CM RizwanColumn

شہباز، عمران ناکام، پاک فوج زندہ باد

سی ایم رضوان

اپنی ہی طے کی ہوئی اور اپنے ہی بندوں سے تسلیم کی ہوئی ملکی سیاست میں سب سے زیادہ مقبولیت کے زعم میں مبتلا پہلے پاکستان اور پھر دنیا بھر کو فتح کرنے کے لئے نکلے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی نو مئی کو عین قانونی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہنگامہ آرائی کے دوران بابائے قوم سے منسوب ’’ جناح ہائوس لاہور ‘‘ کی توڑ پھوڑ، بے حرمتی اور آتشزدگی پوری قوم کے لئے ایک تکلیف دہ حملہ اور قومی المیہ بن چکا ہے۔ جب سے یہ سانحہ رونما ہوا ہے اس کے ذمہ داروں، سہولت کاروں اور منصوبہ سازوں کی نہ صرف ہر طبقہ فکر مذمت کر رہا ہے بلکہ سیاہ بخت ملزمان کو فی الفور اور سرعام سزائے موت دینے کا بھی مطالبہ کر رہا ہے۔ کیونکہ اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ ایک ملکی سیاسی جماعت کے بلوائیوں نے اپنے شر پسند لیڈرز کی ہدایات اور تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنے مذموم دہشت گرد عزائم کی تکمیل کے لئے نہ صرف اس قومی اور حساس یادگار کو تباہ کیا اور لوٹا بلکہ انتہائی شقاوت اور بدذہنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے جلا کر خاکستر بھی کر دیا۔ حالانکہ اس ظلم کے منصوبہ سازوں کو بخوبی علم تھا کہ مذکورہ جناح ہائوس لاہور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی لاہور میں وہ واحد ذاتی جائیداد ہے، جو اب تک کئی بار اپنوں اور غیروں کی بے اعتنائی اور بے وفائی کا نشانہ بن چکی ہے مگر اب بھی اپنے اصل مالک سے منسوب ہے اور جناح ہائوس کے نام سے مشہور ہے۔ مورخین کا کہنا ہے کہ بابائے قوم کی اس رہائش گاہ کو تقسیم پاک و ہند سے پہلے برطانوی فوجی حکام نے اپنے استعمال کے لئے حاصل کر لیا تھا پھر اس رہائش گاہ کو 31جنوری 1948ء کو ڈی ریکوزیشن کرکے قائد اعظم کے نمائندے سید مراتب علی کی تحویل میں دیا گیا تھا۔ جو کہ حالیہ حملہ اور آتشزدگی کے بعد باقی ماندہ اشیاء میں فقط جلی ہوئی چند دیواروں اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے ادھ جلے پاسپورٹ پر مشتمل رہ گیا ہے جو چیخ چیخ کر دہائی دے رہا ہے کہ ہم پاکستانی ایک بدقسمت قوم ہیں جو اپنے اسلاف کی اعلیٰ روایات کے ساتھ ساتھ ان کی یادگاروں کے بھی دشمن ہیں۔ ان آگ لگانے والوں کو آگ لگاتے ہوئے ذرا بھی خیال نہ آیا کہ اس تاریخی گھر میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کے استعمال کی نادر و نایاب اشیاء سنبھال کر رکھی گئی تھیں۔ بابائے قوم کی کثیر تعداد میں تاریخی تصاویر، زیر استعمال صوفہ سیٹ، سنوکر ٹیبل، کرسیاں، سگاردان، گلدان، بستر، جوتے اور کپڑوں سمیت 1500سے زیادہ تاریخی نوادرات ’’ جناح ہائوس‘‘ کے تین مختلف کمروں کی زینت بنے ہوئے تھے۔ افسوس کہ یہ تمام تر نوادرات جلا کر خاکستر کر دیئے گئے جو کہ اب کبھی واپس نہیں آ سکتے۔ البتہ اب مداوے اور تلافی کی ایک ہی صورت ہے کہ اس سانحہ کے اوپر سے لے کر نیچے تک تمام مجرموں کو سرعام پھانسی دے دی جائے۔
سیاسی مبصرین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ 9مئی سے قبل تک بالکل محفوظ تھا لیکن بعض ہنگامہ آرائی کرنے والے شر پسندوں کے دنگا فساد کے دوران یہ تمام تر نوادرات آگ کے شعلوں کے سپرد کر دی گئیں جو پوری قوم سے اپنے بانی کی یادگاروں سے اس بہیمانہ سلوک کے بارے میں تاقیامت سوال کرتا رہے گا۔ اس سانحہ نے ہمارے قومی جسم کو جہاں گہرے اور کبھی بھی مندمل نہ ہونے والے زخم دیئے ہیں وہاں یہ بھی شناخت دے دی ہے کہ وہ جو کہتا تھا کہ میں انہیں رلائوں گا صحیح کہتا تھا کہ وہ ایک روز پوری قوم کو رلانے کے درپے تھا۔ اب یہ بھی یاد رکھنے بلکہ پلے باندھ لینے والی بات ہے کہ اگر خدا نخواستہ اسے دوبارہ عزت یا مقبولیت کی سیڑھی پر چڑھنے کا موقع دیا گیا تو یہ پوری قوم کو اس سے بھی بڑے دکھ کا شکار کرے گا اور مزید رلائے گا۔ یہ چلا تھا اپنی ناپاک اور مفادات پر مبنی سیاست کی خاطر میری پاک فوج کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کرنے اور ہر حوالے سے غیر جانبدار، محب وطن اور فرض شناس آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو بدنام کرنے اور اللّٰہ کی کرنی ملاحظہ ہو کہ خود ہی سچے اور حقیقی الزامات میں دھر لیا گیا۔ اب یہ تمام عمر اپنے ہی زخم چاٹتا رہے گا۔ یہ ناکام ہو گیا۔ آج ملک بھر میں پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں اور اس ملک دشمن عمرانی ٹولے کی سرعام پھانسی کے اصولی مطالبات ہو رہے ہیں۔ ملک کے ذمہ داروں اور بااختیار حلقوں کو اب اس عوامی مطالبے کو پورا گرنا چاہئے کیونکہ آواز خلق نقارہ خدا ہوتی ہے۔
جہاں تک موجودہ وفاقی سول حکومت کا تعلق ہے تو یہ بھی اب ملک ریاض کی محبت میں اصول اور قوانین سے فرار چاہتے ہیں گو کہ وزیراعظم اور آرمی چیف ایک پیج پر ہیں مگر کچھ سیاسی مفادات کے تحفظ کی خاطر کچھ حکومتی عناصر کی جانب سے کسی بھی وقت چھوٹے موٹے یوٹرن کا اندیشہ موجود ہے۔ آج واضح ہو چکا ہے کہ یہ اپنے اعمال کی بناء پر ہی کامیابی اور اقتدار کی طوالت حاصل کر سکتے ہیں وگرنہ حال ان کا بھی برا ہے کیونکہ یہ پچھلے تیرہ ماہ کے دوران عوام کو مہنگائی اور لاقانونیت کے سوا کچھ نہیں دے سکے۔ وفاقی حکومت کی اگر کچھ کارکردگی اور استقلال ہے تو وہ بھی پاک فوج کے دم قدم سے ہے۔
وفاق میں قائم یہ مخلوط حکومت اب تک برسر اقتدار آنے والی حکومتوں سے اس بناء پر بھی منفرد ہے کہ یہ اب تک کے اپنے تمام تر اہم فیصلوں پر کبھی عملدرآمد نہیں کروا پائی۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی قیادت میں 90کے قریب وفاقی وزرائ، وزرائے مملکت، مشیران اور معاونین خصوصی گو کہ خاموشی سے حکومت کر رہے ہیں مگر عوام کو ان سے اتنا ہی فائدہ ہے جتنا کسی بے ضرر اور ماحول دوست پودے کا ہوتا ہے۔ میاں شہباز شریف نے آتے ہی آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو پورا کرنے کے لئے بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں سے سبسڈی واپس لے لی تھی، یوں توانائی فراہم کرنے والے بنیادی ماخذوں کے نرخ بڑھ گئے جس کے نتیجہ میں نچلے متوسط طبقہ کے لئے تین وقت کے کھانے اور علاج کے لئے ادویات کی خریداری مشکل ہوگئی۔ وفاقی کابینہ پر ہونے والے 200بلین کے اخراجات کم کرنے کا فیصلہ تو کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اعلان بھی کر دیا کہ کابینہ ارکان سے بڑی گاڑیاں واپس لی جا رہی ہیں مگر ہمیشہ پندرہ دن گزرنے کے بعد رپورٹ یہی آئی کہ بیشتر اراکین نے یہ بڑی گاڑیاں واپس نہیں کیں۔ اسی طرح پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد اور پہلے کی وفاق اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ تقریباً ایک جیسی ہی بے۔ عدلیہ اور میڈیا اس وفاقی حکومت کے خلاف پہلے دن سے ہی بڑے تواتر اور یکسوئی سے کام کر رہے ہیں مگر مجال ہے کہ کسی حکومتی اقدام سے یہ نظر آیا ہو کہ یہاں عمران خان کی نہیں شہباز شریف کی مخلوط حکومت قائم ہے۔ اس حکومت کی ان ڈھیلی ڈھالی اور عمران نواز پالیسی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج عمران خان ایک عفریت بن کر ملک کی شہ رگ پر پنجہ گاڑے ہوئے ہے۔ وہ بظاہر امریکہ مخالف بیان بازی کی آڑ میں اکثر امریکی پراپیگنڈا سازوں کے ذریعے اب قومی سلامتی کے اداروں کے لئے مشکلات پیدا کر چکا ہے مگر شہباز حکومت کی نااہلی اور بدبختی کا اس سے بڑا اظہار کیا ہو گا کہ وہ عمران خان کے خلاف پچھلے ایک سال سے کوئی ڈھنگ کی ایف آئی آر بھی درج نہیں کروا سکی۔ اس حکومت کی نااہلی کی بناء پر اب عوام کی ایک ہی امید ہے کہ فوجی قیادت بیرونی، خارجہ اور دفاع کے محاذوں کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر موجود ملک دشمنوں کا بھی قلع قمع کرے۔ امید کی جاتی ہے کہ پاک فوج راست اقدام کے لئے غفلت میں ڈوبی شہباز حکومت کو ہوش دلانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ کیونکہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button