Ahmad NaveedColumn

دی کیرالہ سٹوری ( حصہ دوم) ۔۔ احمد نوید

احمد نوید

کشمیر فائلز واحد فلم ہے جسے بھارت کے وزیر اعظم مودی نے دیکھنے کی اپیل کی۔ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ یا یوپی کے سی ایم یوگی جو اکثر فلموں یا گانوں سے جذبات کو ٹھیس پہونچانے کی شکایت کرتے ہیں، سب نے کشمیر فائلز آنے پر خوشی کا مظاہرہ کیا حتی کہ کئی ریاستوں میں اس فلم کو ٹیکسوں سے استثنیٰ دیا گیا۔ یہ وہی فلم تھی جسے انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کی چیف جیوری نداو لپار نے پروپیگنڈا اور فحش قرار دیا اور بی بی سی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ایک پروپیگنڈا فلم ہمیشہ بری نہیں ہوتی لیکن کشمیر فائلز ایک بری پرپیگنڈا فلم ہے کیونکہ یہ معاشرے میں پابند عناصر کو مکمل طور پر نظر انداز کرتی ہے۔ فلم کمزوروں پر حملہ آور ہوتی ہے۔ پروفیسر ویرا بھاسکر کا کہنا ہے کہ کشمیر فائلز نے نہ صرف فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ کیا ہے بلکہ کہانی کو یکطرفہ بھی دکھایا ہے میں جانتی ہوں کہ کشمیری پنڈتوں کا تجربہ کیا تھا لیکن مسلمانوں کے ساتھ بھی زیادتی تھی۔ ویرا بھاسکر کے مطابق کشمیر فائلز کے ٹکٹ مفت تقسیم کیے گئے تھے اور فرقہ پرست قائدین نے بھرپور مہم چلائی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلم کو حکومت کی حمایت حاصل تھی۔
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانے میں کشمیر فائلز نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی کہ اب ایک نئی فلم دی کیرالہ سٹوری ریلیز کر دی گئی ہے۔ اس فلم کی مرکزی کردار ادا شرما نامی فلمی ادا کارہ ہیں جو ایک ہندو خاندان سے تعلق رکھنے والی شالنی اننی کرشنن کا کردار ادا کر رہی ہیں جو بعد میں مسلمان بن کر فاطمہ بن کر کہانی کو آگے لے کر چلتی ہیں۔ فلم میں دکھایا گیا کہ ادا شرما جو شالنی اننی کرشنن ہے۔ وہ ایک نرس بن کر لوگوں کی خدمت کرنا چاہتی تھی لیکن وہ آئی ایس آئی کی دہشت گرد بن گئی ہے جو اس وقت افغانستان کی جیل میں بند ہے۔ فلم میں دعوی کیا گیا ہے کہ ریاست کیرالہ کی 32ہزار غیر مسلم لڑکیوں کا اغوا کرکے ان کا مذہب تبدیل کیا گیا۔ فلم میں دعوی کیا گیا ہے اتنی بڑی تعداد میں غیر مسلم لڑکیوں نے اسلام قبول کیا اور عسکریت پسند کالعدم تنظیم دولتِ اسلامیہ میں شمولیت اختیار کی۔ بھارت میں فرقہ پرست جماعتیں اس قسم کی فلم کے ذریعہ ملک میں فرقہ وارانہ جذبات سلگا کر ایک بار پھر اکثریتی طبقہ کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرکے تختِ اقتدار تک پہنچنا چاہتی ہیں۔ فلم میں بغیر کسی ثبوت کے فلم سازوں کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ فلم زندگی کے سچے واقعات پر مبنی ہے جن 32ہزار غیر مسلم لڑکیوں نے مذہب تبدیل کیا ہے وہ سب شام اور یمن کے صحرائوں میں دفن ہوئیں۔
فلم دی کیرالہ سٹوری کی ریلیز سے یہ بات واضح ہے کہ کرناٹک انتخابات سے عین قبل اس فلم کو ریلیز کرکے بی جے پی انتخابی فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔
