CM RizwanColumn

معاشی چیلنج اور ہماری بداعمالیاں .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

آج پاکستان کے حالات ایسے ہی دکھائی دے رہے ہیں جیسے اس کے پہلے سال کے اختتام پر تھے۔ ملک کو حکومت میں تیز تبدیلیوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی سیاسی افراتفری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سابق وزیرِاعظم عمران خان کے یوکرین پر حملہ کے موقع پر دورہ روس کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی متضاد جغرافیائی و سیاسی دھڑوں کے درمیان الجھ کر رہ گئی۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے نے مالیاتی بحران کو جنم دیا اور غیر معمولی سیلاب کی تباہ کاریوں نے اس پر مزید بوجھ ڈال دیا۔ اس طرح اچھی امیدوں کے باوجود سابقہ حکومت کا آخری سال بری طرح سے ہنگامہ خیز رہا۔ عمران حکومت کا خاتمہ، نئی مخلوط حکومت کے قیام اور بعد ازاں اقتدار کے مکروہ کھیل نے بالآخر معیشت کا بھرکس نکال دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے مطابق عمران خان کے دورہ روس کو جو کسی پاکستانی وزیرِاعظم کا 22 سالوں میں پہلا دورہ تھا، مغرب نے ناپسندیدگی سے دیکھا اور یہی وجہ ان کی اقتدار سے بے دخلی کا سبب بنی۔ تاہم عمران خان کی امریکہ سمیت دنیا بھر سے اچھے تعلقات کی بحالی کی خواہش کے سبب اس عرصے میں پی ٹی آئی نے اس الزام کو دہرانے سے گریز کیا۔ اگرچہ عمران خان کو وفاقی عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا تاہم پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ان کی پارٹی کی حکومت تھی آئندہ انتخابات کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے پی ٹی آئی اور مخلوط حکومت بنیادی طور پر بد عنوانیوں کے ضمن میں باقاعدگی سے ایک دوسرے پر تنقید کرتے رہے۔ گزشتہ سال اپریل اور نومبر کے درمیان عمران خان نے حقیقی آزادی اور قبل از وقت انتخابات کے حصول کے لیے اپنے لوگوں کو متحرک کیا۔ جس کا ثبوت ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی انتخابی فتوحات سے ملتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں ملکی سیاست میں فوج کے کردار کے حوالے سے تقطیب (پولرائزیشن) کی ایسی صورتحال کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی جو کہ محض عمران خان کی پیدا کردہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اب تاریخ دیئے جانے کے باوجود ملک میں کسی کو بھی یقین نہیں کہ یہ ضمنی انتخابات ہوں گے۔ سابقہ سال کی ایک اور اہم پیش رفت نئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کی تقرری تھی۔ مشکلات کے باوجود اب چیف آف آرمی سٹاف نے فوج کے بارے میں رائے عامہ بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ تحریکِ طالبان پاکستان اور افغانستان میں سرگرم دیگر دہشت گرد گروہوں کی جانب سے بڑھتے ہوئے سکیورٹی خطرات کا بھی قلع قمع کر دیا ہے۔ پیشہ ورانہ مہارتوں میں قابل فخر جنرل عاصم منیر کی تعیناتی سے توقع کے مطابق سول ملٹری عام شہری اور فوج کے مابین کشیدہ تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ اب عام آدمی یہ تسلیم کرنے لگا ہے کہ موجودہ فوجی قیادت کا موجودہ سیاسی بکھیڑوں میں کوئی اضافی کردار نہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اب فوج کے امیج کی تعمیرِ نو ممکن ہو گی۔ اگرچہ عمران خان واحد سیاسی لیڈر ہیں جو فوج کی غیر جانبداری برقرار رکھنے کی کوششوں سے مطمئن نہیں لیکن باشعور عوام جانتے ہیں کہ ان کا یہ استدلال محض اقتدار سے دوری کی بناء پر ہے۔ سنیارٹی کے اصول کے تحت جنرل عاصم منیر کی تقرری حکومت وقت کی نون لیگ کے اپنے پسندیدہ امیدوار کو ترجیح دینے کے سابقہ طریقہ کار کے بر عکس ہے۔ اس امر نے بھی ممکنہ طور پر سول ملٹری تعلقات میں ایک نئی روایت کو جنم دیا ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف نے عہدہ سنبھالنے کے دو دن بعد ایک نئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا تقرر بھی کیا جس سے ان کی فوج کے عوامی تاثر کی بحالی کے لیے ترجیح کا اظہار ہوا۔
موجودہ مخلوط حکومت کو اقتدار میں آتے ہی معیشت کو مستحکم کرنے کی ضرورت تھی۔قریباً آدھے سال تک مخلوط حکومت مالیاتی نادہندگی کے خدشے سے بال بال بچتی رہی۔ تاہم جولائی 2022 میں غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر مبینہ طور پر آٹھ اعشاریہ نو بلین امریکی ڈالرز تک گر چکے تھے۔ ایسی صورتحال میں آئی ایم ایف کی امداد کے بغیر حکومت معاشی نادہندگی کے دہانے تک پہنچ چکی تھی۔ حکومت کو مالی بحران سے نکلنے کے لیے مجبوراً آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی پر کام کرنا پڑا۔ اگرچہ پاکستان نے 2019 میں 29 ماہ کے عرصے میں 4 بلین ڈالرز کے معاہدے کے ساتھ آئی ایم ایف پروگرام میں شمولیت اختیار کی تھی، تاہم اسلام آباد کو عمران حکومت کے خاتمے تک محض نصف فنڈز ملے۔ اس کی وجہ سابقہ عمران حکومت کی پروگرام کے اہداف اور شرائط کو پورا کرنے میں ناکامی کی تاریخ ہے۔ مثلاً آئی ایم ایف نے گزشتہ سال فروری میں پاکستان کے لیے ایک بلین ڈالرز کی ادائیگی کی منظوری دی۔ اسی ماہ کے دوران سابق وزیرِاعظم خان نے عوام کے لیے امدادی اقدامات کے ضمن میں ایندھن کی قیمتوں کی حد (پرائس کیپ) مقرر کرنے کا اعلان کیا جو کہ پروگرام کے اہداف سے پیچھے ہٹنا تھا۔ اگرچہ افراطِ زر کی شرح ستّر سالہ ریکارڈ توڑتے ہوئے 14 فیصد تک پہنچ گئی۔ تاہم اگست میں ایک بلین ڈالرز کا بیل آؤٹ نادہندگی کے فوری خدشے کو دور کرنے میں کامیاب رہا۔ مگر پاکستان ابھی مکمل طور پر خطرے سے باہر نہیں نکلا۔ اس طرح کی مالیاتی غیر یقینی صورتحال میں ایک بات پھر بھی واضح ہے کہ افراطِ زر مزید بڑھے گا، جس سے شہریوں کے لئلیآسانی کے امکانات کم ہو جائیں گے۔ 2022 کے جولائی اور اگست میں آنے والے غیر معمولی سیلاب کی تباہ کاریوں نے بھی پاکستان کی پہلے سے ہی کمزور معیشت کو شدید دھچکا دیا۔ عالمی بینک کے مطابق سیلاب کی وجہ سے انفرا سٹرکچر کو ہونے والے نقصان اور اس کے نتیجے میں ہونے والا آمدنی کا خسارہ کُل ملا کر چالیس بلین ڈالرز ہے۔ مزید برآں پاکستان کی 45 فیصد زرعی زمین بارش کے پانی میں ڈوب گئی تھی۔ نقصان کا دائرہ صرف معاشی اثرات تک ہی محدود نہ تھا بلکہ جانوں کے ضیاع اور وسیع پیمانے پر نقل مکانی تک بھی پہنچا۔ یوں دہشت گرد حملوں کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی بھی ملک کی سلامتی کےلیے خطرے کا باعث بن رہی ہے اور اب اسے کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سیلاب سے ہونے والی تباہی نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کی بد حالی کو مزید اجاگر کیا اگرچہ عالمی قیادت نے موسمیاتی تبدیلی کے خطرے کو تسلیم کیا جیسا کہ این ایس پی میں دیکھا گیا، تاہم روایتی سکیورٹی خطرات کے مقابلے میں موسمیاتی تبدیلی کے خطرے کی حد اور پیمانے پر محدود اتفاق رائے نظر آتا ہے۔ اسلام آباد نے ہمیشہ کی طرح کافی نقصان کے بعد ہی بحران کی شدّت کا اعتراف کیا ہے۔ اب عذاب یہ ہے کہ سیاسی خلفشار اور معاشی عدم استحکام کا خوفناک انضمام ایک بڑے خطرے کا پتا دے رہا ہے۔
