Columnمحمد مبشر انوار

خبط

خبط

محمد مبشر انوار( ریاض)
پچھلے دنوں سری لنکا سے ایک دوست ریاض کاروباری سلسلے میں تھا اور فطری طور پر اس سے سری لنکا کے حالات پر گفتگو بھی کی۔ میرا یہ دوست مسلمان اور سری لنکا میں اہم کاروباری مقام رکھتا ہے اور سری لنکا سے افرادی قوت خلیجی ممالک کے علاوہ یورپ بھی برآمد کرتا ہے، علاوہ ازیں! سری لنکا کی سیاست میں بھی اس کا خاصہ اثر و رسوخ ہے اور خود بھی پارلیمنٹ کا انتخاب لڑ چکا ہے۔ بدقسمتی سے سیاسی پس منظر رکھنے کے باوجود وہ انتخاب میں کامیابی حاصل نہیں کر پایا البتہ نہ صرف ملکی سیاست بلکہ علاقائی و عالمی سیاست پر بھی اس کی نظریں خوب ہے اور اچھے تجزیہ کی صلاحیت رکھتا ہے۔ موجودہ سری لنکا کے سیاسی حالات کا انتہائی برا اثر سری لنکا کے معاشی حالات پر پڑا ہے اور ان کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے جبکہ موجودہ حکمران دینیش گناوردھنا کی سیاسی جماعت اور پارلیمنٹ میں موجودگی صرف انہی کی مرہون منت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ صرف وہ فرد واحد ہیں جو ڈیفالٹ اور خانہ جنگی سے قبل، اپنی سیاسی جماعت کی نمائندگی سری لنکن پارلیمنٹ میں کر رہے تھے اور سنگین حالات میں سابق حکمرانوں نے اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے انہیں اقتدار پر قبول کیا۔ اقتدار کا یوں کسی دوسرے اور مخالف فریق کش فرد واحد کو منتقل کرنا قطعا آسان نہیں کہ ہوس اقتدار میں انسان کیا کچھ کر جاتا ہے، تاریخ سے سب عیاں ہے لیکن ملکی صورتحال کے پیش نظر سابق حکمرانوں نے یہ کڑوا گھونٹ پیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ موجودہ حکمران کی تمام تر پالیسیوں کو متفقہ طور پر نہ صرف تسلیم کیا جا رہا ہے بلکہ ان پر پوری یکسوئی کے ساتھ عمل درآمد بھی ہو رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سری لنکا کا روپیہ، جو ڈیفالٹ کے بعد انتہائی اونچی چھلانگیں لگا رہا تھا اور گزشتہ فروری میں تین سو باسٹھ تک جا پہنچا تھا، اس وقت اس کی قدر قدرے مستحکم نظر آ رہی ہے اور ڈالر کے مقابلے میں آج سری لنکا کا روپیہ دو سو نوے سے دو سو پچانوے تک قدر بحال کر چکا ہے۔ جبکہ عوام اپنی حکومت کے ساتھ کس طرح تعاون کر رہے ہیں، اس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ میرا دوست جو بلامبالغہ اچھی معاشی حیثیت کا مالک ہے، اس کے لئے اپنے بیرون ملک سفر کے دوران ڈالر استعمال کرنے کی حد محدود ہے اور یہی صورتحال یقینی طور پر دیگر افراد کی ہو گی۔ البتہ اپنے بیرون ملک اخراجات کو پورا کرنے کے لئے یقینی طور پر دیگر ذرائع بھی بروئے کار آتے ہوں گے لیکن بذریعہ بینک انہیں اپنے اخراجات کے لئے محدود کر دیا گیا ہے اور ایک مخصوص رقم ہی بیرون ملک استعمال کی جا سکتی ہے۔ یہ روئیے ہی درحقیقت ایک قوم کے قوم پرست ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کس طرح مشکل حالات میں ایک قوم اپنے ملک کے لئے ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتی ہے۔
دوسری طرف ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری معاشی حیثیت سنگین صورتحال سے دوچار ہے، بغیر ڈیفالٹ کئے ہی پاکستانی روپے کی قدر میں اتنی گرواٹ ہے کہ سری لنکن روپے کی ڈیفالٹ کے وقت قدر سے بھی نیچے جا چکا ہے لیکن ہمارے حکمران اس صورتحال میں بھی بانسری بجا رہے ہیں یا سیاسی انتقام میں مشغول ہیں۔ بظاہر تمام تر سیاسی انتقامی کارروائیوں میں سیاسی حکومت اپنے ماتھے کو داغدار کر رہی ہے جبکہ حقائق سے تمام باخبر لوگ آشنا ہے کہ اس سارے کھیل تماشے کے پیچھے کون سے عناصر ہیں لیکن نہ تو کوئی کھل کر اس کا اظہار کر نے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی اس کو روکنے کی سکت رکھتا ہے۔ ایک طرف محترم انور مقصود صاحب اپنے مخصوص انداز میں جون ایلیا کے حوالے سے ایک تقریب میں اس کا اظہار کر چکے ہیں تو اسی تقریب میں جناب حامد میر نے بھی کسی تک بین السطور اس امر کا اظہار کر دیا ہے۔ محترم انور مقصود صاحب نے حالیہ سیاسی پی منظر میں، جاری پریس کانفرنسز میں سیاست سے علیحدگی اختیار کرنے والوں کا ذکر کیا ہے اور جبر کے اس موسم میں گزری ہوئی نابالغ روزگار ہستیوں کی طرف سے بھی پی ٹی آئی اور سیاست سے علیحدگی کا اعلان کیا، جو موجودہ سیاسی نظام ہرچند کہیں کہ ہے، لیکن نہیں ہے، پر زوردار طمانچہ رسید کیا ہے تو دوسری طرف جناب حامد میر نے اسی حوالے سے اس توقع کا اظہار کرکے کہ جن کو سیاست سے علیحدگی اختیار کرنے کی پریس کانفرنس سے زیادہ اپنے قول کا ثبوت دینا چاہئے، وہاں ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ اس صورتحال میں بعید ہے کہ پی ٹی آئی کی قطع و برید مزید جاری رہے گی اور اس کے کئی ایک رہنمائوں کو پریس کانفرنس کرنے کے لئے نمودار ہونا پڑے گا، اب تک کی پریس کانفرنسز کے حوالے سے تقریبا پچاس سے زائد ارکان پی ٹی آئی علیحدگی کا اعلان کر چکے ہیں۔ اس پر ن لیگ کے حواری انتہائی خوش نظر آتے ہیں کہ کبھی عمران خان ایک گیند سے مخالفین کی ایک، دو یا تین وکٹیں اڑایا کرتے تھے جبکہ اب ایسی ہوا چلی ہے کہ چند دن میں ہی پی ٹی آئی کے پچاس سے زیادہ ارکان کی وکٹیں اڑنے پر عمران خان اس کو دبائو کا نتیجہ قرار دے کر ماضی کی مشق کو بھول رہے ہیں۔ اس میں قطعا کوئی دو رائے نہیں کہ کل تک مخالفین کی وکٹیں اڑانے اور آج سیاست سے علیحدگی کے پس پردہ محرکات سیاست میں نہیں ہونے چاہئیں لیکن ایک امر ملحوظ رکھنا چاہئے کہ سیاستدانوں کے لئے سیاست ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے اور کل تک سیاسی وابستگی تبدیل کرنا بہتر سیاسی ڈیل کا نتیجہ رہی لیکن آج جس ماحول میں سیاسی وابستگیاں تبدیل ہو رہی ہیں، کیا وہ ہمارے معاشرے کے لئے قابل قبول ہیں؟۔ ہمارے ارباب اختیار اور وابستگیاں تبدیل کروانے والے، کون سی نئی اقدار کو متعارف کروا رہے ہیں؟۔ کیا یہ کسی مہذب سیاسی معاشرے میں قابل قبول ہے؟۔ نو مئی کے ناقابل برداشت واقعات کے بعد، جس طرح کا آپریشن تحریک انصاف کے خلاف جاری ہے، یہ اس حقیقت کا عملی مظاہرہ ہے کہ اقتدار کی غلام گردشوں سے نکالے جانے والے کسی بھی سیاست دان کے لئے فوری واپسی قطعی ممکن نہیں، خواہ اس کے لئے کسی بھی حد سے گزرنا پڑے۔ آئین و قانون کس بلا، کس چڑیا کا نام ہے، اس ہنگام میں واضح ہو چکا ہے کہ پاکستان آئین و قانون نام کی کسی چیز سے واقف ہی نہیں البتہ نظریہ ضرورت اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہر دور میں رہی ہے اور ایسے معروضی حالات میں یہ کب تک جاری رہے گی، اس کا کسی کو کچھ علم نہیں۔ جناب حامد میر نے اسی تقریب میں اس امر کا اظہار بھی کیا کہ بیرون ملک کئی ایک تھنک ٹینک، پاکستان کی سالمیت کے حوالے سے بھی متفکر ہیں۔ خاکم بدہن، لیکن صرف خاکم بدہن کہنے سے حقائق کو بدلا نہیں جا سکتا۔ نجانے کیوں ارباب اختیار بھول جاتے ہیں کہ سقوط ڈھاکہ میں بھی یہی عوامل کارفرما تھے جبکہ ان عوامل کی جلتی پر تیل کا کام بھارتی تربیت یافتہ مکتی باہنی کے کارندوں نے کیا تھا۔ آج بھی جو کچھ پاکستان میں ہورہا ہے، اس پر کیا کہا جائے؟۔ اس کا کس طرح دفاع کیا جائے؟۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button