عالمی یومِ بحر: سمندروں کی اہمیت و افادیت اُجاگر کرنے کا دن
سیدہ انوشہ
بچپن سے پڑھتے آئے ہیں کہ پاکستان اللہ کی دی ہوئی ایک نعمت، ایک انعام ہے، جو دنیا کے باقی ممالک کی نسبت ہر حوالے سے بہتر ہے۔ جیسے ہمارا مُلک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، یہاں چاروں موسم، لہلہاتے، ہرے بَھرکھیت، بلند و بالا پہاڑ، پھل دار باغات، زرخیز زمین، نہریں، آبشاریں اور سمندر ہے، لیکن کبھی سوچا ہے کہ اس قدر نعمتوں سے مالا مال ملک ترقی کی دوڑ میں پیچھے کیوں ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں ہر نعمت، قدرتی وسائل ہونے کے باوجود ان وسائل کا صحیح اور بھرپور استعمال نہیں کیا جاتا یا شاید وہ ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ اس بات کا اندازہ ایسے لگا لیں کہ دَورِ حاضر میں پوری دنیا نیلی معیشت یا بلیو اکانومی سے مستفید ہو رہی ہے، لیکن اسے بد قسمتی کہیے یا ہمارے مقتدر حلقوں کی عدم دلچسپی کہ پاکستان کا سمندر قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اس سے اس طرح استفادہ نہیں کیا جارہا، جیسے کرنا چاہیے تھا۔ واضح رہے، دُنیا کی اسّی فی صد سے زائد تجارت بذریعہ سمندر ہوتی ہے۔ دنیا کا ستّر فی صد حصّہ پانی پر مشتمل، جب کہ صرف تیس فی صد خشکی پر ہے۔ اور ہمارے سمندر، گہرے پانیوں میں ایک الگ ہی جہاں آباد ہے، جہاں نایاب مچھلیاں، جھینگے سمیت دیگر آبی حیات بھی وافر مقدار میں موجود ہیں۔ نیز، واٹر اسپورٹس کا مناسب اور محفوظ انتظام کرکے سیاحت کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے، لیکن افسوس کہ یہ سب زاویے نظر انداز کرکے وطنِ عزیز کو صرف اور صرف ایک زرعی ملک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اس کی ایک چھوٹی سی مثال اس بات سے لے لیں کہ درسی کتب تک میں پاکستان کو ایک زرعی ملک بنا کر پیش کیا جاتا ہے، سمندری اہمیت پر بات ہی نہیں کی جاتی۔ حالاں کہ سچ تو یہ ہے کہ صرف نیلی معیشت ہی کو فروغ دے کر ہم اپنی معیشت اس قدر مضبوط بنا سکتے ہیں کہ یہ مُلک با آسانی اپنے پیروں پہ کھڑا ہو سکے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی سمندری حدود کا رقبہ 2لاکھ 90ہزار اسکوائر کلومیٹر ہے اور ہمارے پاس صرف تین بندرگاہیں ہیں، گوکہ مزید بندرگاہیں بنانا وقت کا تقاضا ہے، مگر کسی کو فکر نہیں۔ ماہرین کے مطابق ہم اپنی بلیو اکانومی کو مستحکم بنا کر ملک کی مجموعی قومی پیداوار کو کئی گنا تک بڑھا سکتے ہیں۔ جامع میری ٹائم پالیسی کے تحت پاکستان کے بہت متحرک بحری شعبے کی حکمت عملی میں جامع اصلاحات کرنا ضروری ہے کیوں کہ سی پیک کا منصوبہ مکمل ہوتے ہی پاکستان میں بحری سرگرمیاں کئی گنا بڑھ جائیں گی۔ عالمی تجارت میں بحری نقل و حمل سب سے اہم ذریعہ ہے اور کُل عالمی تجارت کے مجموعی حجم میں اس کا حصّہ دو تہائی سے زائد بتایا جاتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سمندر انسان کے لیے کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ دوسری جانب، یہ انسان کے لیے پروٹین کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ مختلف ممالک کے دعوں کے مطابق ان کے زیر انتظام رقبے میں سے 95فی صد تک سمندری حدود پر مشتمل ہے۔3ارب 50کروڑ انسان بنیاد ی خوراک کے لیے سمندر اور ساحلی وسائل پر انحصار کرتے ہیں۔ یونائیٹڈ نیشنز ڈپارٹمنٹ آف اکنامک اینڈ سوشل افیئرز کے مطابق زمین پر موجود 97فی صد پانی دراصل سمندر میں پایا جاتا ہے۔ تاہم سمندروں کے پانی کی آلودگی سے عالمی سطح پر ہر سال 12.8ارب ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔ سمندروں کی وسعت کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک انسان سمندری حیات کا صرف 10فی صد ہی دریافت کر پایا ہے۔ انٹر نیشنل چیمبر آف شپنگ کے مطابق 150ممالک میں رجسٹرڈ 50ہزار سے زائد بحری جہازوں کے ذریعے90فی صد عالمی تجارت ہوتی ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈویلمپنٹ کی رپورٹ ری ویو آف میری ٹائم ٹرانسپورٹ 2014ء کے مطابق چار دہائیوں (1968-2008ئ) میں سمندر کے راستے تجارت کے حجم میں 3گنا اضافہ ہوا۔2016کی رپورٹ کے مطابق پہلی مرتبہ سمندرکے راستے تجارت 10ارب ٹن سے بڑھ گئی تھی۔ اس کے باوجود سمندروں کے بارے میں بعض بہت تلخ حقائق بھی ہیں، جیسے ہر سال 6ارب 50کروڑ کلوگرام آلودہ پانی زمین سے سمندر کا حصہ بنتا ہے۔ زمین پر رکازی ایندھن جلنے سے پیدا ہونے و الی 30سے50فی صد تک کاربن ڈائی آکسائیڈ سمندر جذب کرتے ہیں۔ تاہم سمندروں کا درجہ حرارت بڑھنے سے ان کی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی صلاحیت کم ہو تی جارہی ہے۔ یعنی اگر ہم نے جلد اپنے سمندروں سے استفادہ کرنے اور انہیں آلودگی سے پاک کرنے، آبی حیات کو بچانے کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے، تو اس کے سخت نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔ ویسے دیکھا جائے، تو اس وقت پوری دنیا ماحولیاتی آلودگی کی لپیٹ میں ہے او ر سمندر بھی اسی دنیا کا حصّہ ہیں، جن میں بسنے والی آبی حیات بھی خطرے میں ہے، اسی لیے آج نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ آبی آلودگی، آبی حیات کو درپیش مسائل کے حوالے سے بھی بات کی جا رہی ہے۔ سمندروں کی اہمیت کے پیش نظر 1992میں ریو ڈی جنیرو میں اقوامِ متحدہ کی ماحولیات اور ترقی کی کانفرنس میں شرکت کرنے والے کینیڈا کے وفد نے سب سے پہلے سمندروں کو عزت، ان کی اہمیت کے پیش نظر ایک دن منانے کا خیال پیش کیا۔ تاہم، 1998تک اس خیال کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ 2002میں دو تنظیموں،ورلڈ اوشین نیٹ ورک اوردی اوشین پراجیکٹ نے پہلی بار دنیا بھر میں چڑیا گھر، ایکویریم اور ماحولیاتی گروپس کے اپنے نیٹ ورکس کے ساتھ یومِ بحر منایا۔ بعد ازاں، ان دونوں تنظیموں کی جانب سے اس دن کو منانے کی پُر زور اپیل اور مہم کے بعد اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2008میں باضابطہ طور پرعالمی یومِ بحر یا World’s Ocean Dayمنانے کا اعلان کیا۔ یاد رہے، عالمی یومِ بحر یا سمندروں کا عالمی دن ہر سال 8جون کو ایک تھیم کے تحت منایا جاتاہی اور رواں برس یہ دن Planet Ocean: Tides are Changingکے تھیم کے تحت منایا جائے گا۔ یہ دن منانے کا مقصد عالمی سطح پر سمندری وسائل کی افادیت اور اہمیت کے حوالے سے شعور و آگہی اُجاگر کرنا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال اس دن سائنسی اور تحقیقی ادارے، این جی اوز، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور تمام ممالک کے حکومتی ادارے عالمی سطح پر بحری وسائل کے بہتر اور پائیدار استعمال کے حوالے سے شعور کے فروغ میں سرگرم نظر آتے ہیں اور لاکھوں افراد کو متحرک کرتے ہیں۔ پاک بحریہ بھی یہ دن جوش و خروش سے مناتی اور اس دن کی مناسبت سے پروگرام ترتیب دیتی ہے، جس میں سیمینارز، ورک شاپس وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ملکی آبی سرحدوں کی پاسبان، پاک بحریہ نہ صرف جاں فشانی سے سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہے بلکہ اکانومی کو فروغ دینے اور دیگر ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے میں بھی آگے آگے ہے، جس کا مظہر رواں برس ہونے والی کثیرالقومی امن مشق 2023ء ہے، جس میں جدید ہتھیاروں، جنگی جہازوں، آبدوزوں کی نمائش، بحری مشقوں کے ساتھ سیمینار کا بھی انعقاد کیا گیا، جس میں بلیو اکانومی پر بھی بات چیت ہوئی، جس سے دنیا کو یہ پیغام گیا کہ پاکستان ایک پُر امن مُلک ہے، جو دفاعی طور پر مضبوط، ناقابلِ تسخیر ہونے کے باوجود بات چیت اور مفاہمت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