CM RizwanColumn

ڈاکٹر آصف محمود جاہ .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

وطن عزیز کی محرومیوں اور کوتاہ سامانیوں کا سلسلہ بے حد طویل ہے لیکن ایک بات جو ازل سے باعث صد طمانیت اور امر شرف و فخر ہے کہ اس مملکت خدا داد کو شروع دن سے ہی لا تعداد ایسی ہستیوں اور شخصیات کو پیدا کرنے، پرورش کرنے اور اپنا مکین بنانے کا اعزاز حاصل ہوتا رہا کہ جن پر ملک کا ہر چھوٹا بڑا، عام، خاص اور ماضی، حال اور مستقبل ہمیشہ فخر کرتا رہے گا۔ ان قابل فخر شخصیات نے اپنے اپنے ادوار میں مختلف شعبہ جات میں اس قدر خلوص، رچاؤ اور جانفشانی سے کام کیا ہے کہ عوام الناس کے ساتھ ساتھ حکومتیں بھی معترف ہو گئیں۔ ایسے ہی چمکدار ہیروں میں سے ایک تابدار گوہر ڈاکٹر آصف محمود جاہ ہیں۔ محکمہ کسٹمز میں چیف کلکٹر ہیں لیکن سچی بات ہے کہ راشی اور بد عنوان نہیں، سادگی پسند، باعمل اور درویش منش ایسے کہ اکثر ان کے ذاتی بینک اکاؤنٹس خالی ہوتے ہیں۔ ہم نے زمانہ دیکھا ہے اور پاکستانی معاشرے کی ہر پرت کو بڑے غور سے الٹ، کھرچ کر مشاہدہ کیا ہے۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ سے بھی راقم الحروف کی متعدد ملاقاتیں ہیں۔ ان کی کتاب’’ اللہ، کعبہ اور بندہ‘‘ پر راقم نے ایک تبصرہ بھی لکھا ہے۔ ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ایسے سرکاری افسر بہت کم ملتے ہیں۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ ہر پہلو سے پرعزم اور قابل ستائش ہیں۔ کبھی بھی ان کی ترجیح ان کی اپنی ذات، اپنا خاندان نہیں رہے۔ ہمیشہ دکھی انسانیت کو ہی اپنا خاندان تصور کر کے کام کرتے ہیں اور دکھی، مصیبت زدہ اور مشکل میں پھنسے انسانوں کے چہروں کو مسکراتا دیکھ کر طمانیت محسوس کرتے ہیں۔ خیبر تا کراچی حتیٰ کہ بیرون پاکستان بھی وہ فلاحی خدمات مہیا کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں ترکی میں زلزلے سے تباہی آئی تو وہاں بھی بڑے پیمانے پر ترک بہن بھائیوں کی بحالی کے لیے کام کیا۔ اپنی دفتری چھٹیاں بھی اسی مشن میں لگا دیتے ہیں اور ہر ماہ کی جمع پونجی بھی۔ ان کے دوست، خیر خواہ اور اہل خیر ان کے اس خلوص اور جذبہ کو دیکھ کر ان کے ہر فلاحی کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور دنوں کا کام منٹوں میں اور کروڑوں کا کام صرف اعلان کرنے پر مکمل ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ سرگودھا میں پیدا ہوئے، والد صاحب کا دین کی طرف رجحان تھا۔ ٹاٹوں والے سکول میں پڑھے۔ پھر کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج یونیورسٹی تک پہنچے اور بہتر پوزیشن میں ڈگری حاصل کی۔ پہلی درسگاہ خالقیہ پرائمری سکول، پھر سرگودھا امبالہ مسلم ہائی سکول سے میٹرک کیا۔ ایف ایس سی کے لیے گورنمنٹ کالج سرگودھا میں داخلہ لیا، سرگودھا بورڈ میں دوسری پوزیشن تھی، پھر کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ ہوگیا، یہاں تھرڈ ائیر یا فورتھ ائیر میں تھے کہ خدمت خلق کا جذبہ پیدا ہوا۔ جو کسٹمز آفیسر بننے پر جوان ہوگیا۔ 1997ء کے آخر میں ٹرانسفر لاہور ہوگئی۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے بتایا کہ ان کے نمایاں امدادی کام کا آغاز لاہور میں 1998ء میں ایک مسجد کے ایک کمرے سے شروع ہوا، یہ ستلج بلاک علامہ اقبال ٹاؤن کی نورانی مسجد تھی۔ کہتے ہیں کہ میں مغرب کی نماز پڑھ کر مسجد کلینک آجاتا۔ ساتھ ساتھ لکھنے کا کام بھی جاری رہا۔ 1996ء میں دوسری کتاب ’ہیلتھ کئیر‘ کے عنوان سے آئی۔ پھر ایک کورس کے سلسلے میں جاپان جانے کا اتفاق ہوا۔ جاپان کے سفر پر کتاب 1998ء میں’سورج دیوتا کے دیس میں‘ کے عنوان سے چھپی، پھر تین سال ائیرپورٹ پر پوسٹنگ رہی، وہاں بڑے سمگلروں کا مقابلہ کیا، بہت چوری ہوتی تھی، وہ روکی، بڑے بڑے کیسز پکڑے، ایک بار 25 کلو سونا پکڑا۔ ساتھ ساتھ کلینک کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ 2000ء میں میری پوسٹنگ ڈرائی پورٹ ہوگئی‘‘۔
