ColumnNasir Sherazi

ایک نیا موڑ .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

لطیفہ تو آپ نے متعدد مرتبہ سن رکھا ہوگا لیکن آپ کو یہ یقیناً معلوم نہ ہوگا کہ یہ اُس زمانے کا ہے جب صرف مرد بدچلن ہوا کرتے تھے، ایک خوبرو خاتون میک اپ سے آراستہ پیراستہ، عالم بھرپور جوانی کا، پاکستان کے آئین کی باسٹھ تریسٹھ شق پر پورا اُترتی ہوئی، اتراتی ہوئی ایک دکان میں داخل ہوئی تو بدچلن دکاندار نے اُس پر پہلی نظر پڑتے ہی فیصلہ کرلیا کہ وہ اُسے خالی ہاتھ نہ جانے دے گا، رعایت تو معمولی بات ہے، اُس کی من پسند چیز بغیر کسی ضمانت کے اُسے آسان اقساط پر اور اگر خاتون اصرار کرے تو مفت بھی دے دے گا۔
لطیفے کو مختصر کرتے ہیں، اس کا اختتام یوں ہوتا ہے کہ خاتون ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اوردکاندار کی نیت کو بھانپتے ہوئے کہتی ہے کہ میں اس قیمت میں ایک نہیں دو لوں گی، میدان سیاست میں یہی منظر ہے، قاف لیگ پر دبائو اور نظریہ ضرورت کے تحت تحریک انصاف میں اس کا انضمام ہوچکا ہے، اب یہی فرمائش عوامی مسلم لیگ سے ہے، جس کی قومی اسمبلی میں ایک نشست ہے، کہ وہ بھی تحریک انصاف میں ضم ہوجائے، اصول یہ بیان کیا جارہا ہے کہ دس نشستوں والی جماعت اپنا وجود تحلیل کرکے ضم ہوسکتی ہے تو ایک نشست والی جماعت کیوں نہیں، شیخ رشید صاحب عمر کے اِس حصے میں ہیں جہاں جتنا بھی میک اپ کرلیں الڑ مٹیاروں جیسی گفتگو کرلیں نیلسن منڈیلا کا روپ اُدھار مانگیں یا چی گیورا سٹائل اپنائیں، حقیقت یہ ہے کہ وہ اور ان کی سیاست ڈھل چکی ہیں مگر وہ اِس عمر میں خواہش رکھتے ہیں کہ ایک کی قیمت میں انہیں دو چیزیں مل جائیں، وہ اپنا مطالبہ سامنے لے آئے ہیں کہ صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی توڑ کر اس کے انتخابات بھی کرائے جائیں، یہی مطالبہ عمران خان نے کردیا ہے۔
جیل بھرو تحریک کے ٹھنس ہونے پر غیبی مدد آئی ہے، اعلیٰ عدالت نے ایک خاص وقت کے اندر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کا حکم دیا ہے جس پر جیل بھرو تحریک ختم کرنے کا اعلان کرکے سُکھ کا سانس آیا، افسوس ، ملک بھر کےجیلیں بھرنے کی آرزو پوری نہ ہوئی۔ کئی سیاسی ہیروں کے خواب چکنا چور ہوگئے وہ تو اپنے اپنے رانجھن کی چُوری روٹی لیکر ان تک پہنچانے کے پروگراموں کو حتمی شکل دئیے بیٹھی تھیں، اس مقصد کے لیے نئے رنگین کرتے، لاچے، کھُسے اور پراندے خریدے جاچکے تھے کہ عدالت کے حکم پر سیاسی قیدیوں کی رہائی کا حکم آیا اور اُس پک نِک پر پانی پھر گیا۔
جماعت کے دو لیڈروں اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کی مشکل آسان ہووئی انہیں اور دیگر تراسی سیاسی کارکنوں کو رہا کردیاگیا ہے، شاہ محمود قریشی کی طویل سیاسی زندگی میں انہیں پہلی بار جیل جانے کا حکم ہوا، جو انہوں نے پورا کیا۔ اسد عمر بھی پہلی مرتبہ فرمائشی گرفتار ہوئے، خیال کیاجاتا ہے کہ ان دو رہنمائوں کو اس لیے گرفتاری پیش کرنے کا حکم دیاگیا تھا کہ وہ باہر رہ کر نہایت فعال کردار ادا کررہے ہیں اور میدان سیاست میں توجہ کا مرکز بن رہے تھے، پس فیصلہ ہوا کہ کم ازکم ایک ماہ کے لیے تو انہیں منظر سے ہٹایا جائے۔
