Column

انتخابات کے نتائج اور اثرات

یاور عباس
ملک کی دو بڑی صوبائی اسمبلیوں کے پی کے اور پنجاب کے قریباً ایک سال بعد اور قومی اسمبلی سمیت دیگر دو صوبوں سندھ اور بلوچستان میں قریباً 5ماہ بعد انتخابات کا عمل شروع ہوچکا ہے، سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود ریاست پاکستان نے دو بڑی صوبائی اسمبلیوں میں 14مئی کو الیکشن نہ کرائے اور اس مقصد کے حصول کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے بناکر سپریم کورٹ کے احکامات کی پروا کیے بغیر انتخابات کو التوا میں ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے چہ مگوئیاں ہی نہیں خدشات تھے کہ ملک بھر میں پی ڈی ایم کی حکومت آئینی مدت پوری کرنے کے باوجود حکومت نہیں چھوڑے گی اور اسے کی مدت میں اضافہ کر لے گی اور اگر ایسا نہ ہوا تو نگران حکومت سے طویل مدت تک کام لیا جائے گا، یہ تمام تر حربے محض ریاستی اداروں سے ٹکر لینے والی جماعت پی ٹی آئی کے وجود کو ختم کرنے اور اس کے چیئرمین سابق وزیر اعظم عمران خاں کو سیاست سے آئوٹ کرنے کے لیے تھا۔ پی ٹی آئی اور عمران خان مسلسل الزام لگاتے رہے کہ ریاستی اداروں نے تمام کرپٹ جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن کو این آر او 2دیا ہے اور لندن پلان کا خوب چرچا رہا جس کے بارے عمران خاں پہلے ہی بتاتے رہے کہ مجھے گرفتار کیا جائے گا، پارٹی توڑی جائے گی اور الیکشن کے لیے نوازشریف کو کھلا میدان فراہم کیا جائے گا، پھر نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ دنیا بھر نے دیکھا کہ نو مئی کے واقعہ کے بعد کس طرح پی ٹی آئی کے لیے سیاست شجر ممنوعہ بنانے کی کوشش کی گئی، پی ڈی ایم حکومت میں پی ٹی آئی نے بطور اپوزیشن پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں حیران کن نتائج دے کر اپنی واضح مقبولیت کے جھنڈے گاڑ لیے تھے، تمام سیاسی جماعتیں اس نتیجہ پر پہنچ چکی تھی کہ اگر صورتحال یہی رہی تو عمران خاں دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکومت بنالے گا اور یوں ماضی میں چار دہائیوں سے حکومتیں کرنے والی جماعتوں کی نہ صرف چھٹی ہوجائے گی بلکہ انہیں کرپشن کیسز کے ذریعے سزائیں بھی ملیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کی تمام مخالف سیاسی جماعتوں نے پی ڈی ایم کے جھنڈے تلے جمع ہونے کو عافیت جانا تھا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن جنرل ( ر) پرویز مشرف کے بعد دس سال تک میثاق جمہوریت کے تحت باری باری حکومتیں کرتی رہیں اور فرینڈلی اپوزیشن کا کردار بھی ادا کرتی رہیں ، پھر حصول اقتدار کے لیے مسلم لیگ ن سے نہ صرف ہاتھ ملائے بلکہ روزانہ کی جپھیوں نے عوام کی آنکھوں پر بندھی پٹی کھول دی ، یہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر انتخابات کے موقع پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں مگر عوام انہیں ایک ہی سکے کے دو رُخ کے طور پر پہچان کر کوئی خاص اہمیت نہیں دے رہے اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں کے پارٹی چھوڑنے اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندیوں پارٹی رہنمائوں کو کال کوٹھڑیوں میں بند کرنے، ورکروں پر بے تحاشا مقدمات اور گرفتاریوں کے باوجود جتنے بھی سروے کرائے گئے ہیں عمران خاں کے ووٹ بینک میں کمی نہیں واقع ہوئی بلکہ یہ کہا جائے تو بے جان نہ ہوگا کہ ووٹ بینک میں اضافہ ہی ہوا ہوگا۔ ایسے حالات میں سنا جارہا ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کی اقساط انتخابات سے مشروط نہ ہوتیں تو شاید نگران حکومت سے ہی کام چلایا جاتا۔ انتخابی مراحل شروع ہوچکے ہیں مگر انتخابی گہما گہمی ملک بھر میں کہیں بھی نظر نہیں آرہی تاحال سیاسی ڈیروں پر وہ رونقیں نظر نہیں آرہی جو ماضی میں ہوا کرتی تھیں، نہ حلقوں میں کوئی جلسے، نہ کوئی انتخابی ریلی، نہ کوئی پوسٹر، نہ لوگوں کے گھروں اور گاڑیوں پر جھنڈے نظر آرہے ہیں، شاید عوام اور سیاسی پارٹیاں ابھی بھی انتخابات ہونے یا نہ ہونے کے بارے تذبذب کا شکار ہیں۔
8فروری 2024ء کو انتخابات کے حوالے سے اب آرمی چیف، نگران وزیر اعظم اور الیکشن کمشنر کی جانب سے تسلیاں کرائی جارہی ہیں کہ الیکشن ہر صورت میں ہوجائیں گے اور الیکشن میں پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں کو لیول پلینگ فیلڈ دی جائے گی مگر انتخابات کے پہلے مرحلے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے جو مناظر ملک بھر میں دیکھے گئے کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کے ساتھ جیسا سلوک کیا گیا تاریخ میں ایسی مثالیں نہیں ملتیں ، امیدواران کے علاوہ ان کے تجویز اور تائید کنندگان کو بھی گرفتار کرلیا گیا، کئی اہم ورکروں کو بھی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں ، مسلم لیگ ق کے قائد چودھری شجاعت حسین کی ہمشیرہ کے ساتھ جو سلوک گجرات میں ہوا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ بزرگ خاتون کو سارا دن کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے ذلیل و خوار کیا گیا اور پھر جب کاغذات جمع کر لیے گئے تو دھکے مارے گئے، زمین پر گرا دیا گیا اور پرس چھین کر فرار ہوگئے، محض کاغذات نامزدگی کی رسید حاصل کرنے کے لیے اور وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ وہ چودھری پرویز الٰہی جو پی ٹی آئی کے مرکزی صدر ہیں ان کے ساتھ تھیں، ریاست کی جانب سے ایسے سلوک پر چودھری شجاعت حسین کی ہمشیرہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نہ صرف اپنے بھائیوں کو لعن طعن کی بلکہ اس پورے سسٹم کو ننگا کر دیا اور کہا کہ دفعہ کرو، لعنت ڈالو ایسے الیکشن پر سپریم کورٹ کو یہ ڈرامہ بند کرا دینا چاہیے، ہمیں صرف بتائیں کہ یہ یہ لوگ ہیں جن کو ہم منتخب کرنا چاہتے ہیں، ہم آمین کر لیں گے، ہمیں ذلیل و خوار تو نہ کیا جائے۔
اللہ کرے کہ 2024ء کے انتخابات شفاف ہوں اور عوامی امنگوں کے عین مطابق عوامی حکومت بنے ، وگرنہ جو صورتحال نظر آرہی ہے یہ تاریخ کے بدترین الیکشن ہونے جارہے ہیں، پہلے صرف دھاندلی کے ہی الزامات لگتے تھے مگر حقیقت یہی ہے کہ ان انتخابات میں ایک مقبول عوامی جماعت کو غیر مقبول ثابت کرنے کے چکر میں پتہ نہیں کیا کیا تجربات کیے جائیں گے ، بہت سارے سیاستدان اور سینئر صحافی پہلے سے ہی نتائج کے علم ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں، ماضی میں ہم نے 1970ء کے انتخابات کے نتائج دیکھے جس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہوگیا، پھر 1977ء کے نتائج دیکھے جس کے نتیجے میں ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا، تاریخ سے ہمیں سبق سیکھتے ہوئے شفاف اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے ملک کو آگے بڑھانا چاہیے۔ اگر 2024ء کے انتخابات کو بھی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ طریقہ سے نہ کروایا گیا تو ملک میں معاشی، سیاسی استحکام پیدا نہ ہوسکے گا اور یوں ملکی مسائل حل نہیں ہوسکیں گے ۔

جواب دیں

Back to top button