ColumnMazhar Ch

ہم عالمی سیاحت میں پیچھے کیوں؟

مظہر چودھری

گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں مقامی سیاحت کو تو کافی فروغ حاصل ہوا ہے لیکن ماضی اور حال کی حکومتوں کے تمام تر دعوئوں اور عزائم کے باوجود پاکستان کی عالمی سیاحتی آمدن میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہو رہا۔ سابقہ حکومت کے سربراہ ترکی اور ملائیشیا سمیت دیگر ملکوں کی مثالیں دیتے ہوئے عالمی سیاحت کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کر تے رہے لیکن دیگر کئی شعبوں کی طرح وہ اس ضمن میں کوئی قابل ذکر بہتری نہ لا سکے۔ جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو انہوں نے ابھی تک عالمی سیاحت کے فروغ کے لیے عزم کا اظہار ہی نہیں کیا۔ دیگر معاملات کی طرح اس معاملے پر توجہ نہ دینے کی سب سے بڑی وجہ سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت اور سیاسی جماعتوں کی شدید قسم کی محاذ آرائی پر مبنی سیاست ہے۔ زیادہ پیچھے نہ جائیں ، 2013سے 2023تک کے ملکی حالات اور ملکی سیاست کا مشاہدہ کر لیں۔ کیا اس طرح کے سیاسی و معاشی عدم استحکام والے ماحول میں غیر ملکی سیاحوں کو سیاحت کے لیے راغب کیا جا سکتا ہے۔؟ ورلڈ ٹورازم انڈیکس پر نظر دوڑائیں تو 178ممالک میں سے پاکستان کا نمبر130واں ہے اور ہم عالمی سیاحت سے نصف ارب ڈالر بھی نہیں کما رہے۔ عالمی سیاحت سے حاصل ہونے والی ہماری کل آمدنی35کروڑ ڈالر سے کچھ زائد ہے جو کہ ہماری مجموعی جی ڈی پی کا صرف0.12فیصد بنتا ہے۔ ہمارے مقابلے میں بھارت کی عالمی سیاحتی آمدنی27ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور وہ اپنی جی ڈی پی کا1.1فیصد عالمی سیاحت سے کماتا ہے۔ امریکہ کی سیاحتی آمدنی دیگر کسی بھی ملک سے بہت زیادہ ہے تاہم معیشت کا حجم بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی اس کی جی ڈی پی کا صرف1.1فیصد بنتی ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ عالمی سیاحت سے 200ارب ڈالر سے زائد کما تا ہے ۔ دوسرے نمبر پر سپین ہے جس کی سیاحتی آمدنی 68ارب ڈالر ہے جو کہ اس کی جی ڈی پی کا5.2فیصد کے برابر ہے۔60ارب ڈالر کے ساتھ فرانس تیسرے اور 57ارب ڈالر کے ساتھ تھائی لینڈ چوتھے نمبر پر ہے۔ جی ڈی پی کے حوالے سے دیکھیں تو فرانس اپنی جی ڈی پی کا2.3فیصد جبکہ تھائی لینڈ 12.6فیصد عالمی سیاحت سے حاصل کرتا ہے۔51ارب ڈالر سیاحتی آمدن کے ساتھ انگلینڈ پانچویں نمبر پر ہے جو کہ اس کی کل جی ڈی پی کا2فیصد بنتی ہے۔
ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورازم کونسل کے مطابق عالمی سطح پر30کروڑ فرا د سیاحت کے پیشے سے منسلک ہیں اور اس شعبے سے حاصل ہونے والی آمدنی عالمی جی ڈی پی کا قریبا10.2فیصد کے لگ بھگ رہتی ہے۔ کوویڈ کے دو سالوں میں سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی نصف کے قریب رہ گئی تھی لیکن گذشتہ سال سے عالمی سیاحت پھر سے گلوبل جی ڈی پی میں 10فیصد کے قریب حصہ ڈال رہی ہے۔ ڈبلیو ٹی ٹی سی کے مطابق پاکستان میں سیاحت کے بہترین مواقعوں کے باوجود اس شعبے کا معاشی ترقی میں حصہ بہت کم ہے۔ اگرچہ گذشتہ چند سالوں سے سیکورٹی صورتحال بتدریج بہتر ہونے سے پاکستان میں غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن عالمی سطح پر اس شعبے میں ہم ابھی بھی بہت پیچھے ہیں۔ عالمی سطح پر سیاحت کے حوالے سے درجہ بندی کرتی ہوئے فہرست میں شامل ممالک کی ویزا پالیسی، سیاحتی ترجیحات، سیاحوں کو راغب کرنے کی حکمت عملی، سیاحتی انفرا سٹرکچر اور ہوٹلزکے معیار جیسے انڈیکیٹرز کو مد نظر رکھا جاتا ہے ۔ واضح رہے کہ غیر ملکی سیاحوں کی تعداد کے حوالے سے ملکی آبادی اتنی اہمیت کی حامل نہیں جتنا ویزا پالیسی، سکیورٹی کی صورتحال، سیاحتی انفرا سٹرکچر، سیاحوں کو ملنے والی سہولیات اور ملک کا مذہبی یا سیکولر تشخص اہمیت رکھتا ہے۔ درج بالا انڈیکیٹرز کو سامنے رکھا جائے تو ہم گزشتہ چار سالوں سے ویزا پالیسی سے لے کر سیاحوں کو عالمی معیار کے مطابق سہولیات فراہم کرنے کے ضمن میں کچھ خاص نہیں کر پائے۔ غیر ملکی جریدوں نے پاکستان کو ایک سے زائد بار بہترین سیاحتی مقام قرار دیا لیکن ہم بروقت منصوبہ بندی سے وہ ماحول نہ بنا سکے جس کو دیکھتے ہوئے یہاںغیر ملکی سیاحوں کا تانتا بندھ جاتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں قدرتی حسن سے مالامال بے شمار سیاحتی مقامات بھی ہیں، برف سے لدے بلند و بالا پہاڑی سلسلے بھی ہیں، سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرنے والے عالمی ثقافتی ورثے بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے ہاں مذہبی سیاحت کا بھی زبردست پوٹینشل موجود ہے لیکن سیکورٹی، رہائش، کھانے پینے کی سستی معیاری اشیائ، صفائی کا معیار، معلومات کی عدم فراہمی اور ایمرجنسی سہولیات نہ ہونے جیسے سنجیدہ مسائل کے باعث غیر ملکی سیاح ہمارے ہاں آنے کو ترجیح نہیں دیتے۔
عالمی سیاحت کے پیچھے رہ جانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ابھی بھی سیکورٹی ہی ہے۔سیاحوں کی ساتھ سیکورٹی تو ہوتی ہے لیکن اگر ایک غیر ملکی سیاح اسلام آباد سے گلگت جاتا ہے تو درجنوں مقامات پر ان کی چیکنگ کی جاتی ہے جس سے وہ مزید گھبرا جاتا ہے۔ہر پوائنٹ پر سیاحوں کے لیے ضروری معلومات جیسے نقشوں کی فراہمی کے مراکز نہیں ہیں۔طبعیت خراب ہونے یا بیمار پڑنے کی صورت میںملکی و غیر ملکی سیاحوں کے لیے کئی سیاحتی مقامات پر ایمر جنسی کی سہولیات نہیں ہیں ۔ہماری ملکی سیاحت بھی زیادہ تر مری اور گلیات سمیت چند ایک سیاحتی مقامات کے گرد گھوم ہی ہے حالانکہ ہمارے ہاں مری سے کہیں زیادہ برف باری والے پہاڑی سلسلے موجود ہیں۔مری میں رش کی سب سے بڑی وجہ مری تک پہنچنے کے لیے موٹرویز اور ہائی ویزکی موجودگی ہے۔ہمیں دیگر پہاڑی سلسلوں میںمری جیسے شہر منصوبہ بندی کے ساتھ بسانے پر ہوم ورک کرنا چاہیے ۔ ایسے شہروں تک رسائی کے لیے اگر سبک رفتار ٹرینیں چلانے کا انتظام ہو جائے تو ملک بھر سے سیاح وہاں تھوڑے وقت میں پہنچ سکتے ہیں۔ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ سیاحت صرف رنگین قدرتی نظاروں کو دیکھنے اور تاریخی وثقافتی ورثوں کی سیر تک محدود نہیں بل کہ سیاحت کے کچھ اور بھی لوازمات ہوتے ہیں ۔ ہمارے ہاں ایک کی بجائے تین تین ساحل موجود ہیں ۔ ہم اگر کسی ایک بھی ساحل پر سیاحوں کو ان کے کلچر کے مطابق ماحول دینے کا بندوبست کر لیں تو ہم صرف ساحلی سیاحت سے اربوں ڈالر کما سکتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہترکرکے ہم مذہبی سیاحت کو فروغ دے سکتے ہیں۔ دنیا سے الگ تھلگ رہ کر یامعاشرے کوسخت قسم کی پابندیوں میں جکڑ کر عالمی سیاحت کا فروغ ممکن نہیں۔ سعودی عرب جیسا اسلامی تہذیب و روایات رکھنے والا ملک اگر وقت کے تقاضوں کا ادراک کرتے ہوئے اپنے بند معاشرے کو کھول سکتا ہے تو ہم سخت گیری پر کیوں اڑے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب عالمی سیاحت کے فروغ کے لیے اپنے صحرا ئوں میں سرسبز اور جدید ترین سہولتوں سے مزین شہر بسا سکتا ہے تو ہم سیاحت کو زبردست قدرتی پوٹینشل رکھنے کے باوجود عالمی سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرنے میں کیوں ناکام ہیں؟

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button