ضرورت اِس امرکی تھی کہ وسیم اکرم پلس جناب عثمان بزدار کو گرفتاری کی سیاسی سعادت حاصل کرنے کا موقعہ دیا جاتا، جناب اسلم اقبال بھی اہم شخصیت ہیں، وہ وزارت اعلیٰ پنجاب کے امیدوار بھی تھے، ان کی گرفتاری سے جیل بھرو تحریک میں رنگ بھر جاتا اور خاص طور پر سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی گرفتاری پیش کرتے تو تحریک کے ساتھ جیل کی رونقوں میں اضافہ ہوجاتا۔ چودھری پرویز الٰہی مزاجِ گرفتاری نہیں رکھتے، جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا تو اُس زمانے میں وہ کچھ عرصہ گرفتار و نظر بند رہے، مگر جیل میں نہیں ، اپنے ہی گھر پر، عمران خان صاحب عرصہ دراز سے زخمی ہیں، ان کے ساتھ ظلم یہ ہوا کہ پہلے اقتدار گیا تو ان کا صرف دل زخمی تھا پھر ٹانگ بھی زخمی ہوگئی لیکن ان کے حوالے سے مثبت خبر یہ ہے کہ دل اور ٹانگ کے زخم ہرے ہونے کے باوجود کینسر ہسپتال کے ڈاکٹروں نے انہیں سفر کی اجازت دے دی ہے، انہوں نے الیکشن کا فیصلہ آنے کے بعد ٹانگ کی پٹی کھول کر اپنے ان مخالفین کا منہ بند کردیا ہے جو کہتے تھے کہ ایک ماہ کے اندر تو نئی ڈالی گئی چھت کا ڈالا گیا لینٹر کھل جاتا ہے ان کی ٹانگ کا پلستر نہیں کھل رہا، ان کے مخالفوں کو خبر ہو کہ وہ اب کھل کر کھیلنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ بذریعہ سڑک اسلام آباد جانے کا ارادہ رکھتے تھے تاکہ سٹاپ ٹو سٹاپ لوگوں سے پوچھتے جائیں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ انہیں بتایاگیا کہ روڈ ٹو اسلام آباد یوں تو بہت آرام دہ ہے لیکن کسی تخریبی کارروائی کے نتیجے میں انسان آخری آرام گاہ تک پہنچ سکتا ہے۔ ہوائی جہاز سے سفر کے حوالے سے انہیں ڈرایاگیا کہ جب آپ کا جہاز اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اترے گا تو آپ کے ساتھ ساتھیوں بلکہ درجنوں ساتھیوں کا سمندر نہ ہوگا پس جہاز کے ایئر پورٹ پر اترنے اور آپ کے باہر آنے کے ساتھ ہی آپ کو گرفتار کرکے بلوچستان پہنچادیا جائے گا، دونوں خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے سفر اسلام آباد کو محفوظ بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی، حکومتی اقدامات اور حکومتی وزرا کے بیانات سے لگتا ہے کہ سب مل کر صبح شام صرف خان کا ’’تراہ‘‘ نکالنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، خان کو گرفتار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر حقیقتاً انتخابات کرانے کا پروگرام ہے تو سرکارتاثر دینا چاہتی ہے کہ ہم مرزا یار کو گلی گلی پھرنے کی آزادی دی اب آگے اس کا مقصدر ’’گلیاں سنجیاں‘‘ ملیں نہ دو تہائی اکثریت، گذشتہ انتخابات میں میدان میں چار بڑی اور آٹھ چھوٹی پارٹیاں تھیں، اس مرتبہ تحریک انصاف اور پی ڈی ایم مدمقابل ہوں گی، ووٹ تقسیم نہیں ہوں گے، الیکشن شفاف ہوں گے، نتائج توقع کے خلاف ہوں گے، جنہیں مسترد کرکے کہا جائے گا کہ بھرپور دھاندلی کرکے ہمیں ہروایا گیا ہے یوں ایک نیا تماشا شروع ہونے کے امکانات واضح ہیں، مذاکرات شروع ہوں گے اور شکست خوردہ عناصر کی طرف سے فرمائش آئے گی کہ پہلے نہیں تو اب قومی اسمبلی توڑو اور ملک بھر میں عام انتخابات کرائو، ملکی اقتصادی صورتحال اوربڑھتے ہوئے انتشار کے باعث یہ ممکن نہ ہوگا، پس بہ امر مجبوری تمام چھوٹے چھوٹے تماشے ختم کرنے اور تمام تماش بینوں کو راہ راست پر لانے کے لیے سیاسی صُور پھونکا جائے گا جس کے بعد ہر طرف چین ہوگا، امن ہوگا، ملکی سلامتی کے لیے امن بہت ضروری ہے، ملک چین سے تعلقات میں ایک نیا موڑ آئے گا، جی سمجھئے میرے عزیز ہم وطنو! ایک نیا موڑ آسکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button