ماہ رمضان ہے، آسانیاں پیدا کریں ۔۔ امتیاز احمد شاد
امتیاز احمد شاد
ماہ رمضان ہے، آسانیاں پیدا کریں
الحمدللہ رمضان المبارک کا آغاز ہوگیا ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کیلئے سراسر ہدایت ہے‘‘۔سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب رمضان شروع ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیطان جکڑ دیے جاتے ہیں‘‘۔
رمضان المبارک کا مہینہ سال کے باقی تمام مہینوں سے افضل و اعلیٰ ہے۔ یہ اپنے اندر لامحدود اور اَن گنت رحمتیں سموئے ہوئے ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ نبی کریمﷺکا ارشاد ہے: ’’یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا پہلا حصہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم کی آگ سے نجات دیتا ہے‘‘۔ آپﷺ نے مزید فرمایا: ’’اس مہینے میں رحمت اور خیر و برکت کے خزانوں کی بارش ہوتی ہے۔ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، نفل کا ثواب فرض کے برابر، اور فرض کا ثواب ستّر فرائض کے برابر دیا جاتا ہے، اور ایمان و احتساب کے ساتھ روزہ رکھنے والوں اور رات کو نماز پڑھنے والوں کے سارے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں‘‘۔ یوں تو رمضان المبارک کا ہر لمحہ مقدس و محترم ہے، لیکن اسے ایک خاص فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ اس کے آخری عشرے کی کسی طاق رات میں اہل ِ ایمان شبِ قدر کی نعمت ِ عظمیٰ سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ یہ ایسی رات ہے جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’یہ رات ہزار مہینوں سے افضل ہے‘‘۔ زندگی میں ایک بار بھی اگر یہ رات کسی کو میسر آجائے تو اس کی خوش نصیبی کے کیا کہنے۔ رمضان المبارک میں جہنم کے دروازے بند اور شیطان کو قید کردیا جاتا ہے، یہی سبب ہے کہ وہ حضرات جو گیارہ ماہ تک دینی فرائض سے غافل رہتے ہیں اُن کا بھی جی چاہتا ہے کہ اس ماہ میں نیکیاںکما لی جائیں۔ اس ماہ صدقات و خیرات عام ہوجاتے ہیں، مساجد نمازیوں سے بھر جاتی ہیں، گھر گھر سے تلاوتِ کلام پاک کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، لوگ خود اپنے لیے ہی افطار و سحر کا اہتمام کرتے بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسروں کو بھی یہ نعمتیں بہم پہنچائیں۔ غرض ماہِ رمضان شروع ہوتے ہی ماحول بالکل تبدیل ہوجاتا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جہاں دنیا بھر میں اہم مواقع اور تہواروں پر خورو نوش کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی ہوتی ہے، یہاں تک کہ برطانیہ میں تمام بڑے بڑے گروسری سٹور پانچ فی صد مسلمان اقلیت کیلئے بہت سی اشیاء رعایتی نرخوں پر فراہم کرتے ہیں۔ رمضان کا چاند نظر آنے کا اعلان ہوتے ہی ان سٹورز کے اندر ’رمضان مبارک‘ کے پوسٹر بھی آویزاں کیے جاتے ہیں اور خصوصی شیلف لگائے جاتے ہیں جن میں رمضان میں رعایتی نرخوں پر فروخت کی جانے والے اشیاء بڑے اہتمام سے لگا دی جاتی ہیں جبکہ ہمارے یہاں رمضان کی آمد کے ساتھ ہی بنیادی اشیائے خورو نوش بالخصوص پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔
اس سال بھی آمدِ رمضان سے پہلے ہی بنیادی اشیاء مہنگی ہونے کی روایت برقرار ہے اور قیمتیں رُکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں، پہلے تین روزوں میں مہنگائی کی جوصورتِ حال دیکھنے کو ملی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جوں جوں رمضان شریف آگے بڑھے گا منافع خور مزید مہنگائی کرتے نظر آئیں گے۔ اس وقت گھی، کوکنگ آئل، آٹا، سبزیاں اور دیگر اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہورہا ہے۔ پورے ملک میں ماہِ رمضان سے قبل ہی منافع خوری شروع ہوگئی تھی۔ انتظامیہ کی جانب سے اشیائے خورو نوش کی سرکاری قیمتوں پر عمل درآمد کرانے کا دعویٰ کیا گیا تھا، لیکن ہمیشہ کی طرح اس پر کہیں عمل درآمد نظر نہیں آرہا۔ سبزی و فروٹ منڈی اور ہول سیل مارکیٹوں سے خوردہ سطح پر پھل، سبزیاں، آٹا، دالیں، چاول اور دیگر اجناس بھی من مانی قیمت پر مہنگے داموں فروخت ہورہی ہیں اور عوام ریلیف سے محروم نظر آتے ہیں۔ مہنگائی اور قیمتوں کے بڑھنے کی بنیادی وجہ بدنیتی، ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی ہے جس سے رسد اور طلب میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔افسوس ہم کار خیر کرتے ہوئے بھی دکھاوے سے کام لیتے ہیں۔
ہماری حکومت نے بھی ضرورت مندوں میں آٹا بانٹتے ہوئے عجب تماشا بنا رکھا ہے،اس وقت تک پانچ قیمتی انسانی جانیں آٹے کے حصول میں جا چکی ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے اوپررمضان کے بابرکت مہینے میں بھی بارشوں اور ژالہ باری کا سلسلہ تواتر سے جاری ہے اور گندم کی فصل تباہ ہو چکی ہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ جہاں ہم اس مہینے کی رحمتوں اور برکتوں کے حصول اور خدا کی خوشنودی و رضا حاصل کرنے کیلئے اپنا وقت زیادہ سے عبادت میں لگائیں، وہیں رمضان کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے معاملات ٹھیک کریں۔ ریاست عوام کیلئے اور ہم اپنے اردگرد لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کریں، اور خیر کے کاموں کا تماشا کرنے کے بجائے عملی طور پر اس میں زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالیں۔ اس ماہ میں غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں کے ساتھ ایثار اور ہمدردی کامعاملہ کیا جائے، ان پر سخاوت کی جائے، یہ اس لیے کہ ایک تو ان کا حق ہے اور دوسرا اس لیے کہ صدقہ وخیرات کرنے سے ممکن ہے کہ اللہ کے کسی بندے کا دل خوش ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائے اور ہمارا مقصد پورا ہوجائے۔ یا ہوسکتا ہے ہماری عبادت، ہماری تلاوت، ہماری نمازوں میں کوئی کمی رہ گئی ہو یا اس قابل نہ ہوں کہ وہ قبولیت کامقام حاصل کرسکیں تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرمالیں، اس لیے اس ماہ میں ہمیں پوری طرح خیرات وصدقات کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ بہرحال اس کی عظمتوں، برکتوں اور خصوصیتوں کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی حرمت کا پورا لحاظ رکھنا چاہیے کیونکہ رمضان اللہ تعالیٰ کا شاہی مہمان ہے، جو ہمارے پاس بوجھ بن کر نہیں، رحمت کی موج بن کر آتا ہے، اس لیے اس کے منافی کوئی کام نہ کریں۔ یہی اس مبارک مہینے کی اصل روح اور تقاضا ہے۔