Columnمحمد مبشر انوار

آئین کی حیثیت!!! ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

آئین کی حیثیت!!!

مہذب ریاستوں میں حکومتی امور کی انجام دہی میں ،آئین کی حیثیت مقدس دستاویز کی تصور ہوتی ہے کہ جس کے تحت ریاست کے تمام تر امور سرانجام دئیے جاتے ہیںاور ریاستی مشینری کے کسی بھی کل پرزے کو یہ جرأت نہیں کہ آئین سے انحراف کا سوچ بھی سکے، کجا آئین میں رقم قوانین کی خلاف ورزی کی جائے۔ تمام تر ریاستی مشینری خواہ اس کا عہدہ آئینی ہو یا کسی دوسرے ماتحت قانون کے تحت اسے ذمہ داریاں تفویض ہوں،کسی بھی صورت آئین سے بالا نہیں اور نہ ہی کوئی شخص اس سے مبرا ہے اور نہ ہو سکتا ہے وگرنہ ریاستی انتظام بعینہ شتر بے مہار یا ایسی ناؤ کا منظر پیش کر سکتا ہے کہ اس کا ہرکھیون ہار ،اپنی صوابدید پر اس کی سمت کا تعین کرتا نظر آئے اور ریاست کی ترقی و خوشحالی کا سفر کسی صورت آگے بڑھتا دکھائی نہ دے۔ باقی دنیا میں بالعموم ایسی صورتحال بہت کم نظر آتی ہے لیکن پاکستان اس غیر آئینی اقدامات میں انتہائی تیزی کے ساتھ باقی ممالک کو پیچھے چھوڑتے ہوئے،آگے نکلنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتا ہے،دکھ اس امر کا ہے کہ غیر آئینی اقدامات کرنے والوں کی تعلیم پر نظر دوڑائیں تو انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ ایسی ایسی نابغہ روزگار ہستیاں ،جن کے نام کے ساتھ بڑی بڑی تعلیمی ڈگریاں موجود ہیں،آئینی تکریم کے بنیادی فلسفے سے روگردانی کرتی نظر آتی ہیں۔ان ہستیوں میں کیاسول اور کیا عسکری شخصیات،ہر کوئی آئین کو موم کی ناک بنانے پر تلا نظر آتا ہے کہ جو تشریح وہ فرمائیں ،وہی قانون کا درجہ رکھے جبکہ عدالت عظمی ،جس کا کام ہی آئین کی تشریح ہے،اس کے فیصلوں سے انحراف کرنے کی جرأت کسی مہذب معاشرے میں ممکن ہی نہیں ،لیکن پاکستان میں اس جرأت کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔گو کہ ماضی میں عدلیہ کے ماتھے پر بہت سے ایسے فیصلے سجے ہیں کہ جن کی توقع کسی بھی صورت کسی اعلیٰ ترین عدلیہ سے نہیں کی جا سکتی تھی ،اس کے پس پردہ کیا حقائق رہے ہیں،ہم سب بخوبی جانتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ کسی بھی متاثرہ فریق نے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے سے انحراف نہیں کیا اور عدلیہ کے فیصلے پر عمل درآمد ضرور ہوا۔ ماضی قریب میں ہی ،تحریک انصاف کے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر ،عدالت عظمیٰ نے جو فیصلہ کیا،اس پر تحریک انصاف کے تحفظات کے باوجود اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے،اپنی حکومت گنوا دی لیکن عدالت عظمیٰ کے کئے گئے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔دوسری طرف مسلم لیگ نون کاماضی اس کے برعکس رہا ہے کہ جب بھی انہیں یہ اندیشہ ہوا کہ عدالت عظمیٰ سے فیصلہ مسلم لیگ نون کے خلاف متوقع ہے،انہوں نے عدالت عظمیٰ کی تکریم کو روندنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،مخالفین کے خلاف فیصلوں پر اثر انداز ہونا ہو یا جھوٹے مقدمات ہوں،ججز پر حملہ ہو یا ان کی ذات پر رکیک حملے،عدالت عظمیٰ پر چڑھائی ہو یا ججز کو بعد از ملازمت نوازنا،یہ تمام اعزازات مسلم لیگ نون کے پاس رہے ہیں،جس کو بڑے فخر سے اپنے کارنامے بیان؍سمجھا جاتا ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ ریاستی مشینری بالعموم جب کہ عدلیہ بالخصوص مسلم لیگ نون کے نشانے پر رہی ہے اور بیشتر ججز کسی نہ کسی صورت مسلم لیگ نون کے حق میں جاتے رہے ہیں،جس کی وجوہ میں بنیادی چیز ذاتی کردار ہی ہو سکتا ہے کہ اس کے افشاں ہونے کے خوف سے ججزدباؤ کا شکار رہے ہوں،جیسا کئی ایک ججز کی آڈیوز؍ویڈیوز منظر عام پر آتی رہی ہیں۔بہرکیف اس کا فیصلہ تو وقت آنے پر اللہ رب العزت کی عدالت میں سنایا جائے گا لیکن فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ آئین ،جو مہذب معاشروں میں انتہائی مقدس دستاویز تسلیم کی جاتی ہے،عدالت عظمیٰ جس کے فیصلوں کے خلاف ریاست کے کسی بھی شخص کو جانے کی جرأت نہیں ہوتی ،تادم تحریر موم کی ناک دکھائی دے رہی ہے ۔ عدالت عظمیٰ کا واضح فیصلہ ہے کہ دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات آئینی مدت کے اندر ہر صورت کروائے جائیں لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ آئین کے خلاف، عدالت عظمیٰ کے قطعی فیصلے سے ہٹ کر ،اپنا صوابدیدی اختیار(جو آئین میں کہیں بھی نہیں)کرتے ہوئے ازخود انتخابات کو تیس اپریل کی بجائے آٹھ اکتوبر کو کروانے کا اعلان کر چکے ہیں۔حیرت تو اس امر پر ہے کہ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر پر کوئی تنقید کی جائے تو اس پر الیکشن کمیشن فوری متحرک ہو جاتا ہے اور مذکورہ شخص کو توہین الیکشن کمیشن کا نہ صرف نوٹس بھیج دیتا ہے بلکہ اس کے خلاف سخت ترین کارروائی بھی کرتا دکھائی دیتا ہے لیکن یہ کارروائی بھی یکطرفہ ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کے رہنما کچھ بھی کہیں،ان پر الیکشن کمیشن خاموشی اختیار کئے رکھتا ہے۔دوسری طرف عدالت عظمیٰ کے واضح احکامات سے دانستہ روگردانی الیکشن کمیشن کے نزدیک ،کسی بھی صورت نہ عدالت عظمیٰ کی توہین سمجھی جاتی ہے اور نہ ہی آئین کی خلاف ورزی سمجھی جاتی ہے،بس مطمع نظر یہ ہے کہ آقاؤں کی طرف سے انتخابات کی اجازت نہیں لہٰذا چیف الیکشن کمیشن یا اراکین الیکشن کمیشن کو کسی بھی قسم کا کوئی خوف لاحق نہیں۔اس دیدہ دلیری او ردھڑلے سے عدالت عظمیٰ کے احکامات سے انکار صرف اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے کہ جب یقین کامل ہو کہ عدالت عظمی اس پر منکرین کی گو شمالی نہیں کر سکے گی یا دوسری صورت یہ ممکن ہے کہ اگر عدالت عظمیٰ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرتی بھی ہے تو آقا انہیں انعام و اکرام سے نوازنے کے دوسرے راستے اختیار کر سکتے ہیں۔
تیسری او ر اہم ترین صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اس طرح احکامات سے انحراف کر کے ،ایک بحرانی کیفیت پیدا کی جائے تا کہ جو احکامات عدالت عظمیٰ نے دے رکھے ہیں،ان کی تکمیل مقررہ مدت میں ممکن ہی نہ ہو سکے اور ریاستی ادارے باہمی دلائل میںیوں الجھے رہیں کہ وقت گذر جائے۔اس صورت میں کامیابی بہرصورت ان قوتوں کی ہو گی جو موجودہ صورتحال میں کسی بھی طرح انتخابات کا انعقاد نہیں چاہتے،یوں ان کا مقصد پورا ہو جائیگا کہ تحریک انصاف کے واپسی کے راستے مسدود ہوتے جائیں گے اور جتنا وقت موجودہ حکومت کو ملے گا،وہ اس میں تحریک انصاف کے خلاف انتقامی کارروائیوں کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لائے گی۔کیا اس لائحہ عمل سے موجودہ حکومت تحریک انصاف میں دڑاڑیں ڈالنے میں کامیاب ہو جائے گی؟یا کیا اس طرح عمران خان کے مخالفین بشمول مقتدرہ عمران خان سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے؟زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ ہے اور کوئی بھی شخص لاکھ کوششیں کرلے کسی کی جان لینے پر قطعی قادر نہیں البتہ اگر کسی کے عمل سے کوئی شخص جان کی بازی ہار جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ سبب ایسا ہی تھا لیکن جیتے جی عمران خان اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹتا دکھائی نہیں دیتااور موجودہ سیاسی صورتحال میں عمران خان کے مخالفین کا یہ گمان کہ وہ اس کی جماعت میں نقب لگا نے میں کامیاب ہو جائیں گے،دیوانے کا خواب محسوس ہوتا ہے۔ عمران خان کی جماعت میں نقب لگانے کا بہترین وقت وہی تھا جب اسے حکومت سے نکالا گیا تھا،لیکن عوامی حمایت کے سبب،جو پنچھی اڑنے کا سوچ رہے تھے،ان کیلئے یہ ممکن نہ رہا کہ وہ سیاسی خودکشی کرتے جبکہ اس وقت تو عمران خان کو طوطی بول رہا ہے،اس وقت کیسے اس کی جماعت میں نقب لگ سکتی ہے؟بہرکیف عام انتخابات کیلئے وقت حاصل کرنے کی یہ تمام تدبیریں ناکافی دکھائی دیتی ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ اس مرتبہ آئین نے عدالت عظمی کے دروازے پر دستک دی ہے اور وہ آئین کو اس کا حق دلائیں گے۔الیکشن کمیشن کے موجودہ اقدام نے نہ صرف عدالت عظمیٰ بلکہ آئین کی حیثیت کو بھی چیلنج کیا ہے،پس پردہ کوئی بھی طاقت ہو،عدالت بااختیار ہو تو نہ صرف اپنے احکامات پر عملدرآمد کروا سکتی ہے بلکہ آئین کی مقدس حیثیت کا تعین بھی بخوبی کر سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button