Column

سفرِ حجاز ’’ چند مشاہدات، تجاویز‘‘

محمد نورالہدیٰ

گزشتہ دنوں مجھے سفرِ حجاز کا موقع ملا۔ اس سفر کے دوران بے شمار مشاہدات ہوئے۔ بہت سے زائرین سے ملاقات اور ان کے مسائل سے آگاہی ہوئی۔ زائرین کی پریشانیوں اور ان پریشانیوں کی وجہ بننے والے عناصر کے بارے میں جاننے کا اتفاق ہونے سمیت کافی تلخ حقائق بھی نظر سے گزرے۔ میرے مشاہدے میں آیا کہ حرمین ( مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ) میں نمازیوں کی خدمت پر مامور عملہ صرف پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان سے تعلق رکھتا ہے۔ شاید سعودی نجی ادارہ اس کام کیلئے کسی اور ملک کے لوگ رکھتا ہی نہیں۔ ان لوگوں کی ڈیوٹی حرمین کے عربی ملازمین سے زیادہ سخت ہوتی ہے۔ یہ معمولی تنخواہ کے عوض یہاں کام کر رہے ہیں۔ واٹرز کولرز کی بھرائی، حرمین کی بار بار فرشی اور واش رومز کی صفائی کرتے رہنے سمیت دیگر فرائض ہر گزرتے منٹ مسلسل ادا کرنا ان کی ذمہ داری میں شامل ہیں۔ تمام ڈیوٹی کے دوران مسلسل کھڑے رہنا ان پر جیسے فرض کر دیا گیا ہے۔ سخت دھوپ میں بھی انہیں اپنے امور مسلسل نبھاتے رہنا ہے۔ اس دوران انہیں بیٹھنے کی اجازت ہے اور نہ ہی سستانے کی۔ یہ خادمین بظاہر خوش باش دکھائی دیتے ہیں مگر اندر سے یہ خالی ہیں۔ میں نے ان کے چہروں پر بے بسی کے واضح آثار دیکھے ہیں۔ حرمین کے واٹر کولرز ( زمزم) پر ذمہ داری ادا کرنے والے ایک ہندوستانی خادم سے میں نے کہا کہ تم فارغ ہی کھڑے ہو۔ پانی کا کولر بھی بھرا ہوا ہے اور پینے والوں کا رش بھی نہیں ہے۔ فالتو کھڑے رہنے کی بجائے تھوڑی دیر بیٹھ کیوں نہیں جاتے؟۔ جواب ملا کہ چاہے پانی پینے والا کوئی نہ ہو، واٹر کولر بھی بیشک بھرا ہو، ہمیں اپنی ڈیوٹی کے دوران بیٹھنے، آرام کی اجازت نہیں ہے۔ صفائی کے فرائض سر انجام دینے والے ایک بنگلہ دیشی لڑکے نے بتایا کہ تنخواہ محدود ہے اور ڈیوٹی سخت، مگر جو ملتا ہے صبر و شکر کر کے اپنے خاندان کی کفالت کر رہے ہیں۔ دورانِ سفر میں نے بارہا ہوٹلوں میں زائرین کو رہائش، آمد و رفت اور ٹریولنگ ایجنسیوں سے متعلقہ دیگر امور پر خوار ہوتے دیکھا۔ انہیں اپنے الاٹ شدہ مقامی ایجنٹوں سے رابطہ میں شدید مشکل اور پریشانی کا سامنے کرتے پایا۔ کیونکہ یہاں آنے کے بعد وہ قدم قدم اُس کمپنی کے ایجنٹ کے محتاج ہوتے ہیں، جس کے ذریعے وہ ویزا لگوا کر یہاں تک پہنچے ہوتے ہیں۔ مگر ایجنٹ حضرات کی جانب سے مناسب رسپانس نہ ملنے پر وہ سخت کوفت کا شکار رہتے ہیں۔ میرے پاس قلمبند کرنے کو کئی داستانیں موجود ہیں۔ زیادہ تر داستانیں پہلی بار حجاز مقدس جانے والوں کی پریشانیوں پر مشتمل ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ زائرین اس بات سے آگاہ نہیں ہوتے کہ ان کی سہولت کیلئے وزارت حج و عمرہ موجود ہے، جہاں وہ اپنے مسائل و مشکلات کے ازالے کیلئے رابطہ کر سکتے ہیں۔ ایجنٹ حضرات اس لاعلمی کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ میں نے مشاہدے کی غرض سے کئی ہوٹل وزٹ کئے۔ مجھے مذکورہ صورتحال سے مختلف دکھائی نہیں دی۔ صرف 3فیصد لوگ اپنے ایجنٹوں سے مطمئن دکھائی دیئے۔ باقی97فیصد لوگوں سے مجھے ان ٹریول سروسز اور ایجنٹس کی خلاف بددعائیں ہی سننے کو ملیں۔ کئی پاکستانی زائرین سے گفتگو کے دوران مجھے ایک اور مشاہدہ بھی ہوا کہ حج، عمرہ کی سروسز فراہم کرنے والی اکثر کمپنیاں ( ٹریولنگ ایجنٹ) غلط بیانی کر کے لوگوں کو بھیجتے ہیں۔ جو لوگ گروپ کی صورت میں جانا چاہتے تھے، انہیں یہ کہہ کر بھیجا گیا کہ آپ چلے جائیں، گروپ وہیں جا کر بنے گا۔ وہاں پہنچ کر کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ کون کس کمپنی یا ٹریول ایجنٹ کی طرف سے آیا ہے۔ لہذا انفرادی طور پر آنے والے زائرین کو اکیلے ہی اپنی سرگرمیوں کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ پہلی مرتبہ آنے والوں کو تیاری کر کے آنے کے باوجود فرائض کی انجام دہی میں قدم قدم مشکل پیش آتی ہے۔ اس کے برعکس میں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک کے لوگ گروپس کی صورت میں آتے ہیں اور اجتماعی عبادات کرتے ہیں جس سے نہ صرف اک دوسرے کو ترویج و تحریک ملتی ہے بلکہ اس اجتماعی عمل سے دیگر افراد بھی استفادہ کرتے ہیں۔ خاص طور پر پہلی مرتبہ آنے والوں کو مشترکہ سرگرمیوں کی وجہ سے کافی سہولت رہتی ہے۔ انہیں گائیڈ بھی میسر ہوتا ہے جس کی رہنمائی میں وہ عبادات میں خود کفیل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں سفر کا فائدہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ میں نے یہ عمل ملائیشیا، انڈونیشیا، فلپائن، برما، بنگلہ دیش، انڈیا، عراق، اور چند دیگر ممالک سے آنے والوں میں دیکھا۔ جو ہوٹل سے لے کر تمام عبادات اور واپسی تک اجتماعی عوامل سر انجام دے کر اک دوسرے کی رہنمائی کرتے اور قدم قدم پر مشترکہ عمل کرتے ہیں۔ جبکہ گروپس کی یہ سہولت صرف پاکستان کے چند ہی شہروں سے آنے والے زائرین کی صورت میں دکھائی دی۔ شاید پاکستان کے ٹریولنگ ایجنٹس کو یہی غرض ہوتی ہے کہ وہ سالانہ کتنے زائرین بھجوا رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں انہیں کتنی کمائی ہو رہی ہے۔ زائرین کی پریشانیوں سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ دوسری جانب حرمین کے انتظامی معاملات کے حوالے سے مجھے بیشتر امور پر رائے دینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ میں سعودی حکام اور بالخصوص وزارت حج و عمرہ کو اس پر چند تجاویز ارسال کرنے کا متمنی ہوں، کیونکہ ان امور پر ہنگامی اقدامات وقت کا تقاضہ ہیں۔ اپنی ارسال کردہ تجاویز اور آراء میں سعودی وزارت حج و عمرہ سے یہ بھی درخواست کروں گا کہ مختلف ممالک کے شہریوں کو ویزا جاری کرتے ہوئے عدم تعاون کے حامل مقامی ایجنٹوں کی شکایت کیلئے سہولت کا کوئی نمبر بھی جاری کیا جائے، زائرین کی آسانی کیلئے نہ صرف ہوٹلوں میں شکایت کائونٹر بنائے جائیں، بلکہ ایک فعال آن لائن کمپلینٹ پورٹل بھی بنایا جائے تا کہ زائرین اپنی شکایت رجسٹرڈ کروا سکیں اور ان کی مشکل کا فوری ازالہ ممکن ہو سکے۔ حج کا سیزن شروع ہو چکا ہے۔ سعودی حکومت کو چاہئے کہ بیان کردہ صورتحال کی مانیٹرنگ اور یقینی ازالے کیلئے ہنگامی اقدامات کرے، نیز اگر اپنے ویژن 2030ء میں مذکورہ امور بھی شامل کر لے تو زائرین کی سہولت اور آسانی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button