وزیراعلیٰ محسن نقوی کی خدمت میں

امتیاز عاصی
انگریز سرکار نے جن قیدیوں کا اندرون جیل کنڈکٹ تسلی بخش ہوتا تھا وہ اپنی قیدی کا ایک تہائی حصہ گزار چکے ہوتے تھے انہیں پیرول پر رہا کرنے کا قانون بنایا تھا۔ اس قانون پر پنجاب میں شہباز شریف کے دور تک زور و شور سے عمل جاری رہا اور سیکڑوں قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی گئی۔ پی ٹی آئی دور سے اب تک پیرول پر رہائی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔ اس وقت پنجاب میں صرف پندرہ قیدی پیرول پر رہا ہیں جو آئندہ ماہ رواں میں پیرول کا عرصہ مکمل ہونے پر رہا ہوجائیں گے۔ پی ٹی آئی دور میں کینیڈا کی طرز پر قیدیوں کو پیرول پر رہا کرنے کی تجویز زیر غور لائی گئی اس مقصد کے لئے لاکھوں روپے خرچ کرکے ایک سافٹ ویئر بنا یا گیا اور قیدیوں کی کلائی پر چپ لگانے کے لئے تیاریاں شروع ہو گئیں پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کی بجائے یہ کام فائلوں میں گم ہو گیا۔ قیدیوں کی پیرول پر رہائی کے لئے ایڈیشنل سیکرٹری ہوم کی سربراہی میں کمیٹی برسوں سے کام کر رہی ہے جس کی سفارشات ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم کو بھیج کر منظوری لے لی جاتی تھی۔ جب سے کابینہ کی کمیٹی کے حوالے یہ کام ہوا ہے قیدیوں کی پیرول پر رہائی خواب بن گیا ہے۔ نگران حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پیرول کمیٹی کے کئی اجلاس ہوچکے ہیں، جب سے ایک قیدی کو رہائی نہیں ملی ہے۔ ظاہر ہے سیاسی لوگوں کو قیدیوں کی رہائی سے کیا لینا دینا ہے انہیں اپنے مفادات کے سوا عوام کے مسائل سے کیا دل چسپی ہو سکتی ہے۔ پنجاب کی جیلوں کے سو سے زائد قیدیوں کے کیس پیرول کے لئے تیار ہونے کے باوجود گزشتہ سولہ ماہ کے دوران کسی ایک قیدی کو پیرول پر رہائی نہیں مل سکی۔ بدقسمتی سے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے ایساکا ماحول پروان چڑھا ہے ہر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرکے ملک کو Bnana Republicبنا دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی دور میں قیدیوں کو پیرول پر رہا کرنے کی تجویز پر عمل درآمد نہیں ہو سکا تھا تو پرانے طریقہ کار کے مطابق قیدیوں کی رہائی میں کون سا امر مانع ہے۔ ایک طرف جیلوں میں جگہ
کی تنگی کا رونا رویا جاتا ہے دوسری طرف قیدیوں کو قانون کے مطابق رہا نہیں کیا جاتا ۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی آئے روز جیلوں اور ہسپتالوں کا دورہ کرکے مریضوں اور قیدیوں کے مسائل حل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ اس ناچیز کے خیال میں قیدیوں کی پیرول پر رہائی کا معاملہ وزیراعلیٰ کے علم میں نہیں لایا گیا ہے ورنہ یہ ممکن نہیں قیدیوں کی پیرول پر رہائی کا معاملہ سولہ ماہ سے التواء میں پڑا ہو۔ عجیب تماشا ہے ایڈیشنل سیکرٹری ہوم کی سربراہی میں قائم پیرول بورڈ نے قریبا ستر قیدیوں کی پیرول پر رہائی کی سفارش کی ہے نگران کابینہ کی اس مقصد کے لئے بنائی گئی کمیٹی کے ہونے والے تین چار اجلاسوں میں کسی ایک قیدی کو رہا نہیں کیا گیا ہے ان قیدیوں کی رہائی ہوجاتی ہے تو ایک لمبی چھوڑی قیدیوں کی فہرست ابھی باقی ہے جن کا معاملہ پیرول بورڈ میں لایا جانا مقصود ہے ۔ ملک و قوم کی ا س سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی آئین اور قانون بنا دیئے دیئے جاتے ہیں عمل درآمد کا وقت آتا ہے تو قوانین مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ قیدیوں کے جرم اپنی جگہ ایک قتل پوری انسانیت کا قتل ہے مقتول کے لواحقین چند ماہ رونے کے بعد صبر کر لیتے ہیں موت اور عمر قید کی سزا پانے والے قیدیوں کے اہل خانہ ہر روز مرتے اور جیتے ہیں۔ سزائے موت میں برسوں رہنے والے قیدی ذہنی طور پر ٹھیک نہیں رہتے۔ عمر قید میں آنے کے بعد انہیں لنگر اور فیکٹری کی مشقت پر بھیجا جاتا ہے تو ان کی حالت زار دیدنی ہوتی ہے۔ بعض قیدی نفسیاتی مریض بن چکے ہوتے ہیں جنہیں جیل کے پاگل خانے کی بیرک میں رکھا جاتا ہے۔ پنجاب کی جیلوں میں ماہرین نفسیات کی تعنیاتی ہو چکی ہے جو قابل تحسین ہے جس سے کم از کم ایسے قیدیوں کا علاج معالجہ ممکن ہوگیا ہے ورنہ قیدیوں کو جیل سے باہر ہسپتال بھیجنے کی منظوری لینے میں کئی ماہ لگ جاتے تھے۔ نگران وزیراعلیٰ نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے ترقیاتی کاموں پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں میں مریضوں اور جیلوں میں قیدیوں کی فلاح و بہبود پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی قیدیوں کی پیرول پر رہائی کے معاملے کا گزشتہ کئی ماہ سے التواء میں رہنے کا فوری نوٹس لیں گے۔ صوبے کی جیلوں میں جہاں تک افسران کی تعیناتی کی بات ہے جب سے وزیراعلیٰ جناب محسن نقوی نے اقتدار سنبھالا ہے سپرنٹنڈنٹس اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس کی تعیناتی میرٹ پر ہو رہی ہے۔ صوبے کی سنٹرل جیلوں میں کئی سپرنٹنڈنٹ ایسے لگائے گئے ہیں جو سب اچھا نہیں کرتے جس سے قیدیوں کے لواحقین پر مالی بوجھ کم ہو گیا ہے ۔ پنجاب میں کئی ہزار چھوٹی قید والے قیدی پروبیشن پر رہا ہو چکے ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے عمر قید کی سزا کاٹنے والے ان قیدیوں کو پیرول پر رہا کرنا چاہیے جن کا کنڈکٹ تسلی بخش اور وہ اپنی قید کا ایک تہاءی حصہ کاٹ چکے ہیں۔ پیرول پر رہائی کے قانون کی موجودگی اور سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں صوبائی حکومت کو ایسے قیدی جو اپنی قید کا ایک تہائی حصہ گزار چکے ہیں انہیں پیرول پر رہا کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنے اہل خاندان کا سہارا بن سکیں۔ پی ٹی آئی دور میں پیرول کے محکمہ کی تنظیم نو پر کروڑوں روپے خرچ کرکے نئی اسامیاں تخلیق کی گئیں جس کا مقصد محکمہ کی کارکردگی کو بہتر بنانا تھا۔ پیرول پر قیدیوں کو رہا نہیں کرنا تو محکمہ کی کیا ضرورت ہے۔ پیرول پر قیدیوں کی رہائی سے جہاں ایک طرف قومی خزانے پر مالی بوجھ میں کم کرنے میں مدد ملتی ہے وہاں جیلوں میں نئے آنے والے قیدیوں کے لئے رہنے کی گنجائش بھی پید ا ہونے میں مدد ملتی ہے۔ ہمیں امید ہے وزیراعلیٰ پنجاب قیدیوں کی پیرول پر رہائی میں تاخیر کا فوری نوٹس لیں گے۔ سپریم کور ٹ نے ایک مرتبہ پھر قیدیوں کی پیرول پر فوری رہائی کا حکم دے دیا ہے۔