ColumnRoshan Lal

بلاول کا جذبہ اور جے شنکر کا تجربہ .. روشن لعل

روشن لعل

بلاول جب گوا میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم ، وزرائے خارجہ کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت گئے تو بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر اور ان کے درمیان میڈیا پر تندو تیز بیانات کا تبادلہ ہوا۔ ان بیانات کے تناظر میں صرف بھارت کے میجر گورو آریا نے ہی نہیں بلکہ کچھ پاکستانیوں نے بھی کہا کہ جذباتی بلاول کا اس بھارتی وزیر خارجہ سے کیا مقابلہ جس کا محکمہ خارجہ کا تجربہ بلاول کی عمر سے سے کہیں زیادہ ہے۔ جو لوگ جے شنکر کے خارجہ امور میں تجربے کو بہت اہمیت دیتے ہیں انہوں نے اس اہم نکتی پر غور نہیں کیا کہ جے شنکر کا تجربہ چاہے جتنا بھی ہو مگر 2019میں سرکاری ملازم سے وزیر خارجہ بننے والے اس شخص کی سیاسی تجربہ کاری بلاول کے برابر ہر گز نہیں ہے۔ سروس رولز کے تحت ملازمت کرنے والے کسی بندے کے تجربے کو دس برس سے زیادہ عرصہ تک سیاست کی اونچی نیچی راہوں پر چلنے والے بلاول کو حاصل ہونے والے تجربات کے ہم پلہ کیسے سمجھا جاسکتا۔
جب شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی گوا میں جاری کانفرنس کے دوران بھارت اور پاکستان میں جے شنکر اور بلاول کے تجربے کا موازنہ کیا جارہا تھا اس وقت بلاول نے جی 20کی ٹورازم کے حوالے سے سری نگر میں منعقد کی جانے والی کانفرنس کے مقام انعقاد پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ بھارت نے کشمیر کے متنازعہ علاقہ میں یہ کانفرنس منعقد کر کے ایک بین الاقوامی فورم کو متنازعہ بنا دیا ہے۔ بلاول کی اس تنقید کا جے شنکر نے یہ جواب دیا تھا کہ بلاول یا پاکستان کا جی 20یا سری نگر سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے ان سے اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہو سکتی ہے اور ان سے اگر بات ہو سکتی ہے تو کشمیر کے اس حصہ پر جس پر پاکستان نے قبضہ کیا ہوا ہے ۔ جے شنکر کی باتوں کو بھارت میں تو سراہا گیا ہی تھا مگر پاکستان میں بھی کئی سوشل میڈیا دانشوروں نے واہ واہ سمیٹنے کے لیے اپنے لطیفوں سے مزین تیروں کا رخ بلاول کی طرف کرتے ہوئے یہ کہا کہ بلاول جو کچھ کہہ رہا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کا دیا ہوا سکرپٹ ہے، کیونکہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی ہاں میں ہاں ملائے بغیر نہ تو وزیر خارجہ کا عہدہ حاصل کیا جاسکتا ہے اور نہ محکمہ خارجہ چلایا جاسکتا ہے ۔
یاد رہے کہ خارجہ امور نمٹانے کے لیے دنیا میں رائج عملی سیاست کے تقاضوں کے مطابق سیاستدانوں کو ملکی سیاست میں اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لیے بیرونی سیاسی محاذوں پر دوسروں کے موقف کا جواب کتابی مفروضوں کی بجائے اس جواز کے تحت دینا پڑتا ہے کہ اندرون ملک کوئی ان پر ملکی مفادات سے روگردانی کا الزام نہ لگا سکے۔ یہ جواز اس وقت مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے جب کسی مخالف ملک کا نمائندہ مثبت باتوں کا جواب اس لیے منفی رویوں کی شکل میں دینے کے لیے تیار بیٹھا ہو کہ وہ اس طرح کے رویوں کے اظہار سے اپنے ملک میں زیادہ سے زیادہ سیاسی فائدہ حاصل کر سکے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین متنازعہ معاملات بدقسمتی سے اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ دونوں ملکوں کے سیاستدانوں میں سے اگر کوئی بہت زیادہ امن کا خواہاں ہو بھی تو اس کے پاس یہ گنجائش نہیں ہوتی کہ وہ بیک ڈور ڈپلومیسی جیسی کسی تیاری کے بغیر مخالف سے زیادہ دشمن سمجھے جانے والے ملک کے لیے اچانک خیر سگالی جذبات کا اظہار شروع کر دے۔ اگر کوئی اچانک امن کا سفیر بن بھی جائے تو ایسے سیاست دان کے لیے اپنے ملک میں عمومی سطح پر حمایت کا کوئی امکان موجود نہیں ہو سکتا اور مخالف ملک میں بھی اس کے رویے کو سراہنے کی بجائے صرف فائدہ اٹھانے کی کوششیں ہی دیکھنے میں آسکتی ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اس طرح کے ماحول میں وطن عزیز کے کئی فیس بکی دانشور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ اگر مودی کا وزیر خارجہ کسی بین الاقوامی کانفرنس میں بلاول پر یہ الزام لگائے کہ وہ دہشت گردوں کا نمائندہ ہے تو اسے کوئی جواب دینے کی بجائے خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔ اس قسم کی خواہشیں صرف وہی لوگ پال سکتے ہیں جنہیں نہ عملی سیاست کے تقاضوں کا کوءی اندازہ ہے اور نہ ہی اس بات کا احساس ہے کہ عصر حاضر میں عالمی سیاست کیا رخ اختیار کر چکی ہے۔
عالمی سیاست کا حالیہ رخ یہ ہے کہ چاہے شنگھائی تعاون تنظیم کا عزم محفوظ اتحاد ہو یا جی 20کا عزم ایک زمین ، ایک خاندان اور ایک مستقبل ، اس طرح کے عزائم کے باوجود ان تنظیموں کی گفت و شنید کے بعد برخاست ہوجانے والی نشستوں میں یہ نظر آتا ہے کہ یہ تنظیمیں اتحاد کی بجائے کچھ ایسے گروہوں کے مجموعے ہیں جن میں شامل ملک اپنے اپنے مفادات کے تحت کبھی ایک دوسرے کے قریب اور کبھی دور ہوتے رہتے ہیں۔ آج کی عالمی سیاست بڑی حد تک روس اور یوکرین جنگ کے گرد گھوم رہی ہے۔ دنیا کے بہت کم ملک ایسے ہیں جو کھل کر روس یا امریکی بلاک کے ساتھ کھڑے ہیں۔ روس ، یوکرین جنگ کے دور میں ایک سال کے اندر کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ برس جی 20کی بالی، انڈونیشیا میں منعقدہ سمٹ میں روسی صدر پوٹن نے عالمی میڈیا کی تنقید کی زد میں ہونے کی وجہ سے شرکت نہیں کی تھی ۔ شنید ہے کہ اس برس روسی محکمہ خارجہ صدر پیوٹن کی2023 جی 20کانفرنس میں شرکت کی بھر پور تیاریاں کر رہا ہے جس میں امریکی صدر بھی شریک ہوگا۔ گزشتہ برس چین اور انڈیا کا یہ رویہ تھا کہ سمرقند میں منعقدہ شنگھائی تنظیم کانفرنس میں ان ملکوں نے روس یوکرین جنگ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ چین کا روس کے لیے موجودہ تبدیل شدہ رویہ یہ ہے کہ اب وہ یوکرین کی جنگ پر تحفظات کا اظہار نہیں کرتا ۔ چین نے جی 20کی سری نگر ، کشمیر میں سیاحت کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہے۔ چین قبل ازیں اروناچل پردیش میں جی 20 کی نوجوانوں پر منعقدہ کانفرنس کا بھی بائیکاٹ کر چکا ہے۔ اروناچل پردیش میں تو صرف چین نے بائیکاٹ کیا تھا مگر سری نگر کانفرنس کا بائیکاٹ سعودی عرب اور ترکی نے بھی کیا ہے۔ سعودی عرب اور ترکی کے بائیکاٹ کو جے شنکر نے اپنی سرکاری ملازمت کے تجربے سے روکنے کی کوشش کی مگر بلاول کے سیاسی تجربے اور جذبے سامنے وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ ویسے سعودی عرب اور ترکی کے بائیکاٹ کا بالواسطہ تعلق روس یوکرین جنگ سے بھی ہے۔ جس ماحول میں بین الاقوامی سطح پر حمایت، مخالفت یا غیر جانبداری کے معیار کو کوئی نام نہیں دیا جاسکتا اس ماحول میں بلاول کو اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ کو مسئلہ کشمیر پر فری ہینڈ کیوں نہیں دیا۔ جو مودی سرکار کشمیر اور اروناچل پردیش جیسے متنازعہ مقامات پر 2023 میں صر ف اس لیے جی 20کی کانفرنسیں منعقد کر رہی ہے کہ 2024کے بھارتی عام انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھایا جاسکے، اس مودی سرکار کو ہمارے فیس بک دانشور نامعلوم کیوں جانے انجانے میں فائدہ پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button