ColumnNasir Naqvi

بروقت؟ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

کہتے ہیں جو کام وقت پر کر لیا جائے وہی بہتر ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ آج کا کام کل پر مت چھوڑیں کیونکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ کل کس نے دیکھی؟ اس فلسفے سے ’’ لمحۂ موجودہ‘‘ سب سے قیمتی ٹھہرا، اس لیے کہ سامان سو برس کا، پل کی خبر نہیں۔ پھر 1947ء قیام پاکستان سے وطن عزیز دو لخت ہونے سے لے کر اب کور کمانڈر ہائوس کے نذر آتش ہونے تک صرف ایک بحث چل رہی ہے کہ اگر ہر گزرے لمحات میں ’’ بروقت‘‘ کچھ فیصلے کر لیے جاتے تو ہمیں وہ سب کچھ ہرگز نہیں دیکھنا پڑتا جو مقدر بنا، غلطی کس کی ہے؟ فیصلہ کس نے نہیں کیا؟ ہمارا اور آپ کا کیا قصور ہے؟ کوئی کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا رہا لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ غلطیاں سرزد ہوئیں، یہ الگ بحث ہے کہ جان بوجھ کر کتنا کیا گیا؟ اور لاعلمی میں کیا کچھ ہوا؟ مجموعی تجزئیے اور جائزے میں سب کا سب کیا دھرا حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کا ہی دکھائی دیتا ہے پھر سوال پیدا ہو گا اس میں سول اور عسکری اسٹیبلشمنٹ کا کتنا حصہ ہے؟ یقینا یہ مشکل مرحلہ ہے کیونکہ پلڑا برابر ہرگز نہیں، حالانکہ بابائے قوم کی رحلت کے بعد گورنر جنرل غلام محمداور پہلے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان نے ایک سے بڑھ کر ایک کارہائے نمایاں انجام دیئے جو ریکارڈ پر ہیں۔ اندازہ یہی ہے کہ اگر ’’ بروقت‘‘ غلام محمد کو قابو کر لیا جاتا تو کبھی بھی ’’ وزیراعظم وزیراعظم‘‘ کا کھیل نہیں کھیلا جا سکتا تھا، انہوں نے نومولود ’’ پاکستان‘‘ کو تختہ مشق بنایا، من مانی تبدیلیوں میں وزیراعظم برخاست اور نامزد کئے گئے۔ آئین اور قانون نام کی کوئی چیز غلام محمد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکی اور پھر اس دور کا تجربہ اور مشاہدہ جنرل محمد ایوب خان کے کام آیا ، سکندر مرزا کو دیس نکالا دیا گیا اور وہ مرتے مر گئے، وطن عزیز پاکستان کی سرزمین پر واپس نہیں آ سکے۔ قوم نے د س سال ایوب خان کا آمرانہ دور برداشت کیا اور ذمہ داران بروقت کچھ نہ کر سکے۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کا سزا یافتہ ایوب خان کا سکہ چلا اور پاکستان ترقی و خوشحالی کے خواب دیکھتے دیکھتے ’’ امریکہ بہادر‘‘ کی چنگل میں پھنس گیا، اس کا اقتدار اور حکومتی گرفت اس قدر مضبوط رہی کہ اس نے پسند ناپسند کی خواہش پر مغربی اور مشرقی پاکستان کے باسیوں میں نہ صرف تفریق پیدا کی بلکہ بہت سے ایسے فیصلے کئے جن سے اس سوچ کو تقویت ملی، بنگالی بھائی احساس محرومی میں مبتلا ہو گئے۔ تعلیم، صحت اور روزگار جیسے بنیادی مسائل میں بھی دونوں صوبوں میں بسنے والوں کو یکساں مواقع نہ دئیے گئے بلکہ ہر شعبہ زندگی میں ’’ مغربی پاکستان‘‘ کو مشرقی پاکستان سے اچھا ثابت کرنے کے منصوبے بنائے گئے اور اس ناانصافی پر ’’ بروقت‘‘ کسی نے ردعمل کا اظہار نہیں کیا، نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ازلی دشمن بھارت نے ’’ مشرقی پاکستان‘‘ کی ہندو آبادی میں جذبات ابھارے اور انہیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ’’ مغربی پاکستان‘‘ سے تعلق رکھنے والے حکمران تمہیں بھائی نہیں، کم تر اور غلام سمجھتے ہیں۔ یہ چال بھی صدر ایوب خان کی سمجھ میں نہیں آئی اور انہوں نے اپنی من مانیاں جاری رکھیں۔ ’’ مغربی پاکستان‘‘ کے طلباء کو میڈیکل اور انجینئرنگ کے تعلیمی مواقع مشرقی پاکستان میں دئیے گئے بلکہ انہیں وظائف بھی دئیے گئے یہ نہیں بلکہ بنگالی لڑکیوں سے شادی کی ترغیب میں بھی حکومتی مراعات کا حقدار ٹھہرایا گیا لیکن کسی نے اس حق تلفی پر ’’ بروقت‘‘ زبان نہیں کھولی اور بھارت نے نعرہ لگایا کہ مغربی پاکستان کے حکمران بنگالیوں سے ہر شعبہ میں نہ صرف ناانصافی کر رہے ہیں بلکہ وہ بنگالیوں کی نسل بدلنے کی خواہش میں ایسے اقدامات کر رہے ہیں کہ چند سالوں میں ’’ مشرقی پاکستان‘‘ کی آبادی میں پنجابیوں اور پٹھانوں کی بڑی تعداد دیکھی جا سکے گی۔ عالمی طاقتوں نے بھی اس نعرے کو ہوا دی اور بھارت نے خانہ جنگی کے لیے ’’ مکتی باہنی‘‘ بنا دی جو ایسے سرگرم ہوئے کہ تصادم کی راہ ہموار ہو گئی اور اس سازش کے اختتام پر پاکستان دولخت ہو گیا اور بنگلہ دیش دنیا کے نقشے پر ابھر کر ایک ناقابل تردید حقیقت بن گیا۔ اس سانحے کے بعد بہت سی ’’ تھیوریاں‘‘ سامنے آئیں جن میں سب سے اہم ’’ تھیوری‘‘ یہی تھی کہ اگر ایوب خان کی دوغلی پالیسیوں کے خلاف کوئی ’’ بروقت‘‘ قومی سوچ کی سیاسی قیادت پیدا ہو جاتی تو ’’ سقوط ڈھاکہ‘‘ نہ ہوتا کیونکہ ’’ پاکستان‘‘ کی آزادی میں بنگالی قائدین کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، مسلم لیگ اور قائداعظمؒ کے حق میں برصغیر میں سب سے زیادہ ووٹ مشرقی بنگال سے ہی پڑے تھے لیکن ہم تو بڑے سے بڑے سانحے سے بھی کچھ نہیں سیکھنے کے ماہر ہیں۔’’ بروقت‘‘ فیصلہ تو ویسے بھی مشکل ہوتا ہے۔
موجودہ سیاسی، معاشی اور آئینی بحران میں بھی یہ سوچ ابھر کر سامنے آئی ہے کہ اگر 2018ء کے الیکشن رزلٹ پر اپوزیشن جماعتیں کوئی سخت فیصلہ ’’ بروقت‘‘ کر لیتیں تو آج جس سیاسی بحران کا سامنا ہے اس کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ہم ، آپ بلکہ سب جانتے ہیں کہ اس وقت الیکشن نتائج اسٹیبلشمنٹ کے دبائو پر زبردستی تسلیم کرائے گئے تھے اور سب نے جمہوریت، جمہوری اقدار کو بچانے کے لئے مصلحت پسندی کا مظاہرہ کیا ، لہٰذا ’’ بروقت‘‘ کوئی مشترکہ سخت فیصلہ سامنے نہیں آ سکا، جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف بھی ’’ امریکہ بہادر‘‘ کے کھاتے میں قومی مجرم ہیں لیکن ہمارے ہاں نظریہ ضرورت نے سیاستدانوں اورتمام اداروں کو ہمیشہ حکم امتناعی دیا اس لیے کبھی بھی کوئی ’’ بروقت‘‘ فیصلہ نہیں ہو سکا بلکہ ابھی بھی تاخیری حربے ہر سطح پر دیکھے جا سکتے ہیں اسی وجہ سے ’’ بروقت‘‘ کچھ نہیں ہو پاتا اور مسائل بگڑتے جا رہے ہیں صرف مولانا فضل الرحمان 2018ء کے سلیکٹڈ الیکشن کے بعد اسمبلیوں سے استعفے کو ’’ بروقت‘‘ فیصلہ سمجھتے تھے لیکن آصف زرداری کا حسن بصیرت کہتا تھا ’’ موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں‘‘۔ انہوں نے جمہوریت کی بقاء کے لیے سب کو رضامند کیا لیکن فضل الرحمان اوّل روز سے عمران خان کی حکومت تسلیم کرنے کے لیے راضی نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے پرعزم ارادے کے اظہار کے لئے اسلام آباد پر چڑھائی بھی کی لیکن پھر چودھری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی نے ’’ بروقت‘‘ کارروائی کرنے والوں کو پیغام دے کر حضرت مولانا سے راضی نامہ کر لیا بلکہ ’’ مٹی پائو‘‘ فارمولا کارگر ثابت ہوا، ایسے میں آصف زرداری تمام سیاسی قائدین کو ’’ اِن ہائوس‘‘ تبدیلی کے لیے قائل کرتے رہے، تاہم اتفاق نہ ہو سکا مصلحت پسندی اور اگر مگر کے اندیشوں نے عمرانی حکومت کے خلاف بروقت کارروائی نہیں ہونے دی، تاہم سیاسی اتار چڑھائو کے بعد ’’ پیپلز پارٹی‘‘ پی ڈی ایم سے باہر ہوتے ہوئے بھی اپنی ’’ اِن ہائوس‘‘ تبدیلی کا کارڈ کھیلنے میں کامیاب ہو گئی لیکن اس بات پر اتفاق موجود ہے کہ یہ ’’ بروقت‘‘ کارروائی نہیں تھی ورنہ عمران خان نے جس مضبوطی سے سیاست کے نام پر جیسی ادھم چوکڑی مچائی ہے وہ کبھی نہ مچائی جاسکتی، اس وقت پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کی تحلیل سے معاشی بحران کی موجودگی میں سیاسی بحران پیدا ہوا اور اسی بحران نے عدلیہ کو اپنی لپیٹ میں لے کر ’’ آئینی بحران‘‘ کو جنم دے دیا۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے فواد چودھری کی گرفتاری پر پہلے یہ بیان دیا تھا کہ اگر ان کی گرفتاری بروقت ہو جاتی تو اسمبلیاں تحلیل ہونے سے بچ جاتیں۔ پھر انہیں یاد آ گیا کہ اب تو تحریک انصاف میں شمولیت کے سوا کوئی چارہ نہیں، لہٰذا انہوں نے ’’ بروقت‘‘ معذرت کر کے عشق عمران میں اپنی پناہ گاہ کا راستہ نکال لیا لیکن اب پھر انہیں ’’ بروقت‘‘ اقدامات یاد آئے ہیں ۔ اوّل تو وہ کہتے ہیں کہ اگر 1973ء کے آئین کے مطابق 90روز میں الیکشن کرا دئیے جاتے تو لمحہ موجود کا بحران ٹل جاتا، دوسرے ان کا کہنا ہے کہ اگر نگران حکومت پنجاب بروقت انتظامات کرتی تو 9مئی کا سانحہ اور واقعات ٹل جاتے لیکن قومی املاک، شہداء کی یادگاروں اور جلائو گھیرائو توڑ پھوڑ سے نقصانات کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے۔ ان واقعات میں ملوث افراد کسی سزا سے نہیں بچنے چاہئیں۔ پھر بھی حکومت اس بات کا جواب بھی دے کہ اس کی گورننس اور پنجاب پولیس کہاں تھی، انہوں نے بروقت کوئی مناسب کارروائی نہ کر کے غفلت کا مظاہرہ کیا، ان کا احتساب بھی کسی ’’ بروقت‘‘ فیصلے سے کیا جائے گا یا انہیں کوئی معافی کی گنجائش دی جائے گی۔ سانحہ قومی ہے لہٰذا تمام تر مجرموں کے لیے سخت اور کڑی سزا کا فیصلہ بھی بروقت ہی ہونا چاہیے، ورنہ پھر کسی نئے سانحے پر یہ بحث کی جائے گی کہ اگر 9مئی کے مجرموں کے خلاف بروقت فیصلہ ہو جاتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button