Column

ریکارڈ توڑ جوا شروع

سیدہ عنبرین

محکمہ موسمیات کی اکثر پیش گوئیاں درست ثابت ہونے لگی ہیں، وجوہات دو ہیں، اس ادارے میں ایسے افراد آ گئے ہیں جو صاحب علم ہیں، انہوں نے اپنا مضمون ڈھنگ سے پڑھا ہے، دوئم جدید سائنسی آلات سے خوب خوب فائدہ اٹھایا جا رہا ہے، منگل اور بدھ کی درمیانی شب آنے والی آندھی کی اطلاع موجود تھی، یہ اس زور کی آندھی تھی کہ اس نے پنجاب کے بیشتر حصوں میں اپنا بھر پور زور دکھایا، شہر لاہور میں تنا آور درخت اکھڑ گئے، کچھ قریبی گاڑیوں پر گرے، اسی طرح بجلی کی تاریں ٹوٹیں اور پول بھی دوہرے ہوتے نظر آئے، یہ آندھی جدھر سے آئی ادھر نکل گئی، کچھ ژالہ باری ہوئی جس سے موسم خوش گوار ہو گیا ہے۔ گزشتہ ماہ سے میدان سیاست میں بھی ایسی ہی آندھی چل رہی ہے، کئی تنا آور درخت اکھڑ کر زمین بوس ہوتے نظر آئے، کچھ روتے دھوتے کچھ آہیں بھرتے نظر آئے، کچھ نے پریس کانفرنس کا سہارا لیتے ہوئے اقرار کیا کہ وہ تیز آندھی کا مزید سامنا نہیں کر سکتے، انکی طبیعت خراب ہے، ان پر ضعف طاری ہے وہ آرام کرنا چاہتے ہیں۔ گنتی کے چند درخت پابند سلاسل تھے، ان میں سے ایک بڑا درخت یعنی شاہ محمود قریشی ایک ماہ بعد مختلف مقدمات کی مختلف عدالتوں میں پیشیوں کے بعد بالآخر یوں رہا کئے گئے ہیں کہ عدالتی حکم کے مطابق اب انہیں مزید کسی مقدمے میں گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ شاہ محمود قریشی رہائی کے بعد پریس کانفرنس میں آئے تو انہوں نے حالت زار بیان کرنے کے بعد تحریک انصاف کے کارکنوں کو فقط ہلکی سی تسلی دی ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے چیئرمین سے ملاقات کے بعد میڈیا سے مفصل گفتگو کریں گے۔ انکی پریس کانفرنس انکی جماعت کے دیگر تمام ساتھیوں سے بہت مختلف تھی، وہ نہائے دھوئے، اجلے لباس میں بال قرینے سے بنائے آئے، انکے چہرے پر کسی بھی قسم کی پریشانی کے آثار نہ تھے، انہوں نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری نہ آنکھوں میں بلا ضرورت آنسو بھر لانے کی کوشش کی، انہوں نے مختصراً اپنی بات کہی اور مزید بات پھر کبھی کرنے کا کہہ کر چل دیئے۔ انہوں نے اپنے مختصر خطاب میں جن شخصیات کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ ان سب کے بہت ممنون ہیں جنہوں نے دوران قید انکے لیے دعائیں کیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کا خاص طور پر ذکر اس انداز سے کیا جیسے شاید وہ سب دودھ پیتے کمسن بچے ہوں اور سب نے بھر پور سیاسی استقامت کا مظاہرہ کیا ہو، وہ جس شان سے آئے اسی شان سے رخصت ہوئے، انہیں ایک مرتبہ پھر کہیں اور لے جانے کیلئے کوئی ڈبل کیبن گاڑی باہر نہ کھڑی تھی۔
وہ رہا تو ہو گئے ہیں لیکن بادی النظر میں یوں لگتا ہے جیسے اس نیک کام میں قدرے تاخیر ہو گئی ہے، سیاسی چھابہ الٹے تین ہفتے ہوچکے ہیں جس میں سب سے پہلا اور بڑا ہاتھ آصف علی زرداری نے مارا ہے، پچاس سے پچیس کے قریب ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ان کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں، آئندہ کچھ روز میں مزید اہم شخصیات پیپلز پارٹی میں شامل ہو سکتی ہیں۔ دوسری طرف جہانگیر ترین سیاسی جھاڑو پھیرتے نظر آئے ہیں، وہ بھی بہت کچھ سمیٹ چکے ہیں، ایسے میں شاہ محمود قریشی اگر اپنی چیئرمینی اور پارٹی کے قائد کے عہدے کو سینے سے لگا کر خان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ کس قدر کامیاب ہونگے، آنے والے پندرہ روز دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیں گے جبکہ منظر نامہ تو یہی دکھا رہا ہے کہ بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ گیا ہے، آنکھوں کا پانی مر چکا ہے جبکہ اورجس اہم جگہ پر پانی ہونا چاہیے وہاں پانی کا نام و نشان نہیں، ان حالات میں سیاسی کشتی کیونکر آگے بڑھے گی اور کیسے پار لگے گی۔ صورتحال کے تجزیے سے ایک اور بات بھی سامنے آتی ہے کہ اس نائو کو کسی پار پہنچانا مقصود نہیں، بس ضرورت اتنی ہے کہ کوئی ناخدا سامنے ہو اور آہستہ آہستہ چپو چلاتا نظر آئے، زیادہ سے زیادہ یہ کہ اگر نائو پانی کے زور پر کسی ناپسندیدہ سمت بہنا شروع کر دے تو اسے ادھر جانے سے روکا جائے ۔
