بلاگتازہ ترینخبریں

آج بمقابلہ کل : ایک پریم کتھا

تحریر: سلمان طارق

سب مذاہب پرانے اور بے عمل ہوئے، آج تو بس ایک ہی دھرم باقی بچا ہے۔ اب بس ہر سو اسی کی پرستش ہوتی یے، اسی سے گھر چلتا یے، اسی سے سماج میں عزت بنتی یے، نئی ذات پات کی تقسیم بھی اب اسی کے مرہون منت ہے۔ جو جتنی زیادہ بڑھ چڑھ کر پرستش کرے گا، معاشرے میں اعلی مقام پائے گا، افضل کہلائے گا۔

اس مذہب سے متعلق پہلی دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس مذہب کا کوئی نام نہیں ہے، نام تو کیا اسکا نہ کوئی عیسی نہ موسی نہ کرشنا، نہ بدھا، کوئی نہیں ہے۔ دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ اسکی کہیں کوئی عبادت گاہ نہیں ہوتی، یہ مذہب صرف دلوں میں بستا ہے اور دماغوں پر گہرے اثر چھوڑتا ہے جس کا عکس پھر حرکات و سکنات و انداز زندگی سے واضح ہوتا ہے ۔ تیسری دلچسپ بات یہ یے کہ اسے ماننے اور پرستش کرنے والے بظاہر اس کے انکاری ہوتے ہیں، بیٹھکوں میں بیٹھ کر اس کی برائیاں کرتے ہیں اور محفلوں میں اس کی شان میں گستاخی بھی کھلم کھلا کرتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ اس مذہب کا کوئی نام نہیں ہے مگر اس کی عبادت یا پرستش کرنے والے ایک دوسرے کو حقارت سے مادہ پرست کہتے ہیں۔

مادہ پرستی کے بنیادی نظریے کے مطابق انسان کو ‘ہر حال’ میں ‘بے حال’ رہنا ہے۔ ہاتھ آئی خوشی کو بھی کل پر ٹالنا ہے۔ ایک ہی دکھ پر کئی لمحے، کئی دن کئی راتیں برباد کرنی ہیں اور اگر دو خوشی کے لمحے نصیب ہوں تو مستقبل کے خوف کے ہاتھوں فٹا فٹ اسے دریائے ماضی میں بہا کر دوڑ کے ‘دکھ پا جی’ سے لپٹ جانا ہے، صرف لپٹنا ہی نہیں بلکہ ندامت میں اس سے معذرت بھی کرنی ہے کہ ‘دکھ پا جی’ معافی دے دو میں بھٹک گیا تھا اور برائے مہربانی میرے ‘کل’ کا کچھ کرو۔

اب یہ ‘کل’ کا ماجرا یہ ہے کہ ‘کل’ کا وجود ہی نہیں۔ جہاں دیکھو یہی رویہ ہے کہ بھائی کل کی بہت پریشانی ہے۔ کل کے لئے کچھ کرنا ہے۔ پوچھو کہ تم آج سانس لیتے ہو، جو آج ہے اس پر اطمینان محسوس کرتے ہو ؟ جواب ہوگا کہ نہیں بھائی آج تو بڑی دقت ہے اطمینان تو کل ہی محسوس کریں گے۔ پوچھو کہ آج رزق نصیب ہوا، مرضی کا لباس بھی پہن رکھا ہے، محنت کرتے ہو کیا آج اس پر شکر بھی کرتے ہو؟ جواب ہوگا کہ نہیں بھائی یہ سب تو کافی نہیں ہے، مزہ نہیں آرہا۔ شکر تو ‘کل’ کریں گے جب وہ سب نصیب ہوگا جو آج نصیب نہیں ہے۔ پوچھو کہ تمہارے سب اپنے تمہاری زندگی کا حصہ ہیں، تمہیں پیار کرتے ہیں، اس پر خوشی محسوس کرتے ہو؟ جواب ہوگا نہیں بھائی، یہ خوشی ووشی محسوس کرنے کی فرصت ہی کہاں ہے۔ اسکی فرصت بھی کل ہی نکالیں گے۔

یعنی ہر ‘آج’ کو برباد کر کے ماضی میں پھینکا اور پھر ماضی میں جھانک کر اسی ‘آج’ کو ندامت سے تکنا اور کہنا کہ بھئی وہ ‘آج’ یعنی وہ وقت اچھا تھا۔ روز کہتے ہیں کہ آج نہیں، کل جئیں گے۔ دل میں رنجشیں آج نہیں، کل ختم کریں گے۔ اپنے ‘حال’ پہ مطمئین آج نہیں ‘کل’ ہوں گے۔ مسکراہٹیں ‘آج’ نہیں ‘کل’ سمیٹیں گے۔ اور پھر یونہی کل کل کرتے عمر تمام کچھ یوں کرتے ہیں کہ ہر ‘آج’ کو موت کے گھاٹ اتار کر ‘کل’ ہوتے ہی خود قبر میں اتر جاتے ہیں اور منیر نیازی کا یہ مصرع بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں کہ
~ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button