ColumnImtiaz Aasi

الیکشن سے فرار اور سپریم کورٹ کا فیصلہ .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

آمریت کے دور میں آئین سے انحراف کرکے مقررہ مدت میں انتخابات کو ایک طویل عرصے تک موخر کیا جاتا رہا ہے ۔جمہوری دور کی یہ پہلی مثال ہے کہ موجودہ حکومت نے آئین سے انحراف کرکے دو صوبوں میں ضمنی الیکشن نہ کرانے کی ہر ممکن کوشش کی جس کے بعد عدالت عظمیٰ کو نوے روز میں پنجاب اورخیبر پختونخوا میں الیکشن کرانے کے احکامات دینا پڑے ہیں۔پانچ رکنی بینچ میں تین جج صاحبان نے الیکشن کے حق اور دو نے خلاف فیصلہ دیا ۔
وہ دور بھی تھا جب سیاست دان عدلیہ کے فیصلوں کو من وعن تسلیم کرتے تھے ۔پھر وہ وقت بھی آیا جب سیاست دانوں نے عدلیہ پر دبائو ڈال کر اپنے حق میں فیصلے کرانے کی رسم ڈالی ۔پاناما کیس میں خریداری کی کوشش کئی گئی جس میں ناکامی کے بعد مانیٹرنگ جج کے گھر پر فائرنگ کرائی گئی تاکہ کسی طریقہ سے عدلیہ پر دبائو ڈال کر اپنے حق میں فیصلہ کرایا جا سکے ۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کے لیے ارکان میں پیسے تقسیم کئے گئے۔ چھانگا مانگا اورسندھ ہائوس میں ارکان کی منڈی لگانے کا سہرا پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتوں کے سر ہے۔ آج کل مسلم لیگ نون کی چیف آرگنائز مریم نوازاپنے وا لد کی روایات کوآگے بڑھا رہی ہیں۔ مسلم لیگ نون کی تاریخ اعلیٰ عدلیہ کی بے توقیری سے بھری پڑی ہے۔سجاد علی شاہ جیسے راست باز اور فقیر منش چیف جسٹس کے ساتھ ناروا سلوک لوگ ابھی بھولے نہیں تھے کہ اب جلسہ عام میں اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو تختہ مشق بنایا جا رہا ہے۔چار عشرے پہلے کی بات ہے مجھے ایک پولیس آفیسر کے ساتھ ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں جانا ہوا۔ مجسٹریٹ صاحب نے کوئی بات کی تو ہمیں ہسنی آگئی۔ مجسٹریٹ صاحب کہنے لگے تمہیں میں توہین عدالت کے جرم میں جیل بھیج دوں گا اب تو اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو ملازمت سے نکالنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ جب تک نواز شریف کی سزا ختم نہیں ہوگی اس وقت تک الیکشن نہیں ہوں گے ۔ پہلے بینچ کے دو معزز جج صاحبان پر اعتراض کیا گیا اور کچھ کو ملازمت سے ہاتھ دھونے کی نوید سنائی گئی۔ہمیں سمجھ نہیں آرہا ہے سیاست دان ملک اور عوام کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ مریم نواز کسی مخصوص ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں ملکی اداروں کو ہدف تنقید بنانا مسلم لیگ نون کی ترجیحات میں شامل ہے۔ پی ڈی ایم کی بڑی جماعتیں انتخابات سے راہ فرار اختیار کئے ہوئے ہیںانہیں اس بات کا پوری طرح اداراک ہے کہ عوام انہیں ووٹ نہیں دیں گے۔
الیکشن کمیشن کے بعد گورنروں کا الیکشن سے انکار تو سمجھ میں آتا ہے، صدر مملکت نے الیکشن کی تاریخ دی تو صدر کے آئینی اختیارات کو چیلنج کر دیا گیا۔ اب الیکشن کا معاملہ عدالت عظمیٰ کے روبرو زیرسماعت تھاتو معزز جج صاحبان کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا۔جن سیاست دانوں کا اوڑھنا بچھونا مال ودولت کا حصول ہو وہ لوگوں کے ضمیر خرید کر اپنے حق میں رائے عامہ کو ہموارکرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ہمیں یا د ہے ایک الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر غلام حسین کی جیت یقینی تھی نواز شریف کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے امیدوار راجا افضل کو بلابھیجا اور انہیں جہلم میں پاکستان ریلویز کے کئی ہزار ملازمین کے ووٹ خریدنے کی ذمہ داری دے دی جس میں وہ کامیاب ہو گئے۔جن سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی سیاست کا مقصد کرپشن، لوٹ مار اور دھاندلی ہو انہیں واقعی شکست دینا اتنا آسان نہیں ہوتا۔عمران خان نے کرپشن کے خلاف اپنے بیانیے سے عوام کے دلوں کوپھیردیا ہے۔عوام مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سے متنفر ہو چکے ہیں۔ جمہوری دور کا پہلا موقع ہے کہ ملک کی بارہ جماعتیں ایک طرف کھڑی ہیں اور تحریک انصاف تنہا ان کا مقابلہ کر رہی ہے۔نواز شریف اور ان کی جماعت کے لوگوں کی انت کوشش تھی کہ چیف جسٹس الیکشن کے مقدمہ کی سماعت کرنے سے انکار کر دیں ۔ملک وقوم کی خوش قسمتی ہے کہ ہماری عدلیہ اب بھی آزاد ہے ۔یہاں تو کسی کو کام کرنے نہیں دیا جاتا جب من پسند فیصلے کی امیدیں بر نہ لائیں تو ویڈیو اور آڈیو جاری کر دی جاتی ہیں۔سابق چیف جسٹس جناب آصف سعید خان کھوسہ نے سلسلین مافیا کا خطاب کچھ سوچ کر دیا ہوگا اب تو کام بہت آگے جا چکا ہے۔ کچھ شہریوں کی طرف سے مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لیے پٹشن دائر کر دی گئی ہیں ۔چھ عشروں سے زائد ہماری زندگی میں ایسا موڑ نہیں آیا جیسا کہ آج کل اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان پر بے جا تنقید کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ہمیں تو وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے اس بیان پر حیرت ہے کہ نواز شریف واپس آکر ملک کو بحرانوں سے نکالیں گے۔ بھلا کوئی رانا ثناء اللہ سے پوچھے نواز شریف کے پاس کون سا الہ دین کا چراغ ہے وہ آکر ملک اور عوام کو حالیہ بحرانوں سے نکالیںگے۔ نواز شریف کے چھوٹے بھائی وزیراعظم ہیں نواز شریف کے پاس ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کا کوئی نسخہ ہے تو وہ اپنے وزیراعظم بھائی کو بتا دیں تاکہ ہمارا ملک معاشی بحران سے نکل سکے۔ سپریم کورٹ سے مشاورت کے لیے وقت دینے کے باوجود مشاورت سے گریز سیاست دانوں کے ذاتی مفادات کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی رہنمائوں اسد عمر ، علی اعوان اور خرم نواز کے سپیکر کی طرف سے جاری ہونے والے معطلی کا نوٹیفکیشن معطل کر کے ضمنی الیکشن روک دیا ہے جس کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ پی ٹی آئی ارکان کو ایوان میں آنا پڑے گا ۔بہر کیف سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد حکومت کے لیے دوصوبوں میں ضمنی الیکشن کرانے سے فرار ممکن نہیں رہا ہے حکومت کو ہر صورت میں الیکشن کا انعقاد کرنا پڑے گا۔ سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلے نے آئین کی بالادستی پر مہر ثبت کر دی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button