
ریاض الیکٹریشن اور اسکندر مرزا .. کاشف بشیر خان
کاشف بشیر خان
لاہور کے علاقہ گڑھی شاہو کے مین بازار میں ایک چھوٹی سی دکان جو کہ کارپوریشن کی ملکیت ہے میں پچھلے چالیس سال سے ایک بزرگ لیکن اپنے کام کا ماہر الیکٹریشن ریاض اپنی دکانداری کرتا رہا ہے۔ ریاض کے مطابق اس کی چھوٹی سی کھوکھا نما دکان میں وہ بجلی کا سامان رکھ کر لوگوں کے گھروں میں وائرنگ کا کام کرتا رہا ہے۔ راقم گڑھی شاہو میں واقع ایک گھر میں جب ایک دوست کے ساتھ کسی کی دعوت پر ملنے گیا تو ریاض وہاں پر کام کر رہا تھا۔ جب مالک مکان نے اسے وائرنگ کے کچھ کام سونپے تو اس نے وہ مشکل کام بمشکل بیس منٹ میں کر دیئے۔ میں حیران رہ گیا اور اب میری دلچسپی کا مرکز ریاض نامی بوڑھا الیکٹریشن تھامیں نے اس کے برق رفتار کام کی تعریف کی تو وہ ہنس دیا اور کہا کہ’’ اسکندر مرزا کے زمانے سے کام کر رہا ہوں‘‘ کام ختم کرنے کے بعد اس کی ہنسی بہت ہی دلکش تھی۔ ریاض کی دیواروں میں’’ جھریاں‘‘ مارنے کی رفتار کسی بھی مشین سے زیادہ تیز اور صاف تھی اور کسی بھی کام کے اختتام پر اس کے چہرے پر ایک دلکش اور فاتحانہ ہنسی قابل دید تھی۔
جس گھر میں ریاض وائرنگ کا کام کر رہا تھا اس کا مالک کچھ زیادہ پڑھا لکھا نہ تھا اور دولت کی فراوانی ہونے کے باوجود بڑے چھوٹے کی عزت کرنے کے فن سےعاری تھا۔ ایک موقع پر جب مالک مکان نے اس کے کام میں مداخلت کرتے ہوئے اونچی زبان میں ڈانٹا تو ریاض ہتھے سے اکھڑ گیا اور کام سے انکار کرتے ہوئے اپنے اوزار اکٹھے کرنے لگا۔ مالک مکان نے مجھ سے درخواست کی کہ اس کو کام کے واسطے روکوں۔ میں نے جب اس سے کام کرنے کی درخواست کی تو وہ ہنس دیا او رایک آنکھ دباکر بولا کہ کام میں ہی کروں گا لیکن ابھی نہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد مالک مکان کی بجائے وہ میرے پاس بیٹھ گیا اور بتانے لگا کہ وہ اسکندر مرزا کے زمانے سے کام کر رہا ہے اور ایوب خان کے مارشل لاء کا بھی چشم دید گواہ ہے۔ ریاض نے بتایا کہ جب ایوب خان نے مارشل لاء لگایا تو وہ ابھی جوان نہیں ہوا تھا اور لڑکپن میں تھا۔ ریاض کے مطابق اکتوبر1958 میں ایک روز جب وہ مزنگ چوک سے پیدل اپنے ایک دوست کے ساتھ جی او آر کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ آرمی کے ٹرک مال روڈپر موجود ہیں اور جو شخص نظر آتا اس کو اٹھا کر ٹرک میں ڈال کر نامعلوم جگہ پر پہنچا یا جارہا تھا۔ ریاض کے مطابق وہ اپنے کام پر جانے کے بجائے جی او آر میں گھس گیا اور گھنٹوں وہاں چھپا رہا اور جب اسے یقین ہو گیا کہ مال روڈ پر فوجی ٹرک نہیں ہیں تو وہ واپس مزنگ چوک چلا گیا جہاں پر اس کے ٹھیکیدار نے اس کو رہنے کے لیے گھر دیا ہوا تھا۔
ریاض نے بتایا کہ فیروز خان نون وزیراعظم پاکستان بنے تو لاہور میں نہر کنارے ان کی رہائش گاہ تھی اور اس بنگلہ میں کچھ کام کا ٹھیکہ ریاض کے مالک نے لیا ہوا تھا۔ ریاض اور اس کا ایک ساتھی وہاں کام کر رہے تھے کہ بیگم فیروز خان نون وہاں آئیں اور اپنے بڑے بڑے بُندے وہاں میز پر رکھ کر باتھ روم چلی گئیں۔ جب وہ واپس آئیں تو سونے کے بُندے غائب تھے۔ ریاض کے مطابق وہ اور اس کا ساتھی نوجوان اس واقعہ پر پریشان ہو گئے اور ان سے پوچھ گچھ شروع ہو گئی اور ان کے مالک ٹھیکیدار کو بلوا لیا گیا۔ ریاض کے مطابق ان کا ٹھیکیدار Triumphموٹر سائیکل پر پگڑی اور دھوتی کے ساتھ کھسہ پہن کر وزیراعظم کی رہائش گاہ پر پہنچا اور آتے ہی کہا کہ میرے ملازم دونوں لڑکے چوری نہیں کر سکتے۔ ٹھیکیدار نے بھی بُندے تلاش شروع کرنے شروع کر دیئے ۔ اسے میز کی پچھلی جانب ایک کپڑا زمین پر پڑا ہوا نظر آیا۔ جب اس کپڑے کواٹھایا گیا توبُندے ا س میں سے نکل آئے۔ تفتیش پر پتا چلا کہ کام کرنے والی خاتون نے بیگم صاحبہ کو دیکھ کر جلدی سے میز کا کورتبدیل کرتے ہوئے گندا کور لپیٹ کر نیچے پھینک دیا تھا اور بُندوں کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ ریاض کے ٹھیکیدار نے دونوں لڑکوں کو اپنی موٹر سائیکل پر بٹھایا اور کام سے انکار کر دیا۔ریاض کے مطابق بعد میں بیگم فیروز خان نون نے دونوں لڑکوں کو بلایا اور معذرت کرتے ہوئے انعام دے کر کہا کہ یہاں کا تمام کام آپ ہی کرو گے۔
