Column

وزیراعظم کے حکم پر مفت آٹے میں کرپشن کی تحقیقات

قاضی محمد شعیب ایڈووکیٹ

محترم قارئین! پاکستان مسلم لیگ ( ن) مرکزی رہنما سابق وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز ایک تقریب کے دوران اپنے خطاب میں انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ رمضان المبارک کے مہینے میں غریب عوام میں تقسیم کردہ گندم کے مفت آٹا سکیم میں 20ارب روپے سے زائد کی کرپشن کی گئی جس پر پورے ملک میں اور خاص طور پر حکومتی حلقوں میں بھی بھونچال آ گیا ہے۔ میڈیا میں پاکستان مسلم لیگ ( ن) مرکزی رہنما سابق وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کے بیان کے بعد انہوں نے مختلف قسم کی وضاحتیں پیش کیں مگر صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے اعلیٰ سطح کمیٹی قائم کر کے غیر جانبدارنہ اور شفاف طریقے سے تحقیقات کر کے تما م حقائق عوام کے سامنے رکھنے کا اعلان کر دیا۔ چیرمین فلور ملز ایسوسی ایشن عاطف ندیم مرزا کے مطابق ملک بھر میں گندم کے بحران کے نتیجے میں فلور ملز مالکان اور حکومت کے درمیان معاملات طے نہ ہونے وجہ سے 80فیصد فلور ملیں بند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ مارکیٹ میں آٹے کی سپلائی بھی تعطل کا شکار ہو گئی ہے ۔ اس طرح مہنگا آٹے کا تما م بوجھ غریب عوام کا برداشت کرنا ہے۔ پاکستان میں 2کروڑ75 لاکھ گندم کاشت ہوئی ہے گزشتہ سال کی نسبت 20سے 30فیصد زیادہ ہے۔ اس کے باوجود گندم مافیا اور محکمہ خوراک کی ناقص حکمت عملی کے باعث عوام مہنگے داموں گندم خریدنے پر مجبور ہیں۔ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ 3900روپے فی من گندم کے نرخوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بمپر کراپ والے صوبے میں 5000روپے تا5500روپے فی من گندم فروخت ہو رہی ہے۔ ملک میں گندم کے مفت آٹے کی تقسیم کے بعد اس طرح کی صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ پاکستان میں گندم کے حالیہ بحران اور آٹے کی بڑھتی ہوئے نرخوں پر سراپا احتجاج عوام اور اپوزیشن سیاسی جماعتیں برسراقتدار حکومت کی ناقص گورنس کو قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کی اتحادی مسلم لیگ ( ن) کی حکومت نے عمران خان کے دور میں مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام کو ریلیف دینے کے لیے اپنی تمام سیاسی ساکھ کو دائو پر لگا دیا ہے۔ جس کا خمیازہ عام انتخابات کے دوران بھگتنا پڑے گا۔ پاکستان تحریک انصاف ، جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے سیاسی و معاشی بحران کے خلاف جاری مظاہروں کے دبائو اور آئندہ انتخابات میں شکست کے خوف میں مبتلا حکومت نے رمضان المبارک کے مہینے میں پاکستان کے عوام کے لیے آٹے کی مفت تقسیم کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ آٹے کا مصنوعی اورخود ساختہ بحران پیدا کرکے پورے قوم کو اذیت ناک صورت حال سے دوچار کیا گیا ہے۔ غریب اور مزدور طبقے کی پردہ دار خواتین آٹے کے تلاش میں آج بھی سرگرداں ہیں۔ بازاروں اور چوکوں میں سرکاری آٹے کے ٹرکوں کے سامنے سارا سارا دن لائنوں میں کھڑی غریب عوام کو روٹی کے نوالے کے لیے مجبور کرکے ذہنی اور نفسیاتی مریض بنا دیا گیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام کی سرعام تذلیل کی جا رہی ہے جو انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بقول انقلابی شاعر حبیب جالب مرحوم:
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
محترم قارئین! ملک کے زیاد ہ تر خاندانوں کا دارومدار زراعت کے پیشے پر ہے۔ اس کے باوجود پاکستان گزشتہ دو سال سے اپنے عوام کی ضروریات پوری کرنے کے لیے درآمدی گندم پر انحصار کر نے پر مجبور ہے۔ حکومتی ادارے ہر سال گندم کی کٹائی کے بعد ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کی ضروریات کی پیش نظر کسانوں سے سرکاری نرخوں پر گندم خرید کر پاسکو اور محکمہ خوراک کے گوداموں میں محفوظ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ملک کی فلو ر ملوں کو ایک منظور شدہ کوٹہ سسٹم ک کے تحت گندم کی ترسیل جاری رہتی ہے۔ اس دوران ملک میں کسی قسم کی مصنوعی قلت کو دور کرنے لئے فلور ملز انتظامیہ کے تعاون سے عوام کو سستا اور معیاری آٹا بھی سیل پوائنٹس پر مہیا کیا جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ گندم اور آٹے کی غیرقانونی سمگلنگ کو روکنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بین الصوبائی اور افغان سرحد پر سخت چیکنگ کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ہدایات پر ضلعی انتظامیہ کی زیر نگرانی فلور ملوں اور بازاروں میں چھاپے کے دوران ناجائز منافع خور تاجروں کے خلاف قانونی کاروائی اور بھاری جرمانے بھی عائد کئے جاتے ہیں۔ حکومتی اداروں کی جانب سے ان تمام انسدادی اقدامات کے با وجود ملک میں آٹے اور روٹی کے نرخوں میں خود ساختہ اضافے کے ساتھ ساتھ آٹے کے بحران کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ جس میں فلور ملز نیٹ ورک اور فلور چکی کے مالکان بھی پیش پیش ہیں ۔ آٹے کے مقامی ڈیلرز نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ملی بھگت سے اپنے خفیہ گوداموں میں گندم اور آٹے کی ذخیرہ اندوزی کر رکھی ہے۔ ان میں سے اکثر کے پاس فوڈ گرین کے باضابطہ اجازت نامے تک نہیں ہیں۔ جن کو محکمہ خوراک کے حکام کی آشیر باد بھی حاصل ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب کے سرحدی علاقوں سے کے پی کے ، سندھ، بلوچستان، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان سمیت افغانستان میں سمگل ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ پاکستان میں آٹے کا بحران پیدا ہوتے ہی صوبہ بلوچستان کے تاجروں نے ایران کے سرحدی علاقوں سے گندم کی دیگر مصنوعات کے ساتھ ساتھ اعلیٰ کوالٹی کا آٹا سمگل کرکے اپنی مارکیٹ کی ضروریات پوری کر رہے ہیں جن کی قیمت پاکستان کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ ایران سے سمگل شدہ آٹا بلوچستان کی مارکیٹوں میں 22روپے فی کلو گرام میں پڑتا ہے۔ لیکن سندھ اور پنجاب کے داخلی و خارجی سرحدوں پر صوبائی حکومتوں کی جانب سے سخت پابندی اور کڑی نگرانی کے باعث پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی گندم کے آٹے کا شدید بحران تاحال جاری ہی۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق پاکستان کے عوام 20کلوگرام آٹا 2800روپے سے لیکر 3200روپے میں بھی خریدنے پر مجبور ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایک طاقتور مافیا نے موجودہ سیاسی اور معاشی بحران کی آڑ میں ڈالر، ادویات، چینی، پیاز کے بعد آٹا بھی مارکیٹوں سے غائب کر دیا ہے۔ صوبہ کے پی کے، بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے بعض شہروں کی مارکٹیوں میں سرکاری نرخوں کی بجائے بلیک میں آٹا فروخت ہو رہا ہے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق ملک کے یوٹیلیٹی سٹورز پر بھی آٹے کی شدید قلت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ پشاور، کوئٹہ، کراچی، لاہور میں بعض علاقوں میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 2700سے 3000روپے میں فروخت ہو رہا۔ محکمہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق دسمبر کے آخری ہفتے میں آٹے کی قیمت میں تین فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح موسم سرما کے دوران گھروں میں گیس لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے تنوروں پر رش بڑھ جاتا ہے۔ نان بائی سوختی لکڑی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ سردی کے موسم میں لکڑی کی قیمت میں بھی فی من 200روپے تک کا اضافہ کر دیا ہے۔ نان بائیوں نے ضلع انتظامیہ کے مقرر کردہ روٹی کے نرخوں کو نظر انداز کے اپنے من مانے نرخ مقر ر کر رکھے ہیں۔ نان بائیوں نے نان روٹی 25سے35 اور روغنی نان50روپے میں فروخت کرنا شروع کر دیا ہے۔ ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے، گرمی کی شدت میں تیزی بھی گندم کی پیداوار پر اثرانداز ہوئی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر روپے کی قدر میں کمی اور گند م کی بلند قیمت پر نظرثانی نہ کی گئی تو روس سے منگوائی جانے والی گندم کے نرخ بھی عوام کی پہنچ سے دور ہو جائیں گے۔ مہنگائی کے سیلاب کو قابو کرنا بہت مشکل ہو جائے گا جن کے سامنے تمام سرکاری ادارے بے بس نظر آرہے ہیں۔ جبکہ کے پاکستان کے عوام آٹے اور روٹی کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ حکومت کی رٹ اور قانون کی حکمرانی کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔ اس کے لیے مزید سخت اور قابل عمل قانون سازی کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کے زیر صدارت ایک اجلاس کے دوران کابینہ کو بتایا گیا کہ گندم کی پیداواری ہدف اور پیداوار میں نمایاں فرق ہے۔ جس کی باعث ملک میں گندم اور آٹے کا بحران پیدا ہوا جو گزشتہ حکومت کی ناقص پالیسی، پانی کی قلت اور کھاد کی فراہمی میں بدانتظامی سے ہوا ہے۔ حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت کے اعلان میں تاخیر کی وجہ سے بھی گندم کے کسانوں میں کاشت میں دو فیصد کمی کا رجحان بھی پیدا ہوا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران گندم کی مجموعی پیداوار کا ہدف دو کروڑ انتیس لاکھ میٹر ک ٹن لگایا گیا تھا۔ متوقع پیداوار دو کروڑ چھبیس لاکھ میٹرک ٹن ہے۔ جبکہ پورے ملک میں گندم کی کھپت کا تخمینہ تین کروڑ ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ گندم کی خریداری کے حوالے سے مقررہ کردہ ہدف کے مطابق پنجاب نے 91.66فیصد، سندھ 49.68فیصد، بلوچستان نے 15.29فیصد اور پاسکو نے سو فیصد حاصل کر کے اپنے گوداموں میں محفوظ کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ کابینہ نے گندم کی قلت کو پورا کرنے کے لیے 30لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی بھی منظوری دی ہے۔ وفاقی وزیر فوڈ سکیورٹی طارق بشیر چیمہ نے ایک بیان میں کہا کہ فلور ملز مالکان سے قیمتیں کرنے کے حوالے سے بار بار درخواست کی مگر وہ نہیں مان رہے۔ ملک میں گندم کی قلت نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے گند م کی کافی مقدار موجود ہے۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد تمام اختیارات صوبوں کے پاس ہیں۔ گندم کی خریداری اور اس کی ذخیرہ اندوزی بھی صوبے نے ہی نے دیکھنے ہیں۔ اب صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے صوبوں میں گندم کے کوٹے کے حساب سے فلور ملز کو گندم کی فراہمی کی بروقت یقینی بنا کر آٹے کی بحران کا سدباب کریں۔ فلور ملز ایسوسی ایشن کے موقف کے مطابق صوبوں میں مختلف سیاسی پارٹیوں کی سیاسی مداخلت کی وجہ سے گندم کی فراہمی میں بھی رکاوٹ آ رہی ہے۔ وفاق اور صوبے گندم کی سپلائی روکنے کی بجائے اس کے بروقت اجراء پر توجہ نہیں دے رہے۔ حکومت نجی شعبے کو اگر گند م درآمد کرنے کی اجازت دے تو مارکیٹ میں فی چالیس کلوگرام آٹا 3400سے 4300روپے تک دستیاب ہوگا۔ قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم کی پیداوار میں خودکفیل ہونے کی بجائے ملک پر بحران کے سائے کیوں منڈلا رہے ہیں۔ تاہم ملک میں گندم کی غیر قانونی ذخیرہ اندوزی میں بااثر مافیا کے خلاف سخت اقدامات کرنے کے لیے قانون سازی کرنی ہو گی۔ تاکہ گندم اور آٹے کی مصنوعی قلت کا معاملہ ہمیشہ کے لیے حل کیا جاسکے۔ ۔ وزیر اعظم پاکستان اور نگران وزیر اعلیٰ کے احکامات پر مفت آٹے میں 20 ارب روپے سے زائد کی کرپشن میں ملوث طاقت ور مافیا کے خلاف قانونی کارروائی سے عوام کو سروکار نہیں۔ حکومت کے زیر نگرانی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، نادرا کے علاوہ سرکاری ریکارڈ میں عوام کے حوالے سے مکمل ڈیٹا سرکاری مشینری اور دیگر تما م وسائل موجود ہیں۔ پاکستان میں رواں سیزن کے میں گندم کی بمپر فصل کے حصول کے بعد حکومت کے ادارے سرکاری اور مفت آٹا غریب اور مستحق خاندان کی گھروں تک بھی بہت آسانی سے پہنچانے کا عمل جاری رکھ سکتے ہیں۔ حکومت کے ان اقدامات سے عوام کی عزت نفس بھی مجروح نہیں ہو گی اور ہماری عزت دار مائیں بہنیں اپنے گھروں میں روٹی روزی کا انتظام کر سکیں گی۔ اس طرح ریاست کو بچانے کی دعویدار حکومت کی سیاسی ساکھ بھی کسی حد تک محفوظ ہو جائے گی۔ ورنہ مفت آٹے کی تحقیقاتی رپورٹ بھی ماضی کے میگا کرپشن کی دیگر رپورٹوں کی طرح آئین اور قانون کا مذاق اڑانے کے سوا محض ایک میڈیا ٹرائل کے علاوہ سرکاری وسائل کے ضیاع ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button