Column

سوشل میڈیا یا کھوچل میڈیا

عبد الماجد ملک
بندر کے ہاتھ میں ماچس آ جائے تو خدشہ ہوتا ہے کہیں پورا جنگل ہی راکھ کا ڈھیر نہ بن جائے، یہی حالت موجودہ زمانے کی ہے کہ سوشل میڈیا کا ہتھیار ہمارے ہاتھوں میں ہے اور ہم اس کے استعمال سے ناآشنا ہیں تبھی تو مسائل جنم لے رہے ہیں، نفرتیں پل رہی ہیں اور اختلاف کے نام پہ توُ تو میں میں بھی جاری ہے۔
فیس بک میں کاپی پیسٹ ٹرینڈنگ جاری ہے، ٹوئٹرپر بھی نفرت آمیز ہیش ٹیگ اور ٹرینڈ بنائے جا رہے ہیں ، رہی بات یو ٹیوب کی تو وہاں کے کمالات ہی الگ ہیں اور دیگر سوشل ایپس کے کرشمے دیکھیں تو کانوں کو ہاتھ لگانے پڑ جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں تاہم اس کے نقصانات ایسے بھیانک ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ نوجوان نسل اس جدید ہتھیار کی بدولت تباہی کے گڑھے میں گرتی جا رہی ہے اور سبھی کھڑے تماشا تک رہے ہیں اور تماشا دیکھنے والے بھی شاید اس کی زد میں آجاویں کیونکہ یہ کھیل کچھ ایسا ہی ہے۔
ففتھ جنریشن وار کا سنا تھا کہ وہ ٹیکنالوجی کی بدولت لڑی جائے گی اور موجودہ حالات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ہم اس جنگ میں داخل ہو چکے ہیں جس میں لعن طعن، طنز و تشنیع، گالم گلوچ، الزام تراشی، بہتان بازی اور برا بھلا کہنے سے بات کہیں آگے کی جانب بڑھتی دکھائی دیتی ہے، معاشرہ جس طرف تیزی سے گامزن ہے بات ریاست کی رٹ تک جا پہنچی ہے، اداروں سے ٹکرائو اور ان کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈے سوشل میڈیا کی بدولت ہی نظر آ رہے ہیں اور ہماری جنریشن سوشل میڈیا کی وجہ سے نہایت آسانی سے دشمن کا آلہ کار بننے چلی ہے جو کہ المیہ ہے۔
ہمارا معاشرہ ترقی کی شاہراہ پہ چلتے چلتے تنزلی کی جانب پھِر چکا ہے، دیگر سوشل ایپس کے کرشمے دیکھئے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے اور یہیں سے پھر ایک نئی سمت کی طرف ہمارے سفر کا آغاز ہوتا ہے وہ لیکس کا زمانہ ہے، جس میں بات تصاویر سے بڑھ گئی ہے، آڈیو اور ویڈیوز تک جا پہنچی ہے اور وہ ویڈیوز بھی ایسی فحش کہ زبان بے اختیار استغفار کا ورد کرنا شروع کر دے۔
زیادہ دور نہ چلئے بس صرف دو عشرے قبل کسی نے سوچا تھا کہ ہم کسی کو آمنے سامنے دیکھ پائیں گے ،باتیں کریں گے اور اپنے خیالات ایک دوسرے سے شیئر کریں گے، لیکن ٹیکنالوجی کی بدولت اب سب ممکن ہے کہ ہزاروں میل کے فاصلے پہ بیٹھے لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں اور ان سے باتیں بھی کرتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کی افادیت مسلمہ ہے اور اس کی اہمیت سے انکار نہیں تاہم سوچنا یہ ہے کہ ہمارے ہاتھ میں گیجٹس دے دیئے گئے ہیں اور اب ہم پہ منحصر ہے کہ ہم نے اس کا استعمال کیسے کرنا ہے، جیسا کہ ہماری تخلیق کے بعد دو راستے رکھ دیئے گئے کہ ہم نے نیکی کے راستے کا چناؤ کرنا ہے یا پھر بدی کی راہ کا انتخاب۔
سوشل میڈیا ایک ایسا گھنا درخت ہے جس کی کئی شاخیں ہیں لیکن ہمارے یہاں زیادہ تر فیس بک کا استعمال کیا جاتا ہے، کئی لوگ یوٹیوب بھی دیکھتے ہیں، چند ایک ٹوئیٹر پر ہیں اور کئی دیگر ایپس پہ موجود ہیں ۔
موجودہ زمانہ ڈیجیٹل کا ہے اور میڈیا کی اکثریت بھی اس پہ شفٹ ہو چکی ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ ایسے نمونے بھی اس میدان میں وارد ہوئے جنہیں صحافت کی الف بے کا علم ہے اور نہ ہی وہ اس میدان کے کھلاڑی ہیں، جس کی وجہ سے صحافت سے وابستہ لوگ بھی پریشان ہیں لیکن اس حوالے سے اب یہ بہتری کی کچھ کرن نظر آئی ہیں کہ کچھ لوگ میدان عمل میں اترے ہیں جنہوں نے ان ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ لوگوں کو جوڑنا شروع کر دیا ہے جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے، ان کی ٹریننگ ورکشاپس کا انعقاد بھی ہو رہا ہے اور سیکھنے سکھانے کا عمل بھی جاری ہے، لیکن بات وہی ہے کہ حکومت اس حوالے سے کیا پالیسی ترتیب دے رہی ہے؟ سوشل میڈیا کے بے لگام گھوڑے کو کوئی نکیل ڈالی جائے گی یا ڈیجیٹل میڈیا کے پلیٹ فارمز کو کسی دائرے میں لایا جائے گا؟۔ اس سے قطعاََ یہ مطلب اخذ نہ کر لیجئے کہ خدا نخواستہ میری خواہش ہے کہ یہ پلیٹ فارمز بھی پابندیوں کی زد میں آ جائیں، آزادی اظہار رائے کا شدید حامی ہوں لیکن اظہار رائے کے نام پہ تضحیک کرنا مناسب نہیں، بس اتنی گزارش ہے کہ حکومت ان پلیٹ فارمز کو کسی دائرے کار میں لے آئے کیونکہ وقت بھی اس کا تقاضا کرتا ہے، دور بھی ڈیجیٹل کا ہے اور ہماری زندگی بلکہ روزمرہ میں سوشل میڈیا کا استعمال بھی حد سے زیادہ ہو چکا ہے۔

جواب دیں

Back to top button