Column

’’ جو اماں ملی تو کہاں ملی‘‘

ندیم اختر ندیم

کسی سے محبت کے اظہار کو بہت وقت درکار نہیں ہوتا یا بہت سے الفاظ کا ذخیرہ بھی لازم نہیں۔ اور پھر کسی سے محبت کے اظہار کو ہم چند ایک بار پہ محیط رکھتے ہیں ایسا نہیں کہ ہم عمر بھر کسی سے محبت کا اظہار کرتے رہیں اور انسانی فطرت بھی ہے کہ ہم کسی ایک ہی بات پہ زور دیتے ہوئے اکتا بھی جاتے ہیں یا ایک ہی بات زیادہ کرنا یا سننا پسند نہیں کرتے لیکن نبی مہربان حضرت محمدؐ کی محبت کی جذبہ ہی اتنا لطیف ہے کہ ہم جس قدر بھی آپؐ سے محبت کا اظہار کریں گے دل و نگاہ میں اتنے ہی محبتوں کے پھول کھلیں گے چاہتوں کی تتلیاں رقص کریں گی الفتوں کے جگنو چمکیں گے ہم آپؐ سے چاہتوں کا اظہار کرتے تھکتے نہیں بلکہ جتنا اظہار کرتے ہیں اتنی ہی طلب بڑھتی ہے یہ اظہار ہمارے عشق کو جلا بخشتا ہے پھر کائنات میں بسنے والے نبی کریمؐ کے ہر عاشق کے اظہار کا انداز ہی نرالا ہے، ہر کوئی آپؐ سے محبت کو اپنے انداز میں پیش کرتا ہے، مدینے کے سفر کی خواہشوں کو ہم اظہار کی رعنائیوں میں ڈھالتے ہیں، دعائوں کے نور سے روشن کرتے ہیں اور مدینے کا سفر اللہ عطا فرمائے تو ہم پھولے نہیں سماتے۔ ہمارے پائوں زمیں پر نہیں پڑتے۔ مدینے کا سفر ہماری آرزئوں کے جہان آباد کرکے ہمیں معتبر کر دیتا ہے، ہمیں سکون اور اطمینان کی دولت سے مالا مال کرتا ہے، ہمارے رگ و پے میں شہد سا گھول دیتا ہے، ہماری سانسوں کو معطر رکھتا ہے، ہمیں جینے کے وہ سلیقے عطا کرتا ہے، کہ جیون کا لمحہ لمحہ محبتوں اور عقیدتوں سے مزین ہوجاتا ہے، ایک عاشق صادق اور چاہتا بھی کیا ہے؟۔ نبیؐ کے متبرک مبارک اور مقدس شہر کو جانا۔ یہی مراد اس کی متاع حیات ہوتی ہے، اسی مراد کے بر آنے پر اس کی حیات مہک اٹھتی ہے، ایسی ہی مہکی ہوئی حیات کے ایک مالک ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کی کتاب ’’ جو اماں ملی تو کہاں ملی‘‘، مجھے قلم فائونڈیشن انٹر نیشنل کے علامہ عبد الستار عاصم صاحب نے عنایت فرمائی ہے، بظاہر یہ کتاب چھوٹی لیکن اس کا مقصد بڑا ہے، اس میں باتیں بڑی کی گئی ہیں۔ جناب ڈاکٹر اشفاق احمد ورک نے مدینے کا سفر کیا ہے اور اس سفر کو حرزِ جاں رکھا ہے، یہ سفر نامہ حجاز ہے، جو ان کی نظر میں چاہتوں کی ایسی کلیاں چٹکاتا جاتا ہے، جن کی رنگت ہی بڑی نرالی ہے، جسے ڈاکٹر صاحب لفظوں کا پیرہن دے کر صفحہ قرطاس پر لے آئے ہیں۔ انہوں نے اظہار کا انوکھا طریقہ اپنایا ہے، ان کا طرز بیان ہی نویکلا ہے، مگر سادہ کہ قاری کہیں تحریر کی موشگافیوں میں الجھ کر نہ رہ جائے پڑھنے والا بڑی آسانی سے مصنف کے خیالات تک پہنچنے کا راستہ پاتا ہے۔ ان کی تحریر میں ادبیت اور علمیت بھی ہے، انکے خیالات کی دنیا عشق رسولؐ سے آراستہ ہے عشاق رسول پر اس کتاب کا پڑھنا لازم ہے کہ انہیں اس نثر میں محبت جلوہ گر نظر آتی ہے اور جنہیں محبت کے جلوے میسر ہوں، انہیں اور کیا چاہئے بیت اللہ اور محبوب خدا کے در کی حاضری ان کے دل و نگاہ میں جذبوں کی ایسی کونپلیں کھلا دیتی ہیں کہ جن کی نرماہٹوں میں زندگی کا رنگ ڈھنگ ہی بدل جاتا ہے اور جسے اللہ کے گھر اور اللہ کے رسولؐ کے روضہ مبارک کی حاضری نصیب ہو تو اس کے نصیبوں پہ کون نہ رشک کرے؟۔ مصنف نے بڑی خوبصورتی سے مکہ المکرمہ اور مدینہ المنورہ کے مناظر اس کتاب میں پیش کئے ہیں۔ آپ اس کتاب کو پڑھتے جائیے تو خوبصورت مناظر آپ کی آنکھوں کے سامنے جلوہ نما ہوتے جائیں گے۔ مصنف نے اس سفر کو قرآنی آیات کے حوالے دے کر بیان کیا ہے، جس سے قاری کی دلچسپیاں اور بھی دوچند ہوتی جاتی ہیں، یہ کتاب تاریخی حوالوں سے بھی معمور ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر آتش شوق اور بھی بھڑک اٹھتی ہے، اللہ کے گھر میں آب زم زم اور حجر اسود کا ذکر پاک بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے۔ نبی کریم ٔ کی مکہ المکرمہ میں حیات مبارکہٰ، آپؐ کے اعلی کردار و اخلاق کا مبارک ذکر ہے، خدا کے گھر میں عبادت، ریاضت کے معیار کو بڑے خوبصورت زاویوں سے پرکھا گیا ہے اور خدا کے گھر خدا کے پیارے رسولؐ اور آخری مہربان نبی حضرت محمدؐ کے گزرے ہوئے مبارک لمحات کا ذکر پاک ہے اور پھر اللہ کے رسولؐ کے شہر ِ مقدس میں رحمتوں اور برکتوں کی بہار کو جس سلیقے سے بیان کیا ہے یہ مصنف کا ہی خاصہ ہے۔ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کی زندگی کو یہیں اماں ملتی ہے اور میں سمجھتا ہوں وہ اس سفر کو اپنی زندگی کا حاصل قرار دیتے ہیں۔ اس دور میں کہ جب دھڑا دھڑا کتب مارکیٹ میں آتی جاتی ہیں، لیکن اکثر اپنا وجود ایک روز بھی برقرار نہیں رکھتیں، ایسے میں یہ کتاب’’ جو اماں ملی تو کہاں ملی‘‘، ایک قیمتی کتاب ہے جو حیات جاوداں رکھتی ہے۔ اس کتاب کی تحریر قاری کو اپنے پیچھے پیچھے لئے پھرتی ہے، یہ کتاب حقیقی معنوں میں ایسی کتاب ہے جو اہم کتب میں ایک خوبصورت اور شاندار اضافہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button