آخر کب تک
امتیاز عاصی
دہشت گردی کا شکار بلوچستان کے عوام اپنی محرویوں کا رونا کب تک روتے رہیں گے، وزراء اعظم دوروں کے دوران جو وعدے کر آتے ہیں ان کے ایفا کی نوبت نہیں آتی آخر کیوں بلوچستان وفاق کی اکائی نہیں ہے۔ این ایف سی ایوارڈ ہو یا ترقیاتی کاموں کے لئے فنڈ کوئی ایک تو وعدہ پورا کر دیا ہوتا۔ سیلابوں کے دوران متاثرین کے لئے اربوں کی امداد کا وعدہ کرنے کے باوجود صوبے کو ایک پائی نہیں ملی۔ ملک وجود میں آیا تو قلات، مکران ، خاران اور لسبیلہ برطانوی حکومت کے زیرتسلط آزاد ریاستیں تھیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے خان آف قلات میر احمد یار خان سے ملاقات کرکے ریاست کا الحاق پاکستان سے کرنے کی درخواست کی۔ یہ قائد کی مساعی جمیلہ کا ثمر تھا تمام ریاستوں کے قائدین نے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کر لیا۔ خان آف قلات اور قائد کے درمیان ہونے والے معاہدے میں دفاع، کرنسی اور خارجہ امور وفاق کے پاس تھے جب کہ بقیہ تمام امور صوبے کے پاس ہونے چاہیے تھے۔ قائد کی زندگی نے وفا نہ کی وہ کم عرصے میں دنیا سے رخصت ہو گئے جس کے بعد معاہدے پر آج تک عمل نہیں ہو سکا۔ بلوچستان کا ایک دیرینہ مطالبہ چلا آرہا ہے این ایف سی ایوارڈ آبادی کی بجائے بلوچستان کے رقبے کے لحاظ سے دیا جائے۔ این ایف سی ایوارڈ دیتے وقت کابینہ اور ایف بی آر کے نمائندوں نے صوبے کو فنڈز دینے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے، جس میں ماسوائے ایک وفاقی وزیر کے بلوچستان کی سیاسی اعتبار سے کوئی نمائندگی نہیں ہوتی۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے این ایف سی ایوارڈ کے معاملے کو مشترکہ مفادات کی کونسل میں رکھا جائے تو کم از کم این ایف سی ایوارڈ کی حد تک صوبے کے محرومیوں کا ازالہ ممکن ہے۔ مشترکہ مفادات کی کونسل میں سندھ، کے پی کے کی نمائندگی سے اس بات کی امید کی جا سکتی ہے دونوں صوبے بلوچستان کو زیادہ سے زیادہ فنڈ دینے کی حمایت کر سکتے ہیں۔ تعجب ہے وفاق کا اتحادی ہونے کے باوجود وزیراعلیٰ بلوچستان کو کہنا پڑ ا ہے وفاق کی اس اکائی کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ ایک سال قبل دس ارب متاثرین سیلاب کو دینے کا وعدہ کرنے کے باوجود ایک پائی نہیں دی گئی جو صوبے کے عوام کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ وفاقی حکومت نے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کا فیصلہ صوبے کی 1998ء کی آبادی کے مطابق کیا تھا ۔2017ء اور 2023ء میں دوبارہ مردم شمار ہوئی ہے اصولی طور پر صوبے کو تازہ ترین مردم شماری کے مطابق این ایف سی ایوارڈ کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ ایک اردو معاصر کی خبر کے مطابق این ایف سی ایوارڈ نہ ہونے کی وجہ سے صوبے کو دس ارب سالانہ کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ صوبے کے پاس پیسے نہ ہونے سے بجٹ کی تیاری میں مشکلات کا سامنا ہے اس کے باوجود وفاقی حکومت کو پروا نہیں۔ بلوچستان کے عوام کا ایک بڑا شکوہ یہ ہے آئین میں دیئے گئے حقوق سے لوگوں کو محروم رکھا گیا ہے جو قرین انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ آئین میں صوبے کو دیئے گئے حقوق میں صوبوں کے قدرتی وسائل صوبوں کی ملکیت ہیں اس کے برعکس صوبوں کے وسائل پر وفاق کی اجارہ داری ہے۔ ریکوڈک مثال سب کے سامنے ہے صوبے کو آئین کے مطابق اس کے حصے سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ گوادر میں مچھلیاں پکڑنے کا کنٹریکٹ صوبے کی بجائے وفاق کر رہا ہے حالانکہ آئین میں متعین ایریا کے وسائل صوبوں کی ملکیت ہیں۔ درحقیقت بلوچستان قیام پاکستان سے اب تک ترقی سے مسلسل محروم چلا آرہا ہے البتہ جو ترقیاتی کام جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوئے کسی سیاسی حکومت کے دور میں نہیں کئے گئے بلکہ صوبے کے عوام کو وعدوں پر ٹرخایا جاتا رہا ہے۔ ریکوڈک کے منصوبے سے ملنے والی تمام رقم صوبے کو دے دی جائے تو وہاں کے غریب عوام کے محرویوں کا کچھ نہ کچھ ازالہ ممکن ہے۔ بلوچستان کے غریب عوام پینے کے پانی سے محروم چلے آرہے ہیں، صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں لوگوں کو پینے کا پانی وافر مقدار میں میسر نہیں ہے۔ چاغی جیسے ضلع میں پانی دوسرے شہروں سے ریل کے ذریعے لایا جاتا ہے۔ گویا بلوچستان کے لوگ زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے یہاں کے عوام دہشت گردی کا شکار ہیں تو اس کی بڑی وجہ لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ صوبے کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگاری کے مواقع مہیا کئے جاتے تو وہاں کے رہنے والے دہشت گردی کا شکار نہیں ہو سکتے تھے۔ گو دہشت گردی کی اور بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، تاہم سب سے بڑی وجہ وہاں بے روزگاری ہے۔ وزیراعلی ٰ بزنجو نے قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا تو ان کے ایک وزیر نے اجلاس میں شرکت کر لی، جسے وزارت سے ہٹا دیا گیا ہے، بلکہ چیف سیکرٹری کو سرنڈر کرنے کا مراسلہ وفاق کو جاری کر دیا گیا ہے۔ چیف سیکرٹری نے ویڈیو لنک سے اجلاس میں شرکت کی تھی۔ ایک عام تاثر یہ ہے بلوچستان کے سردار اور وڈیرے ترقی نہیں ہونے دیتے، ہم اس سے اتفاق نہیں کرتے ۔1989کی بات ہے ہمارے ایک مہربان ڈاکٹر ظفر اقبال قادر ڈپٹی کمشنر کولہو تھے، نے مرحوم نواب اکبر بگٹی کے تعاون سے کولہو میں طالبات کے لئے سکول کی بنیاد رکھی۔ اس وقت بلوچستان میں تعلیمی فائونڈیشن کے آٹھ تعلیمی ادارے مسلم باغ، مستونگ، قلعہ سیف اللہ، لورالائی اور پشین میں کامیابی سے چل رہے ہیں۔ فائونڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر اقبال قادر جو وفاقی سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں، نے بتایا بلوچستان کے علاوہ سندھ میں چمبر اور جام شورو میں فائونڈیشن کے سکول کام کر رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے بلوچستان سے پاکستان کی سول سروس میں آنے والی طالبات کی نصف تعداد کا تعلق تعلیمی فائونڈیشن کے تعلیمی اداروں سے ہوتا ہے۔ ان تعلیمی اداروں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والی تین سو سے زائد خواتین اساتذہ تعلیم و تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ وفاقی حکومت کو صوبے کی پسماندگی دور کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک وہاں کے عوام کو ترقی سے کیوں محروم رکھا گیا ہے؟۔ نجی تعلیمی اداروں کی طالبات ملکی ترقی میں ہاتھ بٹا سکتی ہیں تو وہاں کے بے روزگار نوجوانوں روزگار اور تعلیمی سہولتیں دے کر صوبے کی ترقی میں شامل کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچستان کے عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھنے کا سلسلہ آخر کب تک جاری رہے گا؟۔