سیرتٍ سید المُرسلینؐ سے مُسلمین کی کردار سازی

راجہ شاہد رشید
عہد موجود میں کالم صحافتوں کے ’ پیو دادا‘ ، کالم نگاروں کے سپہ سالار اور باوقار کالم نگار جناب حسن نثار کو کئی سال قبل ایک محترم چیف ایڈیٹر جی نے اپنے کالم میں موصوف کو اسلام سکھانے اور اخلاقیات پڑھانے کی کوشش کی تو تب اس ذیشان بلکہ پردھان کالم نگار نے اپنے جوابی کالم میں کہا تھا کہ محترم مدیر اعلیٰ صاحب ! اتنا آپ کا اخبار نہیں چھپتا جتنی مجھے روزانہ ڈاک ملتی ہے۔ خیر اب تو بڑے بڑے اخبارات کی اشاعت کی تعداد بھی اس قدر کم ہو گئی ہے کہ دوسروں کو بتلاتے ہوئے بھی شرم محسوس کرتے ہیں اور ڈاک یعنی خط و کتابت کا تو رواج ہی نہیں رہا، ای میلز ، موبائل فونز اور واٹس ایپ پہ ہی یہ سب سلسلے چل رہے ہیں اور پیغام رسانی بھی با آسانی ہو رہی ہے مگر میں حیراں ہوں اور نازاں بھی کہ عصر حاضر میں بھی بفضل اللہ میرے گھر میں ڈاک رکتی نہیں آتی ہی رہتی ہے، ہر ہفتے دس دن بعد زیادہ نہیں تو ایک کتاب ضرور دستک دیتی ہے، حالانکہ ان سب کتب پر تبصرہ کرنا بھی میرے لیے اب ممکن نہیں رہا، کچھ عرصہ قبل معروف اسلامی سکالر، پیر صاحب آف بگھار شریف پروفیسر ڈاکٹر ساجد الرحمان صاحب کی ایک تصنیف کے حوالے سے ایک کالم قلمبند کرنے کے بعد یہ سلسلہ بند ہو گیا تھا اور حالات حاضرہ یعنی سیاست و حکومت و معیشت اور عام آدمی کی غربت ، بھوک و بے روزگاری کا ہی رونا روتا رہا کہ غریب کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے اور شعیب بن عزیز کے الفاظ میں:
شام گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا تو نظر نہیں آتا
آج پھر موضوع تبدیل کرتے ہیں اور بات کرتے ہیں رائے منظور ناصر کی کتاب سیرت النبیؐ کی، جو انتہائی اہم اور منفرد کتاب ہے، بلکہ سیرت سید المرسلینؐ کا لازوال خزانہ ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے مقصدٍ تصنیف بھی بتلایا ہے کہ میں نے یہ کتاب کیوں لکھی ، فرماتے ہیں کہ ’ میں نے بہت ہی چھوٹی عمر سے ہی حضرت محمدؐ کی سنتوں پر عمل کرنا شروع کر دیا تھا، کوئی کام خلاف سنت نہ کیا، زمانہ طالب علمی میں ہی سیرت مبارکہ کی درجنوں کتب پڑھیں اور یہ کتاب لکھنے کا ایک ہی بنیادی مقصد ہے کہ مسلمانوں کی کردار سازی کی جا سکے، اس لیے سیرت رسولؐ کے ساتھ 99عنوانات مزید شامل کئے ہیں تاکہ ہم سیرت طیبہ و تعلیمات نبوی سے اچھی طرح روشناس ہو سکیں اور ان پر عمل کر سکیں۔ سیف الملوکی بحر میں میرا اپنا ہی ایک شعر ہے کہ:
دغا دولت کم نہ دیسی نہ کر بندیا چھوڑ
پڑھ نبیؐ نی سیرت سُچی حق دروازہ لوڑ
مجھے بہت ہی اچھا لگا اس کتاب کا انتساب کہ ان لاکھوں علمائے کرام کے نام، جو حضور محمدؐ کے علم اور ممبر کے وارث ہیں، جنہوں نے روکھی، سوکھی کھا کر انتہائی نامساعد حالات میں بھی دین کی تعلیم حاصل کی اور جن کے دم قدم سے مساجد آباد ہیں، جو ہمارے بچوں کے کانوں میں اذان دیتے ہیں، دینی تعلیم دیتے ہیں، جو ہمارے نکاح پڑھاتے ہیں، جنازے پڑھاتے ہیں۔ جنہوں نے اس قوم کے دلوں میں عشق رسولؐ کچھ اس طرح کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے کہ ہم حرمتٍ رسول محمدؐ پر کٹ مرنے کو تیار ہیں۔ آج بھی صرف یہی درویش ہیں جو مسئلہ بتانے اور راہ حق کی طرف رہنمائی کرنے کی کوئی فیس نہیں لیتے جبکہ کئی اور پیشے محض مشورہ دینے کی بھاری فیس
وصول کرتے ہیں۔ ان سب واجب التکریم ہستیوں کو میرا سلام !۔ رائے منظور ناصر وائس چانسلر خاتم النبیین یونیورسٹی، سیکرٹری حکومت پنجاب اور ممبر CMمعائنہ کمیشن ہیں۔ موصوف نے اس کتاب کے حوالے سے 50لاکھ روپے کے انعامات کا اعلان کیا اور فرمایا کہ سیرت النبیؐ کی یہ کتاب پڑھیں اور جیتیں لاکھوں کے انعامات، اس کتاب کے کوئز مقابلے کرائے جائیں گے، آپ حاصل کریں ثواب بھی اور انعام بھی، پہلا انعام 20لاکھ روپے ہے اور اس کے علاوہ 100لوگوں کو انعام سے نوازا جائے گا ، پہلا مقابلہ لاہور میں ہوگا۔ کوئز مقابلے میں شمولیت کے لیے داخلہ فارم اور کتاب منگوانے کے لیے اس نمبر: 03441182211پر رابطہ فرمائیے۔ مصنف رائے منظور ناصر فرماتے ہیں کہ میں اس بات پر ہمیشہ کڑہتا رہتا تھا کہ سب نبیوںٌ کے سردار حضرت محمدؐ کی امت کی اخلاقی حالت اتنی بری کیوں ہے کہ بیٹا ماں باپ کو قتل کر رہا ہے ، معاشرے کی بنیادیں ہی ہل گئی ہیں ۔ میں نے برسوں اس مسئلے پر غور و فکر کیا تو اللہ اور رسول نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اس اخلاقی ابتری کو ٹھیک کرنے کا صرف ایک ہی نسخہ ہے اور وہ ہے کہ سب لوگوں کو سیرت النبیؐ سے روشناس کرایا جائے ۔ میں مصنف رائے منظور ناصر کو یہ قیمتی کتاب رقم کرنے پر دل کی گہرائیوں سے داد دیتا ہوں اور مبارکباد بھی، انہیں سلام پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ حاکم بر حق مصنف سمیت ہم سب کو حُب رسول محمدؐ کے خزانوں سے مالا مال فرمائے، آمین۔ میرا اپنا ہی ایک اور شعر ہے کہ:
علم نمازاں پیچھے رہسن تے نسبت نال ریائی
حشر دیہاڑے بخشے جاسن جنہاں نال محمدؐ لائی