Columnمحمد مبشر انوار

آف کلر پاکستان کرکٹ ٹیم

محمد مبشر انوار( ریاض)
یوں تو پاکستان تقریبا ہر شعبہ زندگی میں تنزلی کا شکار ہے لیکن کھیلوں کی دنیا میں پاکستان نے عالمی سطح کے سپوت پیدا کئے ہیں، جنہوں نے کھیل کے میدانوں میں نہ صرف اپنا نام کمایا ہے بلکہ پاکستان کا پرچم بھی بلند رکھا ہے اور پاکستان کو پہچان دی ہے۔ ایک کھیل /کھلاڑی سے، ملک و قوم کی توقعات اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ عالمی سطح پر ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے، ملک و قوم کا سر فخر سے بلند رکھے، جس پرچم کے سائے تلے وہ اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہاہے، اس کی آن و شان کے لئے اپنی تمام تر مہارت بروئے کار لا کر کامیابیاں سمیٹے۔ گو کہ پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ اس کھیل کے لئے پاکستانی کھلاڑیوں کے پاس سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے، ان کا مشاہرہ انتہائی کم تر ہے، اس کھیل سے قوم کا پیار، محبت، عشق نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود ایک عرصہ تک پاکستان ہاکی ٹیم نے، کھیل کے میدانوں میں قومی پرچم کو بلند رکھا ہے۔ ہاکی کے کھلاڑیوں کی عالمہ درجہ بندی میں پاکستانی کھلاڑی سرفہرست رہے کہ اس کی وجہ ان کا کھیل سے جنون کی حد تک عشق رہا ہے اور وہ کھلاڑی قومی سر پرستی نہ ہونے کے باوجود،اپنی صلاحیتوں کو ہمہ وقت نکھارنے میں مشغول رہے، کھیل کے میدان میں فریق مخالف کے لئے ایک خوف طاری کئے رکھا لیکن آج وہ ساری حقیقتیں قصہ پارینہ بن چکی اور عالمی سطح پر غیر تو کیا، اپنے بھی قومی کھیل کے کھلاڑیوں کی شناخت کرنے سے قاصر ہیں۔ ایسا ہی کچھ حال سکواش کے ساتھ اس ملک میں ہواکہ ایک خاندان کے چشم و چراغ نے کئی برس تک سکواش کورٹ میں پاکستان کا پرچم گرنے نہیں دیا اور اس کے بعد ایک اور سپوت اسی عزم اور ولولے کے ساتھ منظر عام پر آیا اور ریکارڈز کے انبار چھوڑ کر سکواش کورٹ سے رخصت ہوا اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ غرضیکہ کسی بھی کھیل کا ذکر کریں، ہمیں انفرادی حیثیت میں کھلاڑی نمایاں پوزیشن لیتے دکھائی دیتے ہیں لیکن کسی بھی ٹورنامنٹ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ہی ان کا نام سرکاری سطح پر سننے میں آتا ہے اور بدقسمتی دیکھئے کہ اپنے ذاتی حالات کے باعث ایسے کھلاڑی فقط ایک یا دو ٹورنامنٹس میں دکھائی دیتے ہیں، بعد ازاں ان کا نام بھی کہیں سنائی نہیں دیتا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ وزیر کھیل اور ان کے تحت بروئے کار آنے والا محکمہ، ایسے گوہر نایاب کی سرپرستی کریں اور انہیں مسلسل رہنمائی و سہولت فراہم کریں تا کہ وہ اپنے کھیل کو بغیر کسی پریشانی کے مزید نکھار کر ملک و قوم کا نام روشن کریں لیکن عموما ہوتا اس کے برعکس ہے۔
