تھی بلکہ ان کے ساتھ مستقبل کا لائحہ عمل بھی ترتیب دے رہی تھی کہ کس طرح او ای سی، مقامی افرادی قوت کی طلب پوری کرنے میں معاون ہو سکتی ہے۔ پاکستان پویلین قائم کرنے میں پس پردہ سفارت خانہ پاکستان کا کردار قابل تعریف ہے کہ سفارت خانہ کے عملہ کی شبانہ روز کاوشوں سے پاکستانی پرموٹرز کی ایک بڑی تعداد اس نمائش میں شریک ہوئی ہے اور او ای سی نے پہلی مرتبہ پبلک سیکٹر میں اپنی خدمات متعارف کروانے کا قدم اٹھایا ہے۔ تھوری مزید تحقیق کی تو علم ہوا، پاکستانی پروموٹرز اور او ای سی کے عہدیداروں سے، کہ اس نمائش کے انعقاد سے قبل ہی کمیونٹی ویلفیئر اتاشی برادرم سہیل بابر وڑائچ، تارکین وطن کی مشکلات کے حوالے سے متعدد بار زوم میٹنگز میں تمام سٹیک ہولڈرز سے رابطے میں رہے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں بالآخر ، اس نمائش کے انعقاد میں سعودی ارباب اختیار سے روابط، وژن 2030کے تناظر میں اس کی اہمیت، پاکستانی پروموٹرز کے لئے ایک مقام پر اس سہولت کے لئے برادرم سہیل بابر وڑائچ کی خصوصی کاوشیں و دیگر رفقاء کی معاونت، لائق تحسین و ستائش ہیں، جو تارکین وطن کی مشکلات کو ذاتی مشکلات سمجھتے ہوئے، ان کے ازالے کے لئے اپنی بھرپور توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔ پاکستان پویلین کا افتتاح سفیر پاکستان جناب احمد فاروق نے کیا تو اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی جواد سہراب ملک بھی ان کے ہمراہ نظر آئے، جو ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے، تارکین وطن کے لئے کچھ کرنے کے لئے بے تاب دکھائی دیتے ہیں، اللہ کریم ان سب احبا ب کا کامیاب کرے تا کہ تارکین وطن کی مشکلات کا ازالہ ہو سکے۔
او ای سی کا بنیادی کردار تو حکومتی معاہدوں کے تحت افرادی قوت کو بیرون ملک بھجوانا ہے جبکہ سعودی عرب یا دیگر خلیجی ریاستوں میں افرادی قوت کی برآمد چونکہ نجی کمپنیوں کے اپنے انتظام کے تحت ہوتی ہے، اس لئے بنیادی طور پر او ای سی، تاحال اس میدان سے باہر رہی ہے۔ تاہم اس نمائش میں سعودی عرب کی بیشتر بڑے اور اہم کاروباری اداروں کے ساتھ او ای سی نے نہ صرف ایم او یوز اور ایل او آئیز پر دستخط کئے ہیں بلکہ ان کاروباری اداروں کی افرادی قوت کو فراہم کرنے میں پر امید بھی نظر آتی ہے۔ او ای سی کا طریقہ کار نجی پروموٹرز سے قدرے مختلف ہے اور او ای سی کے پلیٹ فارم سے برآمد کی جانے والی افرادی قوت کا خرچہ نسبتا انتہائی کم ہوتا ہے جبکہ نجی پروموٹرز محنت کش سے موٹی رقم بٹورتے دکھائی دیتے ہیں، تاہم دونوں کا مقصد پاکستانیوں کے لئے بیرون ملک روزگار کا حصول ہی ہے۔ او ای سی چونکہ حکومتوں سے کئے گئے معاہدوں کے تحت افرادی قوت مہیا کرتا ہے، اس لئے یہ میدان اس کے لئے نیا اس لئے نہیں کہہ سکتا کہ ا و ای سی کو اس مارکیٹ کا بخوبی اندازہ ہے کہ اس مارکیٹ میں کون سا طریقہ کار رائج ہے لیکن اس میں جگہ بنانے کے لئے او ای سی کو سخت محنت درکار ہو گی۔ او ای سی اس سے قبل سرکاری معاہدوں سے ہی افرادی قوت بیرون ملک بھجواتی رہی ہے لیکن اب او ای سی کو یقینا اپنے طریقہ کار کو بدلنا ہو گا اور خلیجی ریاستوں میں نجی کاروباری اداروں سے افرادی قوت کی طلب حاصل کرنے کے لئے ،انہیں یہاں اپنا سٹاف تعینات کرنا ہو گا کہ سفارت خانہ یا سفارت خانے کے عملہ کی اس مارکیٹنگ شعبے میں مداخلت کسی بھی طور مناسب نہیں ہو گی اور بلاوجہ نجی پروموٹرز کے ساتھ چپقلش کا باعث بنے گی، شکوک و شبہات کا جنم لینا قدرتی امر ہوگا۔ توقع یہی ہے کہ اس نمائش کے توسط سے، نصیر کاشانی کہنہ مشق سرکاری افسر رہے ہیں ،زمانہ شناس شخصیت دکھائی دئیے ہیں، مقامی مارکیٹ سے بہتر انداز میں متعارف ہو چکے ہوں گے اور اس مارکیٹ سے اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کرنے کے لئے بہتر لائحہ عمل ترتیب دے چکے ہوں گے، بشرطیکہ وہ اپنی حیثیت کو ڈنگ ٹپانے کے طور پر نہیں دیکھ رہے۔ اطلاعات کے مطابق او ای سی تقریبا بائیس ایل او آئیز اور ایک ایم او یو دستخط کر چکی ہے، ان دستخط شدہ ایل او آئیز اور ایم او یو سے کس طرح پاکستانی محنت کشوں کے لئے روزگار کے مواقع حاصل کرتی ہے، مستقبل میں اس کا پتہ چل جائیگا۔
دوسری طرف نجی پروموٹرز کی ایک بڑی تعداد اس نمائش میں شریک نظر آئی اور ہر پروموٹر کی یہ خواہش تھی کہ اسے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آئیں اور وہ یہاں سے پاکستانیوں کے روزگار کے حصول میں کامیاب ہو سکے۔ تاہم یہ پروموٹرز جہاں اس نمائش سے مسرور نظر آئے وہیں ان کے تحفظات بھی انتہائی واضح دکھائی دئیے کہ وہ نہیں چاہتے کہ سفارت خانہ کسی بھی حیثیت میں اس کاروباری میدان میں کسی ایک فریق کے ساتھ کھڑا دکھائی دے، ہر فریق کے لئے مواقع کھلے ہوں اور وہ میدان میں اپنے زور بازو سے کاروبار حاصل کرے۔ ان کے نزدیک اس وقت سفارت خانہ او ای سی کے لئے مارکیٹنگ کی ذمہ داری نبھا رہا ہے تاہم یہ ایک غلط تاثر ہی کہلایا جا سکتا ہے کہ مقامی مارکیٹ کے جو معیار نجی پروموٹرز نے طے کر رکھے ہیں، ان کے ہوتے ہوئے سفارت خانہ یا او ای سی نجی پروموٹرز کے کلائنٹس توڑنا اتنا سہل نہیں ہوگا۔ ایک نجی پروموٹر نے ایل او آئی دستخط کرنے والے ایک کلائنٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کا دس سال سے کلائنٹ ہے، جو آج او ای سی سے ایل او آئی دستخط کر رہا ہے، جس کا اسے سخت ملال تھا، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ اپنے ایک کلائینٹ کو دس سال سے خدمات دے رہے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی اور کو خدمت کا موقع دے؟ یا تو کلائنٹ فقط خانہ پری کر رہا ہے یا وہ واقعی آپ کی خدمات سے مطمئن نہیں، اگر وہ خانہ پری کر رہا ہے تو آپ بے فکر رہیں اور اگر آپ کی خدمات سے غیر مطمئن ہے تو پھر اس کا حق ہے۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ایک زمانہ تھا جب پاکستانی مصنوعات دنیا کے کونے کونے میں برآمد ہوتی تھی لیکن ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی بدولت آج ہم صرف افرادی قوت برآمد کرنے کے قابل رہ گئے ہیں، کہ افرادی قوت کے لئے پاکستان میں نہ روزگار ہے اور نہ امن و امان، اس پس منظر میں کل تک سفارت خانے صنعتی مصنوعات کی برآمد کے لئے کاوشیں کرتے تھے لیکن آج وہ بھی افرادی قوت برآمد کرنے کی کاوشوں پر مجبور نظر آتے ہیں۔ یوں اس صنعت سے منسلک ہر شخص کا مقصد پاکستانیوں کے لئے بیرون ملک روزگار کا حصول ہی ہے لیکن پس پردہ طریقہ کار پر اختلاف ہے، مفادات پر اختلاف ہے وگرنہ ہر سٹیک ہولڈر پاکستانیوں کو بیرون ملک بھیج کر پاکستان کے لئے زر مبادلہ ہی کمانا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button