جہانگیر ترین اپنے جھنڈے تلے جمع ہونے والوں کو کوئی نام تو دیںگے جو عنقریب سامنے آ جائے گا۔ صوبہ پنجاب کی سطح پر ایک گروپ کہیں اور اکٹھا ہوچکا ہے جو تیل اور تیل کی دھار دیکھنے کے بعد اپنے مستقبل کا فیصلہ کرے گا ۔ گویا تحریک انصاف کے تین دھڑے تو سامنے آ چکے ہیں جبکہ ہر طرف سے ناراض یا ٹھکرائے جانے والے حقیقی آزادی کی تلاش میں چوتھا گروپ بھی بنا سکتے ہیں ۔
غیر فطری لیڈر کی قیادت میں بننے والی سیاسی جماعتیں اقتدار کے مزے وقتی طور پر لوٹ بھی لیں انکا انجام غیر فطری ہی ہوتا ہے۔
تحریک انصاف کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یاد آئے گا کہ عمران خان پچیس برس تک اپنی سیاسی جدوجہد میں فقط ’’ڈھائی ٹوئٹروں‘‘ کو ہی ساتھ ملا سکے تھے پھر جب انہیں اور انکی سیاسی جماعت کو گود لیا گیا تو ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر سیاسی شخصیات کو اکٹھا کیا گیا اور تحریک انصاف کے پنجرے میں ڈال دیا گیا جو نیم دلی سے وہاں دانہ چگتے رہے مگر جس روز پنجرے کا دروازہ کھلا کسی نے بھی ٹھہرنا پسند نہ کیا، سب نئے باغوں میں نئے درختوں پر گھونسلا بنانے کیلئے خوشی خوشی پرواز کر گئے۔ چند ایک ہیں جو وہیں ہیں نہیں معلوم انکی قوت پرواز جواب دے گئی یا وہ قیادت سے حد درجہ مانوس ہو چکے ہیں یا پھر انہیں ابھی رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پنجرے کی کنڈی کھلی تو عثمان بزدار نے مرشد سے پوچھا سائیں میرے لئے کیا حکم ہے، مرشد نے نقاب چہرے سے ہٹاتے ہوئے فرمایا پہلی فرصت میں پرواز کر جائو۔ مرشد سے دوری پر زمانہ اقتدار میں ان سے قربت کے خواہشمند زلفی بخاری زارو قطار فون کیا کرتے تھے، جانے کیا افتاد سرپر آن پڑی کہ مرشد کے در پر حاضری دی نہ الوداعی فون کیا، بغیر لائن میں لگے اپنا ٹکٹ کٹا لیا۔ مرشد کو اس وقت پتہ چلا جب انکا جہاز لندن لینڈ کر چکا تھا۔
پنجاب کے بعد سندھ سے تحریک انصاف کا جس تیزی سے صفایا ہوا ہے کبھی کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ اول اول فیصل واڈوا پھر عمران اسماعیل، علی زیدی اور امیر بخش بھٹو، کوئی ایک لمحے کو نہ ٹھہرا، نہ کسی نے پلٹ کر دیکھا۔
ملک میں موسم گرم ہے، کرکٹ کا سیزن نہیں، شدید گرمی میں کرکٹ ہو نہیں سکتی پس کرکٹ میں جوا کرانے والا مافیا ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا تھا۔ سیاسی ہل چل شروع ہوئی تو انہوں نے سوچا کہ چلو اسی میدان کو آباد کئے لیتے ہیں، آج کل اس بات پر جوا ہو رہا ہے کون تحریک انصاف سے ٹوٹ کر کس پارٹی میں جاتا ہے اور کب، جوا کھیلنے اور کھیلانے والوں کی نظریں شیخ رشید، پرویز الہٰی، مونس الہٰی اور شاہ محمود قریشی کے ساتھ ساتھ مراد سعید پر لگی ہیں۔ مارکیٹ میں ان کا ریٹ اونچا جا رہا ہے، جوا کھیلانے والے آئندہ چند روز میں نواز شریف صاحب کی وطن واپسی اور انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ریٹ کا اعلان کرینگے، لاہور میں نہر کے کنارے بنے پان سگریٹ کے کھوکھے اور چائے خانے پر اس کاروبار میں دلچسپی رکھنے والوں کا ہجوم نظر آتا ہے۔ ہر روز ہر معاملے میں نیا ریٹ کھلتا ہے جس طرح کرکٹ میچ میں ہر اوور اور ہر وکٹ کے گرنے پر نیا ریٹ دیا جاتا ہے۔ سب سے بڑا جوا اور اہم ترین ریٹ بروز جمعہ سامنے آئیگا جو عمران خان کی ایک مرتبہ پھر گرفتاری، پھر رہائی یا پھر کبھی نہ رہائی کے حوالے سے ہو گا۔ انکے جیل جانے، نا اہل ہونے اور سیاست سے ہمیشہ کیلئے آئوٹ ہونے پر بھی جوا ہو گا جو1992ء میں کرکٹ ورلڈ پر ہونے والے جوئے کا ریکارڈ توڑ دے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button