ColumnImtiaz Aasi

جمہوریت یا سول مارشل لاء؟ .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

ایوبی دور کی کچھ یادیں ہمارے ذہن میں تروتازہ ہیں، آٹا چینی مہنگا ہوا تو نعرے لگنے لگے آٹا چینی ہوتی دا ۔۔۔۔۔۔ ایوب خان نے اقتدار یحییٰ خان کے حوالے کیا تو کئی سو بیورو کرٹیس کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے، پھر ملک دولخت ہوتے دیکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور آیا عوام کو ان سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں، راشن ڈپو ہونے کے باوجود عوام کو چینی اور آٹے کے لئے در بدر ہونا پڑتا تھا۔ بھٹو نے اپنے پیش رو کی تقلید کرتے ہوئے کئی سو بیوروکریٹس کو نوکری سے برطرف کیا اور مخالفین کو آزاد کشمیر کے دلائی کیمپ میں رکھا۔ جس طرح کی مہنگائی کا عوام کو اس حکومت کے دور میں سامنا ہے ملکی تاریخ میں ایسی مہنگائی کبھی نہیں ہوئی تھی۔ بھٹو دور میں انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو پی این اے نے ان کے خلاف تحریک چلائی اور مارشل لاء لگ گیا۔ گیارہ سال قوم نے جنرل ضیاء کا مارشل لاء دیکھا، صحافیوں کو کوڑے مارے گئے، پیپلز پارٹی سے نظریاتی وابستگی رکھنے والے ناصر زیدی اور میرے دوست خاور نعیم ہاشمی کو کوڑے مارے گئے۔ جنرل ضیاء الحق دور میں چادر اور چار دیواری کا بھرم رکھا گیا، کسی کی ماں بہن کو نہ پکڑا ور نہ انہیں جیلوں میں بھیجا گیا۔ اکتوبر1999میں جنرل مشرف نے شب خون مارا تو مسلم لیگ نون کے لوگ چھوڑ کر مسلم لیگ ق میں شامل ہونے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بڑے بڑے چودھریوں نے اس امید پر نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیا وہ کبھی واپس نہیں آئے گا اور نہ مسلم لیگ نون کو اقتدار ملے گا۔ مشرف نے شریف خاندان سے کوئی حلف نامہ لیا وہ آئندہ سیاست میں حصہ نہیں لیں گے بلکہ مقررہ مدت کے لئے انہیں سیاست سے ضرور دور رکھا گیا۔ عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے بعد ملکی سیاست کا نقشہ بدل گیا۔ وہ اپوزیشن میں رہتا تو شاید آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔ نو مئی کو جو کچھ ہوا وہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، عوام نے اس سانحہ کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا ہے عوام اپنی افواج سے پیار کرتے ہیں۔ سیاست میں جلسے جلوس ہوتے ہیں، نعرے بھی لگتے ہیں، کبھی ایسا نہیں دیکھا تھا، لوگ کور کمانڈر ہائوس جا پہنچیں گے۔ ملک میں دو سو کے قریب لوگ ایسے ہیں جو ہوا کے رخ کے ساتھ چلتے ہیں جیسے ہی کسی پر برا وقت آیا اپنی وابستگیاں بدل لیتے ہیں۔ جیسا کہ آج کل سیاست دانوں سے ہو رہا ہے، ملکی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جو لوگ عمران خان کے ساتھ دیوار کی طرح کھڑے رہنے کے دعوے کیا کرتے تھے جیل جاتے ہی ان کے ہوش ٹھکانے نے آگئے اور سیاست سے توبہ تائب ہونے کا اعلان کرنا پڑا۔ عجیب تماشا ہے ہائی کورٹ ضمانت دیتی ہے جیل سے نکلتے ہی نئے کیس میں گرفتاری کے لئے پولیس موجود ہوتی ہے۔ سیاست دانوں سے بیان حلفی لیا جا رہا ہے، وہ تحریک انصاف سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔ بھلا یہ کون سی جمہوریت ہے، عدالتوں کے احکامات کو ردی کی ٹوکری میں پھنکا جا رہا ہے۔ عمران خان کے بعض ناعاقبت اندیش دوستوں نے غلط مشورے دے کر اسمبلیوں کو تحلیل کرا کر اچھا نہیں کیا۔ عمران خان کو اقتدار کی کچھ زیادہ جلدی تھی، اقتدار کو اس نے زندگی موت کا مسئلہ بنا لیا ورنہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ سیاست دانوں کو اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ ہمیں تو فیاض الحسن چوہان پر حیرت ہے اتنے بڑے دعوے جیسے ہمالیہ سر کر لے گا ذرا سا دبائو برداشت نہیں کر سکا۔ جماعت اسلامی سے نکلا تو چودھریوں کے قدموں میں جا بیٹھا تھا۔ عمران خان کا سورج طلوع ہوتے دیکھا تو پی ٹی آئی جوائن کر لی۔ پھرتیاں تو ایسے دکھاتا ہے جیسے اس جیسا کوئی اور سیاسی ورکر نہیں، جیلیں کاٹنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس سے اچھا تو شیخ رشید ہے جو روپوش ہے، اس کا بھتیجا راشد شفیق بھی روپوش ہے۔ میرے حلقہ کا سابق صوبائی وزیر راجہ راشد حفیظ روپوش ہے، بس ایک وحشت ہے، وحشت ہونی بھی چاہیے، نو مئی کو کوئی قابل تعریف کام تو نہیں ہوا، جن لوگوں نے ملک و قوم کی حفاظت کے لئے جانوں کے نذرانے دیئے ان کی یادگاروں کو تہس نہس کرنا کہاں کی سیاست ہے۔ عمران خان سے غلطی ہوئی اپوزیشن بنچوں پر ہوتا تو حکومت کے چھکے چھڑا دیتا۔ عمران خان نے دنیا دیکھی ہے، نیلسن منڈیلا کی مثال سامنے رکھ لیتا، وہ عشروں تک جیل میں رہا، آخر ایک دن اقتدار کی ہما اس کی منتظر تھی۔ حضرت آیت اللہ خمینی برسوں ملک بدر رہے، ملک سے باہر رہ کر ایسا انقلاب برپا کیا دنیا حیران رہ گئی۔ آج انہی کے لگائے ہوئے پودے اقتدار میں ہیں۔ ایران ترقیوں کی منازل طے کر رہا ہے اور ہم آئی ایم ایف کے بھکاری ہیں۔ حکومت کو جو لوگ مطلوب ہیں انہیں ضرور پکڑے اور قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرے، اگر کوئی مطلوب شخص نہیں ملتا تو اس کی ماں اور بہن کو تھانوں میں بند کرنا کون سی جمہوریت ہے۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی، اچھے اور برے وقت کے لئے انسان کو تیار رہنا چاہیے۔ اقتدار کسی کی میراث نہیں، کچھ کر لیں عوام کے دلوں کو نہیں موڑا جا سکتا۔ بلاشبہ عمران خان نے اپنے اقتدار میں عوام کو کچھ نہیں دیا اس نے جو کیا وہ بھی ایک ریکارڈ ہے، ملک لوٹنے والوں کو ایسا ننگا کیا عوام ان سے بدظن ہوچکے ہیں۔ مریم نواز اور بلاول خواہ کتنے جلسے اور جلوس کر لیں عوام ان سے دل موڑ چکے ہیں۔ کم از کم دس ہزار پی ٹی آئی کے ورکر گرفتار ہیں، اداروں کی نشاندہی پر پی ٹی آئی ورکرز کو پکڑا جا رہا ہے۔ ملکی تاریخ میں اس طرح کا کریک ڈائون نہیں دیکھا تھا۔ حکومت ڈمی ہے، جمہوریت کی بجائے ملک میں ایک طرح کا سول مارشل لاء ہے۔ دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے پاکستان کی موجودہ صورتحال پر تشویش ظاہر کی ہے۔ اس سے پہلے مارشل لاء دور میں ایسا نہیں ہوا تھا، پی ٹی آئی کے عہدے داروں سے پارٹی چھوڑنے کا حلف لیا جا رہاہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جب نو مئی میں ملوث افراد کا ٹرائل ملٹری کورٹس اور دہشت گردی کی عدالتوں میں ہونا ہے، اس کے بعد تحریک انصاف کے جو لوگ ضمانت پر رہا ہوتے ہیں ان سے حلف نامہ لینا کہاں کی جمہوریت ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button