ریاض نے بتایا کہ ہنڈا فیکٹری کی وائرنگ کا تمام کام میں نے کیا تھا۔ کام شروع ہوتے ہی ہنڈا فیکٹری کے مالک نے مجھے موٹر سائیکل اس وقت لے کر دی تھی جب ان کا مین بورڈ جو کہ ایک بڑے سائز کا تھا اور اس کی فٹنگ کی کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی لیکن ریاض نے چند گھنٹوں میں اس کے کنکشن چالو کر دیئے تھے۔ ریاض کے مطابق ایک دن جب وہ فیکٹری میں وائرنگ کا کام کر رہا تھا تو مالک خود اس کے پاس آیا اور کہا کہ آج مجھے تمہاری موٹر سائیکل چاہیے اور تم میرے ڈرائیور کے ساتھ چلے جانا بلکہ آج تم جلدی چھٹی کر لو۔ ریاض کے مطابق جب وہ گڑھی شاہو کے قریب اپنے گھر کے باہر پہنچا تو اپنے گھر کے باہر بچھی دریاں دیکھیں تو پریشان ہو گیا۔ اسے پتا چلا کہ اس کے والد انتقال کر گئے ہیں۔ ریاض کے مطابق اس کے والد کے جنازہ میں ہنڈا فیکٹر ی کے تمام ملازم بشمول مالک کے شریک ہوئے تھے اور مالک نے جنازہ کے بعد ایک کثیر رقم اسے دیتے ہوئے کہا تھا کہ قل کی رسم ہنڈا فیکٹری کی جانب سے ادا کی جائے گی۔
ریاض کی کھوکھا نما دکان جس کا وہ ماہانہ کرایہ گزشتہ چاردہائیوں سے ادا کرتا ہوا آ رہا ہے، کچھ ماہ پہلے ٹاؤن والوں نے سیل کر دی۔ اس کے احتجاج پر اس کا سامان باہر نکال کر رکھ دیا گیا اور دکان کو دوبارہ سیل کر دیا گیا۔ ریاض کے مطابق جب وہ ارباب اختیار کے پاس پہنچا تو اسے یقین دلایا گیا کہ اس کے ساتھ کی گئی زیادتی کا ازالہ کیا جائے گالیکن کچھ دنوں کے بعد اس کا سامان بھی غائب کر دیا گیا اور اس کی دکان کو ایسے شخص’’بٹ‘‘ کے حوالے کر دیا گیا جس کا تعلق پنجاب کی سابق حکمران جماعت سے تھااور اب وہ وہاں پر لنڈے کے کپڑے رکھ کر دکان پر قابض ہو چکا ہے۔ ریاض کے مطابق وہ علاقہ کے سابق ایم پی اے جو کہ سابق وزیر اعظم کا عزیز ہے، کے پاس روز حاضری دیتا رہتا ہے اور و ہ سابق رکن اسمبلی ریاض کو یقین دلاتا ہے کہ ریاض سے زیادتی نہیں ہو گی۔ یہ بتاتے ہوئے ریاض کہتا ہے کہ اسکندر مرزا اچھا آدمی تھا۔ جب میں نے کہا کہ اسکندر مرزا تو وہ شخص تھا جس نے ملک میں پہلا مارشل لاء لگوایا تھا اور افواج پاکستان کو سیاست میں مداخلت کرنے کا راستہ دکھایا تھا تو ریاض خوب ہنسا اور کہا کہ آپ بھی بادشاہ آدمی ہوجی۔ جو شخص وزیر دفاع، صدر پاکستان، گورنر جنرل پاکستان اور میجر جنرل رہا ہو اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں دوا کے لیے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے دیار غیر میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا ہو، تو وہ غلط کیسے ہو سکتا ہے۔ ریاض کے مطابق اتنے عہدے ہونے کے باوجود لندن میں ایک پرانے سے ہوٹل میں غربت کے ہاتھوں مرنے والا شخص کرپٹ نہیں ہو سکتا۔میں ریاض کی بات سن کر سوچ میں پڑ گیا کہ پاکستان میں تو ایک ایم پی اے اور ایم این اے الیکشن جیت کر دولت کے انبار لگا دیتے ہیں اورپچھلے چا لیس سالوں سے پا کستان کے اقتدار پر براجمان تمام حکمران دنیا کے امیر ترین لوگ بن چکے ،جب کہ اسکندر مرزا کے پاس تو بہت سے عہدے رہے تھے۔ کیا وہ واقعی کرپٹ نہیں تھا۔۔۔۔۔؟؟