دوسری جانب تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے صحافی اروند کشن نے مرکزی وزارت داخلہ اور ملک کے فلم سرٹیفکیشن بورڈ کے سربراہ پرسون جوشی کو خط لکھ کر فلم پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس وقت تک فلم کی ریلیز کی اجازت نہ دی جائی جب تک فلم ساز اپنے دعوے کے حق میں ثبوت نہ دیں۔ اروند کشن نے کیرالہ کے وزیر اعلی وجین کو بھی درخواستیں بھجوائیں جنہوں نے ریاستی پولیس کے سربراہ سے مناسب کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ صحافی نے وزیر اعلی کو لکھے گئے ایک خط میں کہا کہ فلم دی کیرالہ اسٹوری کو غلط معلومات کے ساتھ سنیما گھروں یا او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر ریلیز کیا گیا تو سماج پر اس کے برے نتائج مرتب ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ فلم انڈیا کے اتحاد اور خود مختاری کے خلاف اور انڈیا کی تمام خفیہ اجنسیوں کی ساکھ پر داغ ہے کیرالہ بورڈ کو چاہیے سدیسپتوسین کو بلائے اور تحقیقات کرے کہ یہ فلم کس بھارتی خفیہ ایجنسی کی رپورٹ پر مبنی ہے۔
ہ کیرالہ پولیس نے فلم ساز اور دیگر ارکان کے خلاف بے بنیاد کہانی پر کیس درج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیرالہ کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس انیل کانت نے ترواننت پورم کے پولیس کمشنر سپارجن کمار کو ہدایت کی کہ وہ فلم کے عملے کے خلاف ریاست کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر پیش کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کریں۔ کیرالہ حکومت کی کمیونسٹ پارٹی کے قانون ساز جان برٹامن نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو ایک خط لکھا جس میں ان سے فلم سازوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ لیکن دوسری جانب افسوسناک خبر یہ ہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ کے بعد ہائی کورٹ نے بھی اسلام مخالف فلم ’ دی کیرالہ سٹوری‘ کی ریلیز روکنے سے متعلق جمعیت علمائے ہند کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اسے مسلم مخالف فلم قرار دینے سے بھی انکار کرد ی ہے۔ جمعیت علمائے ہند نے سپریم کورٹ کی جانب سے درخواست مسترد کیے جانے کے بعد کیرالہ ہائی کورٹ سے فلم کی نمائش روکنے کے لیے رجوع کیا تھا۔
کیرالہ ہائی کورٹ نے 4مئی کو درخواست پر آخری سماعت کرتے ہوئے فلم کی نمائش روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اسے کسی بھی مذہب کے خلاف قرار دینے سے انکار کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ فلم میں اسلام کے خلاف کون سی باتیں شامل ہیں؟
کیرالہ ہائی کورٹ کے بینج نے فلم کا ٹریلر بھی دیکھا، جس کے بعد عدالت نے اپنے فیصلے میں بتایا کہ ’ دی کیرالہ سٹوری‘ کسی بھی مذہب کے خلاف نہیں بنائی گئی۔ اس میں اسلام مخالف مواد شامل نہیں ہے ۔ البتہ فلم کی کہانی شدت پسند تنطیم داعش کے خلاف لگتی ہے۔
عدالت نے فلم کی ریلیز روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پروڈیوسرز اور ہدایت کار بڑی محنت، وقت اور پیسہ لگا کر فلمیں بناتے ہیں، ان کی نمائش نہیں روکی جا سکتی۔ البتہ مرکزی فلم سنسر بورڈ فلم کے مواد کا جائزہ لے کر اس پر پابندی یا اس کی نمائش روکنے سے متعلق فیصلہ کر سکتا ہے۔
تاہم ہ دوران سماعت عدالت نے فلم پروڈیوسرز کو فلم کا متنازعہ ٹیزر سوشل میڈیا سے ہٹانے کی ہدایت کی اور کہا کہ 32 ہزار لڑکیوں کا مسلمان ہوکر داعش میں داخل ہونے کا دعویٰ ہٹایا جائے۔ فلم کے پروڈیوسرز نے عدالت کو بتایا کہ وہ عدالتی احکامات پر 32ہزار ہندو لڑکیوں کے مسلمان ہونے کا دعویٰ سوشل میڈیا سے ہٹا رہے ہیں اور وہ ٹیزر کو بھی ڈیلیٹ کر دیں گے۔
بھارت کی متعدد ریاستوں کے کئی اضلاع میں اس کی نمائش روک دی گئی ہے ۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button