Column

فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی .. علامہ عبدالخالق

علامہ عبدالخالق

سابق امام بیت المقدس سید اسد بیوض تمیمی کے صاحبزادے فلسطین میں سرگرم عمل تحریک جہاد اسلامی کے مرکزی رہنما اور ممبر پارلیمنٹ و نیشنل اسمبلی فلسطین سید مامون اسد تمیمی نے دورہ پاکستان کیا، پاکستان میں ان کے میزبان عظیم سیاسی مذہبی رہنما جمعیت علماء اہلحدیث اور اسلامی یکجہتی کو نسل کے چیئرمین اور سابق سیاسی اتحاد ARDکے سیکرٹری جنرل قاضی عبدالقدیر خاموش تھے جن کے زیر صدارت آبائی قصبے ہیل ضلع گجرات مین دفاع فلسطین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، اس کے علاوہ فلسطینی رہنما نے گوجرانوالہ، گجرات اور ایبٹ آباد میں بھی اپنے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیوں سے خطاب کیا۔ ہیل میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سید مامون تمیمی نے کہا کہ بیت المقدس و فلسطین کا مسئلہ صرف اہل فلسطین کا نہیں بلکہ عالم اسلام کا مسئلہ ہے کیونکہ قبلہ اول اسلام کی شاہ رگ ہے اسے کسی طرح بھی یہودیوں کے پاس نہیں رہنے دیا جاسکتا، اس لئے پوری امت مسلمہ اس کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے۔ انہوں نے مزید کہا جو مسلم حکمران اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں وہ صرف اہل فلسطین کے نہیں بلکہ اسلام و مسلمانوں کے غدار ہیں، کانفرنس سے اپنے خطاب میں قاضی عبدالقدیر خاموش نے کہا کہ صرف حکمرانوں کو چھوڑ کر پاکستان کے22کروڑ عوام دل و جان سے فلسطین کے مسئلہ میں اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہیں اور وہ ہر سطح پر جانی و مالی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔ اس موقع پر علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کی مظلومانہ شہادت پر پانچ سال تک احتجاجی تحریک چلانے والے قاضی عبدالقدیر خاموش کے رفقاء کار میں راقم الحروف، سابق ممبر رویت ہلال کمیٹی حافظ شفیق انصاری، مکتبہ قدوسیہ کے مدیر ابوبکر قدوسی، ممتاز صحافی عظیم احمد یزدانی، مولانا عزیز الرحمان حقانی، تحریک صوبہ ہزارہ کے چیئرمین سردار گوہر زمان، مولانا حافظ انس ظہیر، ممتاز عالم دین حافظ انعام اللہ کنجاہ، مولانا الطاف الرحمان شاہ گجراتی، مولانا ابراہیم محمدی، حافظ سیف اللہ خالد، سجاد بٹ، رفیق بٹ، رانا عبدالعلیم، صاحبزادہ امیر معاویہ ، صاحبزادہ عبدالباسط ڈار، ڈاکٹر علی احمد طاہر اور مولانا عبدالغفار ڈار نے بھی خطاب کیا، بعض رہنمائوں نے جو1987ء تا1992ء تک قاضی عبدالقدیر خاموش کی قیادت میں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کے قاتلوں کی گرفتاری اور اہلحدیث کاز کی تعمیر و ترقی کے لئے سرگرم عمل رہے، انہوں نے ماضی کی یادوں کو تازہ کرنے والے واقعات سنا کر حاضرین کو آبدیدہ کر دیا، علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کے قاتلوں کی گرفتاری کے لئے چلائی جانے والی احتجاجی تحریک کا دورانیہ کم و بیش پانچ سال کے عرصہ پر محیط ہے جس کی دوسری مثال پاکستان کی احتجاجی تحریکوں میں نہیں ملتی۔ ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو کے لئے چلائی جانے والی تحریکیں چند ماہ پر مشتمل تھیں وہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکیں لیکن اس تحریک میں عدم کامیابی کی وجہ بعض رہنمائوں کا نواز شریف کے ساتھ سمجھوتہ تھا۔
اے داور حشر میرا نامہ اعمال نہ پوچھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
صاحبزادہ ابوبکر قدوسی نے علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کی کارکنوں کے ساتھ والہانہ محبت کے چند واقعات سنائے اور بتایا کہ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کے ساتھ کارکن جس طرح ٹوٹ کر محبت کرتے تھے اس کی اصل وجہ خود علامہ صاحب کی طرف سے بھی اپنے کارکنان کے ساتھ محبت اور ان کی خبر گیری کا رویہ تھا۔ مولانا انعام اللہ کنجاہی نے فلسطینی رہنما کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہم اہل فلسطین کے ساتھ ہیں ان کی ہر سطح پر حمایت جاری رکھیں گے مولانا ابراہیم محمدی نے اس اجتماع کو بروقت اور ضروری قرار دیا اور نظم و ضبط کی بھی تعریف کی شرکاء نے قاضی عبدالقدیر خاموش کی جلد اور مکمل صحت یابی کیلئے دعائیں بھی کیں اجتماع کے آخر میں شرکاء کے اعزاز میں پرتکلف ظہرانہ دیا گیا، قاضی عبدالقدیر خاموش، ان کے صاحبزادگان امیر معاویہ، عبدالباسط اور بھتیجے مولانا عبدالغفار نے ہر ٹیبل پر جا کر مہمانوں کی خاطر داری اور حوصلہ افزائی کی اور ان کی خیریت بھی دریافت کی، راقم کو سید مامون اسد تمیمی نے بتایا کہ اس وقت ان کے دورہ پاکستان کی ایک وجہ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے مظالم سے اہل پاکستان کو آگاہ کرنا ہے کیونکہ میڈیا چونکہ یہودی لابی کا آلہ کار ہے اس لئے وہ ادھوری رپورٹیں دیتا ہے۔ اصل اور سلگتے حقائق کی پردہ پوشی کرتا ہے، پورے فلسطین میں جگہ جگہ اسرائیلی فوجیوں نے اپنی چوکیاں قائم کرکے اسے اسرائیلی پولیس سٹیٹ بنا دیا ہے اور وہ عام گزرنے والے بزرگ افراد، خواتین کی توہین و تذلیل کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور پھر بے گناہ نوجوانوں کو گرفتار کرکے پہلے انہیں ظالمانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں پھر انہیں جیل میں بند کر دیتے ہیں اور اکتوبر 2018ء میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے قومی حکمت عملی برائے انسداد دہشت گردی جسے سنچری ڈیل کا نام دیا گیا تھا دراصل وہ اسرائیل کی بالادستی کی سازش تھی جسے اب پروان چڑھایا جارہاہے جبکہ اہل فلسطین نے اسے صیہونی حکمت عملی برائے انسداد فلسطین و شام لبنان یمن قرار دیا اور سنچری ڈیل کے نام سے معاہدے کی جو دستاویز ہے وہ دراصل امریکہ اور اس کے بغل بچہ اتحادیوں کو مطمئن کرنے کا ایک ٹوٹکا ہے۔ اس میں حریت پسند فلسطینی اور اپنے وطن کی بازیابی کیلئے لڑنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی، انہوں نے کہا خاص اس وقت پاکستان آمد کی دوسری وجہ یہ ہے کہ 1992ء میں میرے والد سید اسد بیوض تمیمی جو تحریک آزادی فلسطین کے عظیم رہنما تھے اور قبلہ اول بیت المقدس کے امام و خطیب بھی تھے، وہ پاکستان آئے تھے اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو جو حزب اختلاف میں تھیں ان سے ملے اور ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کا اہل فلسطین کیلئے کردار اور فلسطین کے ساتھ ان کی محبت کے واقعات کو یاد دلاتے ہوئے ان سے وعدہ لیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گی، اس وقت عرب ممالک انڈر ٹیبل اسرائیل کے ساتھ امریکی دبائو پر مذاکرات میں مصروف تھے تو محترمہ نے ان سے کہا تھا کہ اگر عرب ممالک جو اصل حریف ہیں وہ اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو ہمارے لئے تسلیم نہ کرنے کا جواز باقی نہیں رہتا تو میرے والد محترم نے کہا تھا یہ مسئلہ عربوں کا نہیں عالم اسلام کا مسئلہ ہے اور ایک صحافی کی حیثیت سے گزشتہ تیس سالوں سے میں فلسطین کے حوالے سے بیرونی دنیا کی انٹر نیشنل سیاست پر گہری نگاہ رکھی ہوئے ہوں، اکتوبر 2018ء میں ایک اسرائیلی طیارے نے پاکستان کا دورہ کیا اور طیارہ کراچی ایئرپورٹ پر اترا تھا جس میں موجود لوگوں نے پاکستانی حکام کے ساتھ انڈر ٹیبل مذاکرات بھی کئے تھے اس کی تصدیق اسرائیل صحافی اے وی شارف نے سوشل میڈیا پر کی تھی اس کے بعد ایک سابق پاکستانی سفارتکار کی بیٹی اور امریکن نیشنل انیلہ کی قیادت میں ایک وفد نے تل ابیب کا دورہ کیا تھا میرے آنے کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے صاحبزادے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کو یہ بات سمجھائوں کہ اسرائیل کے ساتھ پاکستانی حکمرانوں کے مذاکرات و تجارت کی جو باتیں ہورہی ہیں وہ اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ان مذاکرات اور روابط کو رکوائیں اور اہل فلسطین کے ساتھ اپنے والد اور والدہ کی محبتوں کو پروان چڑھائیں۔ ان سے پوچھا گیا کیا وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے اس مشن میں کامیاب ہوجائیں گے، انہوں نے کہا کہ میں اچھی امید لیکر آیا ہوں، کامیابی اور ناکامی اس کے دونوں پہلو ہیں اور فلسطین کے عوام گزشتہ 72سال سے لڑ رہے ہیں، اسرائیل اور اس کے سرپرست نہتے فلسطینی جن کے ہتھیار صرف پتھر ہیں جبکہ اسرائیل ایٹم بموں سے لیس ہے ان نہتے فلسطینیوں کو شکست نہیں دے سکتا
گر بازی حق کی بازی ہے تو جی چاہے لٹا دو ڈر کیسا
گر بازی جیت گئے تو کیا کہنا گر ہارے بھی تو بازی مات نہیں
آخر میں انہوں نے پاکستانی علماء مشائخ ، سیاسی و سماجی رہنمائوں سمیت فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکنے والے پاکستانی اہل دل سے دعائوں کی بھی اپیل کی اور کہا میں دورہ پاکستان سے بلند عزائم اور حوصلوں کا خطیر سرمایہ لے کر اہل فلسطین کے پاس واپس جا رہا ہوں اور اپنے فلسطینی بھائیوں کیلئے یہ خوشخبری بھی کہ حکمران جو بھی کریں پاکستانی عوام اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہیں اور ان کے شانہ بشانہ کردار ادا کریںگے، اسرائیلی دہشت گردی کی ہر سطح پر مذمت جاری رکھیں گے۔ دریں اثنا فلسطینی رہنمائوں نے متحدہ علماء محاذ پاکستان کے بانی سیکرٹری جنرل مولانا محمد امین انصاری، مرکزی چیئرمین علامہ عبدالخالق فریدی و دیگر قائدین کو فلسطین کے حوالے سے گراں قدر خدمات جاری رکھنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button