تازہ اطلاع یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے قرض معاہدہ بحالی کے لیے 30 جون تک پاکستان کے لیے فنانسنگ کرنے والے ممالک سے تحریری یقین دہانی کرانے کی شرط رکھ دی ہے، مالیاتی ادارے نے مطالبہ کیا ہے کہ سعودی عرب، قطر، یو اے ای میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر یقین دہانی کرائیں۔ دوسری طرف اس شرط پر پاکستان نے دوست ممالک سے فنانسنگ کے لیے تحریری یقین دہانی فراہم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور پاکستانی حکام جلد تحریری یقین دہانیاں حاصل کر لینے کے لیے پُرامید ہیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان آئی ایم ایف کی تمام پیشگی شرائط پر عملدرآمد کر چکا ہے، آخری شرط کمرشل بینکس سے براہ راست قرض نہ لینے کی تھی جس پر بھی پاکستان نے اتفاق کرلیا ہے۔ پاکستان ترمیم شدہ ایم ای ایف پی پر بھی مذاکرات مکمل کر چکا ہے، لہٰذا پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں سٹاف لیول معاہدے کی منظوری کا امکان ہے۔ اس سے قبل ذرائع وزارت خزانہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو گرین سگنل دے دیا ہے، اسی یا اگلے ہفتے سٹاف لیول معاہدہ ہوجائے گا، امید ہے سب معاملات حتمی شکل اختیار کر جائیں گے۔ سٹاف لیول معاہدے کے حوالے سے ذرائع نے بتایا تھا کہ دوست ممالک کی کوششوں سے رکاوٹیں دور ہوئی ہیں، پاکستان تمام پیشگی شرائط کے مشکل ترین فیصلے کر چکا ہے اور وزارت خزانہ اور دفترخارجہ کے امریکا اور دیگر ممالک سے رابطوں میں پیشرفت ہوئی ہے، ذرائع کے مطابق وزیر خارجہ اور وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کی مشکل شرائط پر دوست ممالک سے مدد کی درخواست کی تھی اور حالیہ مذاکرات کے دوران پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان چین سے 2 ارب ڈالر رول اوور کرنے پر بھی بات ہوئی اور چین کی طرف سے 80 کروڑ بھی جلد ملنے کی یقین دہانی کروائی گئی لیکن بدقسمتی کہ پاکستان کی جانب سے تمام تر کوششوں اور پیشگی اقدامات کے باوجود تاحال آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدہ نہیں ہوسکا۔ جس پر حکومت شدید نالاں دکھائی دے رہی ہے۔گزشتہ دنوں ذرائع وزارت خزانہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف شرائط منوا کر دوبارہ سٹاف لیول معاہدے میں بلاوجہ تاخیر کر رہا ہے۔ یہاں تک بھی شنید ہے کہ اسرائیل جیسے پاکستان کی ایٹمی قوت سے خوف زدہ ممالک اب ہماری معاشی مجبوریوں کے عوض ہمارے ایٹمی میزائلوں کے اہداف کی طوالت کو کم کرنے پر سودے بازی کی پیشکش کر رہے ہیں اور اس ضمن میں امن کے نام پر کسی نئے شرائط نامے پر دستخط کروانا چاہتے ہیں۔
پاکستان کو اپنے طویل المدتی استحکام کے لیے سیاست کے ساتھ ساتھ اپنے معاشی ماڈل کا بھی از سرِ نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مالیاتی اداروں پر انحصار کی جگہ برآمدات کے باعث ہونے والی ترقی کو لے لینی چاہیے۔ اس کے حصول کے لیے پاکستان کے معاشی نقطہ نظر کا دائرہ کار ٹیکنالوجی جیسے غیر روایتی شعبوں تک پھیلانا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button