ColumnImtiaz Ahmad Shad

تنگ آمد بجنگ آمد

تنگ آمد بجنگ آمد

امتیاز احمد شاد
روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا کا عملی مشاہدہ کرنا ہو تو پاکستان کے سیاست دانوں کے رویے دیکھ لیجیے۔ پاکستان میں روزگار اور کاروبار کے مواقع دن بہ دن محدود اور پریشان کن ہوتے جا رہے ہیں۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر سنبھالے نہیں سنبھل رہی ہے۔ سیلاب اور بارشوں کی تباہ کاریوں نے زراعت اور دیہی علاقوں کی آبادی کو جو نقصان پہنچائے ہیں ان کا ازالہ تاحال نہیں ہو سکا ہے۔ معیشت کی حالت یہ ہے کہ ایل سی جو کاروبار تجارت میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے زر مبادلہ کے ذخائر کی صورتحال ایل سی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اشیائے ضرورت کو تو جانے دیجئے ضروری ادویات کی درآمد متاثر ہو رہی ہے۔ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے مہنگائی کی شرح میں بے حد اضافہ کر دیا ہے، جس سے عام آدمی کی قوت خرید ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ تازہ خبر کے مطابق آٹے جیسی بنیادی خوراک فی کلو کی قیمت انتہائی تکلیف دہ نفسیاتی حد تک پہنچ گئی ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مہنگائی کی نوعیت کیا ہوگی؟ برسبیل تذکرہ بتاتا چلوں کہ یہ بتایا جاتا ہے کہ جواہر لعل نہرو بھارت کے وزیر اعظم بن چکے تو حلف لینے کے بعد مہاتما گاندھی کے پاس حاضری کے لیے پہنچے اور رہنمائی کی درخواست کی۔ مہاتما گاندھی نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ اگر وہ مقبول ترین وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں تو ملک میں آٹا، سائیکل اور سینما کی ٹکٹ مہنگی نہ ہونے دینا۔ آٹا غریب کی بنیادی ضرورت ہے، آٹا مہنگا ہو گا تو غریب بھوکا ہو گا اور بھوکے عوام حکومت نہیں چلنے دیں گے۔ سائیکل بھی غریب کی سواری ہے، سائیکل مہنگی ہوئی تو غریب کا پہیہ رک جائے گا اور اگر غریب کا پہیہ رک گیا تو اور حکومت کا پہیہ بھی رک جائے گا۔ سینما غریب کی تفریح ہے اور اگر سینما کا ٹکٹ مہنگا ہوا تو غریب کی تفریح ختم ہو جائے گی اور وہ حکومت کے پیچھے لگ جائے گا۔ جواہر لعل نہرو سے لے کر نریندرا مودی تک نے یہ بات پلے سے باندھ لی اور بھارت میں آج بھی آٹا، سائیکل جس کی جگہ اب موٹر سائیکل نے لے لی ہے اور سینما کا ٹکٹ آج بھی غریب آدمی کی پہنچ میں ہے۔ مگر یہاں حال یہ ہے کہ ہماری سیاست میں سوائے عوام کی فلاح کے ہر چیز موجود ہے۔ اس وقت پاکستان کے عوام مہنگائی کے جس کرب اور درد سے گزر رہے ہیں، یہ وہی جانتے ہیں۔ بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھے حکمران یہ دکھ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وزیر خزانہ کی زبانی معیشت کے ’’ مثبت اشاریوں‘‘ کے ساتھ مہنگائی کے ’ بر سبیل تذکرہ‘ نے مجھے فرانس کی ایک ملکہ کی یاد دلا دی۔ انقلاب فرانس سے قبل جب بُھک مری اور ٹیکسز کی بھرمار سے تنگ شہریوں نے محل کے سامنے احتجاج کرنا شروع کیا تو بالکنی کے پاس ٹہلتی اس ملکہ نے ایک دربان سے دریافت کیا کہ یہ گندے لوگ کیوں احتجاج کر رہے ہیں، تو دربان نے ڈرتے ڈرتے ملکہ کو جواب دیا کہ یہ سب بھوکے لوگ ہیں اور روٹی مانگ رہے ہیں۔ اس پر زمینی حقائق سے دور محلوں میں بسنے والی ملکہ نے بڑی حیرانی سے کہا تھا کہ اگر انہیں روٹی نہیں ملتی تو کیک کھا لیں۔ دربان نے اس نامعقول جواب پر ایک بار نظریں اٹھا کر ملکہ کی جانب دیکھا اور کہا ’’ جی درست فرمایا آپ نے‘‘ لیکن اس نے دل میں ایک بار یہ ضرور کہا ہو گا ’’ جس تن لاگے سو تن جانے‘‘۔ ہمارے حکمرانوں کے مسائل بڑے بڑے ہیں۔ وہ فی الحال ان چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھنا نہیں چاہتے کہ اس ماں کے دل پر کیا بیتتی ہو گی جس کے بچے بھوک سے بلکتے سو جاتے ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ روزگار کی تلاش میں سڑک پر بیٹھے کسی غریب باپ کی آنکھوں میں اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کا خواب دم توڑ رہا ہے اور وہ آتی جاتی گاڑیوں میں سکول جاتے بچوں کو حسرت کی نگاہوں سے دیکھتا رہتا ہے۔ متوازن غذا، صاف پانی، تعلیم، موسموں سے تحفظ دینے والی چھت اور ایک محفوظ روزگار ہر پاکستانی کا حق ہے، لیکن 76برس بیت گئے، آج بھی کروڑوں اہل وطن ان بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ متوازن غذا تو درکنار ایک وقت کی روکھی سوکھی بھی میسر نہیں ہے۔ پاکستان میں کروڑوں لوگ گندا پانی پینے کی وجہ سے موذی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ لاکھوں لوگ بنا چھت کے کھلے آسمان تلے موسموں سے لڑ رہے ہیں۔ وطنِ عزیز میں لگ بھگ ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ بد قسمتی سے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے سے شروع ہونے والے اس سفر نے روزگار دینا تو درکنار پہلے والا بھی چھین لیا ہے۔ سیاست کے طرم خانوں نے رجیم چینج کے ذریعے جب اقتدار سنبھالا تو یہ دعویٰ تھا کہ ڈالر کو اس کی اوقات پر لے آئیں گے، اور عوام کو مشکلات سے نکالیں گے۔ مگر ایسا کچھ نہ ہو سکا۔ ان کی آمد سے پہلے عوام بچارے دال روٹی کھا کر گزارہ کر رہے تھے، غریب آدمی پیاز سے روٹی کھا لیتا تھا، اب تو دال اور پیاز بھی غریب کی پہنچ سے باہر ہو گئے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کی شرح میں تیزی سے اضافہ جاری ہے۔ ٹماٹر، پیاز، آٹا، چینی، مرغی اور انڈوں سمیت 24اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ سیاسی محاذ آرائی میں مصروف عمل حکومت شاید یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ عوام کا اس قدر کچومر نکالو کہ ان میں آواز بلند کرنا تو دور دل میں برا جاننے کی سکت ہی ختم ہو جائے ۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم لوگوں کو سستی روٹی دے سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا، لیکن کیا کریں کہ حکمرانوں کے مسائل بہت بڑے ہیں۔ انہیں فرصت ہی نہیں۔ وہ غدارانِ وطن سے نمٹیں یا ان غریبوں کے مسائل سے۔ حکومت اس شاندار کامیابی پر مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے غربت کے ہاتھوں مرے ہوئے عوام کی رگوں سے مزید خون نچوڑ لیا اور آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان کر بلکہ جو اس نے نہیں بھی کہا وہ بھی کر کے غریب کا جنازہ ہی نکال دیا۔ بد قسمتی ہے کہ اس وقت پاکستان میں نہ تو کوئی ادارہ بچا ہے نہ ہی کوئی فرد جس پر قوم اعتبار کرے یا اتفاق۔ افراتفری اس حد تک پھیل چکی کہ جلائو گھیرائو، مار دھاڑ اور ضد و نفرت نے وطن عزیز کی چولہیں تک ہلا دی ہیں۔ شاید ہمارا شمار بھی ان بد قسمت اقوام میں ہو چکا جنہوں نے اپنی خوشحال ریاستوں کو اپنے ہی ہاتھوں برباد کر دیا۔ عوام کا اس قدر استحصال کیا گیا کہ اب وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے ایسے نقطے تک پہنچ چکے جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔ وجہ جو بھی ہو نقصان ریاست کا ہو رہا ہے اور مر غریب رہا ہے۔ امراء حضرات کل بھی خوشحال تھے اور وہ ان حالات میں بھی مزے میں ہیں۔ سچ کی صدا بلند کرنے والوں کو یا تو مذہب کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے یا غدار وطن قرار دے دیا جاتا ہے۔
بقول احمد فراز
امیرِ شہر غریبوں کو لُوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلہ مذہب کبھی بنامِ وطن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button