سعودی عرب ، ایران تعلقات کے عالمی اثرات
قادر خان یوسف زئی
ایران نے باقاعدہ سعودی عرب میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا، جو دونوں علاقائی حریفوں کے درمیان مثبت تعلقات میں فروغ اور دیرینہ مسائل کے حل کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا جارہا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں مدو جزر صرف چند برسوں تک محدود نہیں بلکہ دونوں ممالک کئی دہائیوں سے سیاسی دشمنیوں، مذہبی اختلافات اور پراکسی تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں بدترین کشیدگی اس وقت دیکھنے میں آئی جب 2016میں تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ ہوا ۔ مذہبی رہنما شیخ نمر باقر النمر کی سزائے موت نے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید تلخی پیدا کردی ۔ اس واقعے کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہوگئے جس کے نتیجے میں دونوں ممالک میں دوری اور کشیدگی کا ایک طویل دور شروع ہوا۔
توقع کی جا رہی ہے کہ سفارت خانے کے دوبارہ کھلنے سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ان معاملات پر پیش رفت ہوسکتی ہے جو کئی دہائیوں سے مشرق وسطی میں تسلط اور اثر رسوخ بڑھانے کی کوشش کے نتیجے میں بند ہوچکے تھے۔ دونوں ممالک یمن، شام، عراق اور لبنان جیسے کئی تنازعات میں مخالف فریقوں کی حمایت اور ایک دوسرے پر مداخلت ، مسلح گروپوں کی سرپرستی اور خطے کے امن کو غیر مستحکم کرنے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ سفارت خانہ کھلنے اور چین کے خطے میں اہم کردار اور ثالثی کے بعد ایران اور سعودی عرب کے درمیان با ضابطہ سفارتی چینلز قائم ہوئے ہیں، جو براہ راست مواصلات، تنازعات کے حل اور مشترکہ علاقائی چیلنجوں پر تعاون کے امکانات کے لئے ایک بہتریں پلیٹ فارم ہے۔ ماضی کے تلخ واقعات اور سخت دور کے تجربے کو مد نظر رکھتے ہوئے بد اعتمادی کی فضا کو ختم اور علاقائی سلامتی، دہشت گردی اور استحکام جیسے اہم معاملات پر زیادہ موثر مکالمے کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ امید ہے کہ اس سے کشیدگی میں کمی آئے گی، استحکام کو فروغ ملے گا اور مشرق وسطیٰ میں امن اور ترقی کے مواقع پیدا ہوں گے۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی بحالی میں پیش رفت کے باوجود کئی ایسے دیرینہ معاملات ہیں جو امید افزا امکانات پیدا ہونے کے باوجود متعدد چیلنجوں اور ممکنہ رکاوٹوں کا سامنا رہ سکتا ہے۔ یہ زمینی حقیقت ہے دونوں ممالک علاقائی پالیسیوں میں گہرے اختلافات، جغرافیائی سیاسی رقابت اور تاریخی شکایات مشرق وسطیٰ کی حقیقی تبدیلی میں غیر لچک دار سخت گیر موقف رکھتے ہیں۔ جن کا علاقائی اور بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت کی وجہ سے پیچیدہ صورت حال میں نتائج کے حل میں ہونے رکاوٹ پیدا ہونے کے تحفظات ہیں۔ سفارت خانے کے دوبارہ کھلنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تمام تصفیہ طلب مسائل اور تنازعات حل ہو گئے ہیں یا ان کی دشمنی ختم ہو گئی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان مختلف معاملات پر اب بھی گہرے اختلافات اور عدم اعتماد موجود ہیں، جیسے کہ ایران کا جوہری پروگرام، اس کی بیلسٹک میزائل کی صلاحیت، مسلح گروپوں اور ملیشیائوں کی حمایت، عراق اور لبنان میں اس کا کردار، اس کے ساتھ تعلقات کا ایک صفحے پر آنے کا مرحلہ دشوار گزار عمل ہے۔
اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ایسے عناصر جنہیں ایران اور سعودی عرب کے تنازعات سے فوائد حاصل ہو رہے تھے وہ اپنے مفادات کے لئے دونوں ممالک کے درمیان نئے تعلقات کو پیچیدہ یا کمزور بنانے کے لئے سر گرم رہیں گے ۔ مثال کے طور پر، امریکہ، جو سعودی عرب کا قریبی اتحادی اور ایران کا سخت مخالف ہے، نے ایران کی جوہری سرگرمیوں اور علاقائی رویے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے، اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے ’’ تمام آپشنز میز پر‘‘ رکھیں گے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے گزشتہ روز سعودی عرب کا دورہ کیا، تقریباً ایک گھنٹہ 40منٹ تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں سوڈان سے امریکیوں کے انخلا کے لیے سعودی عرب کی حمایت، یمن میں سیاسی مذاکرات کی ضرورت اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے امکانات سمیت مختلف موضوعات پر بات ہوئی۔ ایک اور عنصر جو ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو متاثر کر سکتا ہے وہ دونوں ممالک کی ملکی سیاست اور رائے عامہ ہے۔ سفارت خانے کو دوبارہ کھولنے سے سخت گیر یا انتہا پسندوں کے ردعمل یا تخریب کاری کا بھی سامنا ہو سکتا ہے جو اس عمل کو پٹڑی سے اتارنے یا اس میں خلل ڈالنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
سعودی عرب میں ایران کے سفارت خانے کا دوبارہ کھلنا مشرق وسطیٰ میں ایک نئے دور کی ایک مثبت اور امید افزا علامت ہے، لیکن یہ ان تمام مسائل اور چیلنجوں کی ضمانت یا علاج نہیں ہے جو خطے کو لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ رکاوٹوں کو دور کرنے اور ایک پائیدار اور تعمیری تعلقات استوار کرنے کے لیے دونوں طرف سے مسلسل کوششوں، باہمی اعتماد، خیر سگالی اور سمجھوتہ کی ضرورت ہوگی جو ان کے مشترکہ مفادات اور ان کے لوگوں کے لیے فائدہ مند ہو۔ اسے دوسرے علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں کی حمایت اور مشغولیت کی بھی ضرورت ہو گی جو مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کو یقینی بنانے میں ذمہ داری کا حصہ ہیں سعودی عرب میں ایرانی سفارت خانے کا دوبارہ کھلنا مشرق وسطیٰ میں ایک نئے دور کے لیے ایک تاریخی موقع ہے۔ سفارتی تعلقات کی بحالی کے ذریعے ایران اور سعودی عرب مذاکرات، تعاون اور استحکام کے مشترکہ عزم کی جانب قدم بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ چیلنجز اور رکاوٹیں بدستور موجود ہیں لیکن پائیدار روابط اور عملی سفارتکاری علاقائی حرکیات میں تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بین الاقوامی برادری کو ان مثبت پیش رفتوں کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