کرکٹ، تاہم ایک ایسا کھیل ہے کہ جس کی محبت و عشق اس قوم کے دلوں میں ایسی رچ پس گئی ہے کہ اسے نکالنا بظاہر نا ممکن دکھائی دیتا ہے، گو کہ کرکٹ میں پاکستان صرف ایک مرتبہ عالمی فاتح بنا ہے لیکن اس کھیل سے عوام کی رغبت انتہائی زیادہ ہے۔ کہا جاتاہے کہ کرکٹ شرفا کا کھیل ہے لیکن بدقسمتی سے اگر پاک و ہند کے پس منظر میں اس کھیل کو دیکھا جائے تو یہ مقولہ غلط ثابت ہو رہا ہے کہ پاک و ہند کے مقابلوں کی فضا نے اس کھیل کی قسمت کو گہنا دیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان عمران خان نے ہندوستان کو یہ چیلنج تک دے دیا تھا کہ اگر وہ کشمیر کا فیصلہ پاک و ہند کرکٹ میچ کے فیصلے سے کرنا چاہتے ہیں، تو کھیل کے میدان کشمیر کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ ایسے وقت میں اور ایک ایسے مسئلے پر اتنا بڑا اور بے باک چیلنج، وہی شخص دے سکتا ہے جسے اپنے زور بازو پر کمال کا اعتماد ہو وگرنہ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ کشمیر دونوں ممالک کے لئے زندگی و موت کا مسئلہ ہے۔ تاہم ہندوستان نے عمران خان کا یہ چیلنج قبول نہیں کیا جس کی دو ہی وجوہات سامنے آتی ہیں کہ یا تو ہندوستان عمران خان سے خوفزدہ تھا یا پھر وہ مسئلہ کشمیر کا حل کسی اور طریقے سے چاہتا ہے۔ اس گمان میں بہرطور کسی حد تک حقیقت ہے کہ عمران خان ٹیم کو لڑانا جانتا تھا اور ہمیشہ اس نے ٹیم کو فرنٹ سے لیڈ کیا ہے، اس لئے غالب امکان یہی تھا کہ ہندوستان ایسا میچ ہار بھی سکتا تھا لہذا چیلنج سے صرف نظر کرنا ہی بہتر راستہ تھا۔ بعد ازاں یہ روایت بھی دیکھنے کو ملی کہ بتدریج، پاک وہند کانٹے کے مقابلوں میں، پاکستان سے انفرادی مقابلوں میں ہندوستان کتراتا رہا لیکن عالمی مقابلوں میں اس کا پلڑا بھاری ہوتا گیا اور ایک مفروضہ حقیقت کا روپ دھارتا رہا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کسی بھی عالمی مقابلے میں ہندوستان سے نہیں جیت سکتی۔ یہ نفسیاتی داؤ ہندوستان مسلسل کھیلتا رہا اور پاکستانی کرکٹ ٹیم عالمی مقابلوں میں میدان میں ہندوستان کرکٹ ٹیم کے سامنے بے بس نظر آتی،اس کی ابتداء درحقیقت1996کے ہندوستان میں منعقد ہونے والے ورلڈ کپ سے شروع ہوئی تھی کہ جب پاکستانی کپتان وسیم اکرم آخری لمحات میں میدان سے باہر ہو گئے تھے اور ہندوستان نے وہ میچ جیت لیا تھا، پس پردہ کیا کہانیاں تھی، وہ سب منظر عام پر آ چکی ہیں، دہرانے کا فائدہ نہیں۔ بعد ازاں! فریقین کے درمیان کرکٹ کے مقابلوں میں نتائج ایسے ہی رہے تا آنکہ چمپئنز ٹرافی میں ہندوستانی معروف شخصیات کے انتہائی رکیک جملوں کے بعد پاکستان ٹیم نے ہندوستان کا بھرکس نکال کے رکھ دیا اور دنیائے کرکٹ کو یہ سمجھا دیا کہ ہندوستان کے مفروضے میں قطعا کوئی دم نہیں اگر پاکستانی کرکٹ ٹیم کو میدان میں مقابلہ کرنے کے لئے کسی بیرونی دبائو کاسامنا نہ ہو تو پاکستانی ٹیم با آسانی ہندوستانی ٹیم کو شکست دے سکتی ہے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے پس پردہ کیا کھیل رچائے جاتے ہیں، ان کا ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ جیسے ہی ٹیم میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے تو ابتداء میں نئی تبدیلی کو بھرپور حمایت کی جاتی ہے، لیکن جیسے جیسے گرفت مضبوط ہوتی ہے، اس کے خلاف پینترے بدلے جاتے ہیں۔ دوسری طرف ہندوستان میں دیکھیں تو وہاں کھیلوں اور کھلاڑیوں کے درمیان ہونے والی چپقلش کو ختم کرنے کے لئے فلمیں بنا کر، انہیں ہندوستانی ہونے کا پیغام دیا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ کھلاڑی کی ذاتی انا، قومی مفاد کے سامنے صفر ہوتی ہے، جب معاملہ قوم کا ہو تو ذاتی رنجشیں اور مفادات کو قربان کر دیا جاتا ہے تا کہ ملکی مفادات کا تحفظ کیا جاسکے، نتیجہ یہ ہے کہ وہاں کھیلوں کے میدان اور ان سے باہر کھلاڑیوں میں ہو آہنگی نظر آتی ہے، البتہ پسند و ناپسند ذاتی حیثیت میں اپنی جگہ رہیں بھی لیکن ٹیم میں اس کا اثر انتہائی کم ہو چکا ہے۔اس کے برعکس پاکستان میں ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر اہل،قابل اور مستحق کھلاڑی ٹیم میں جگہ بنانے میں ناکام رہتے ہیں جبکہ ان کی جگہ ایسے کھلاڑی ٹیم میں نظر آتے ہیں جن کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے لیکن اس کے باوجود منظور نظر ہونے کے باعث وہ ٹیم کا حصہ رہتے ہیں۔ منظور نظر کہیں یا یوں سمجھ لیں کہ کسی دوسرے باصلاحیت کھلاڑی کا ٹیم میں شامل ہونا، ذاتی حیثیت کو متاثر کر سکتا ہو لہذا یہ رسک لینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ خیر حالیہ ایشیا کپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی نے ان خامیوں کو آشکار کر دیا ہے کہ ایل پی ایل کھیلنے کے باوجود، وہاں کی کنڈیشنز سے آشنا ہونے کے باوجود، پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی حسب توقع کیوں نہ رہی اور ٹورنامنٹ کی سب سے فیورٹ ٹیم کیسے مقابلے سے باہر ہو گئی؟ انہی وکٹوں پر ہندوستانی و سری لنکن بائولرز نے تباہ کن بائولنگ نہیں کی؟ شاہین شاہ آفریدی نے یہ کیسے تصور کر لیا کہ اگر انہیں ابتدائی اوورز میں وکٹ نہیں ملتی تو یہ ان کی توہین ہے ؟ یا اس کے بعد ان کی لائن لینتھ پر قابو ان کے کنٹرول سے باہر ہے؟ اسی طرح شاداب خان کی صورتحال ہے کہ وہ ایک مایہ ناز بائولر ہے مگر درمیانی اوورز میں وہ اتنا خطرناک نہیں رہا، جتنی اس سے توقع کی جاتی ہے، اسے کون بہتر بنائے گا؟
میری نظر میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کو متحد کرنے میں بابر اعظم کے کردار سے کسی کو کوئی انکار نہیں لیکن اس حقیقت سے نظریں چرانا بھی نا ممکن ہے کہ پس پردہ کھیلی جانے والی چالیں، یقینا میدان میں کھلاڑیوں پر اثر انداز ہو رہی ہیں، کرتا دھرتا نہیں چاہتے کہ بابر اعظم کے سر یہ تاج سجے، لہذا ٹیم میں اختلافات اور بابر پر تنقید اس امر کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ بابر کو پردہ سکرین سے ہٹایا جانا مقصود ہے۔ ایسی ہی صورتحال سلیکشن و کوچنگ میں نظر آ رہی ہے کہ بہرطور پس پردہ کھچڑی تیار ہورہی ہے اور ٹیم نے جو کامیابیاں سمیٹی ہیں، ان سے ڈس کریڈٹ کرنے کا سامان ہو رہا ہے وگرنہ عقل تسلیم نہیں کرتی کہ ایک جیسی کنڈیشن میں ہندوستانی و سری لنکن و افغانی و بنگلہ دیشی ٹیمز کی پرفارمنس تو ٹھیک ہو لیکن پاکستانی ٹیم ، جو ہارٹ فیورٹ تھی، مکمل طور پر آف کلر نظر آئے، ہمیں اپنی صفوں کو درست کرنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button