کہتے ہیں کہ اس کے بعد سفر نہیں رکا، 2008ء تک ہم کشمیر میں آتے جاتے رہے، متاثرین کے علاج، پھر ان کی بحالی کے لیے کافی کام کیا۔ پھر زیارت میں زلزلہ آیا، ہم وہاں پہنچ گئے، ہم نے انہیں سب سے پہلے 50 سے زائد سٹیل کے گھر بنا کر دیے۔2005ء کے زلزلہ پر کتاب’’ زلزلہ، زخم اور زندگی‘‘ اس طرح کی مہمات میں ہماری ٹیم بنتی گئی۔ شروع میں ٹیم لاہور کی سطح تک تھی، اس کے بعد ہمیں دیگر علاقوں سے ساتھی ملنا شروع ہوگئے۔ لوگوں کو پتا چلنا شروع ہوگیا، خدمت کا کام بھی وسیع ہو گیا۔ 2006ء میں پہلے ایک کمرے کا کلینک تھا، پھر ہمیں ایک گھر مل گیا جہاں کلینک چلنے لگا۔ 2009ء میں سوات کا بحران سامنے آیا، وہاں سے لوگ آنا شروع ہوگئے، مئی کا مہینہ تھا، تیس لاکھ مہاجرین مردان، صوابی، کاٹلنگ کے علاقوں میں آگئے۔ ہم اپنی ٹیم کے ساتھ کئی ٹرکوں میں سامان بھر کے مردان پہنچ گئے۔ وہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ حاملہ خواتین تھیں، ان کے لیے میٹرنٹی کا کوئی انتظام نہ تھا۔ ہم نے مردان کے نزدیک ایک مقام پر ایک مکمل میٹرنٹی ہوم قائم کیا، وہاں پہلا بچہ جو پیدا ہوا، اس کا نام ’آصف خان‘ رکھا گیا۔ اس وقت اقوام متحدہ کی رپورٹس آتی تھیں کہ اس بحران سے پاکستان کی معیشت تباہ ہو جائے گی۔ آئی ڈی پیز آئیں گے تو واپس نہیں جائیں گے۔ مگر وہ لوگ مئی میں آئے اور جولائی میں واپس چلے گئے۔ اس پر میری کتاب ’’سوات، ہجرت اور خدمت‘‘کے عنوان سے آئی۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے بتایا کہ ‘جہاں ہماری خدمات کے مراکز بنتے ہیں، پھر وہ چلتے ہی رہتے ہیں۔ 2015ء میں چترال میں سیلاب آیا۔ وہاں وادی کیلاش، بمبوریت میں ساری سڑک ٹوٹی ہوئی تھی، ہم نے پیدل سفر کیا، گدھوں پر سامان رکھا ہوا تھا، ہم تھک گئے تو دس، بیس کلومیٹر گدھے پر سواری کی، وادی کیلاش میں ہم نے بہت کام کیا۔ وہاں کے کافروں کو ہم نے گھر بنا کر دیے۔ ہم نے بمبوریت میں ایک بڑی خوب صورت مسجد بنائی۔ اس کے بعد ایک دوسری مسجد اور ایک کمیونٹی سنٹر بھی بن گیا۔ اب وادی چترال میں ہمارے چھ کلینکس ہیں۔ رمضان المبارک اور عیدین پر ہماری باقاعدہ ریلیف سرگرمیاں چل رہی ہیں۔ بڑی عید پر ہر گاؤں میں قربانیاں ہوتی ہیں۔ ہم جہاں بھی گئے تو ہم نے بلا تخصیص رنگ ونسل و مذہب سب کے لیے کام کیا۔ ہم گرجوں میں بھی پہنچے اور عیسائیوں کو بھی امداد فراہم کی، انہیں سامان پہنچایا۔ جب 2013ء میں بلوچستان کے علاقے آواران میں زلزلہ آیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں علیحدگی پسندوں کی اکثریت تھی۔ میرے ساتھیوں نے مجھے کہا کہ آپ آواران نہ جائیں۔ انہی دنوں ایک میجر جنرل کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ بھی ہوئی تھی،بہرحال میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ وہاں پہنچا، ہم ایک مسجد میں رہے۔ وہاں غربت کی انتہا تھی، سڑک ٹوٹی ہوئی تھی، ہمیں پچاس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں چھ گھنٹے لگے۔ زلزلے سے گھر اور مساجد سب ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ان کے گھر بنائیں گے۔ ہم نے لوگوں کے تعاون سے پختہ گھر بناکر دیے۔ ہمارا وہاں کے لوگوں سے ایسا تعلق قائم ہوا کہ گاؤں کے لوگ ہمیں کھانا دیتے تھے حالانکہ پہلے وہ پنجابیوں کا نام بھی نہیں سننا پسند کرتے تھے۔ ہر گھرانے کی خواہش ہوتی کہ کھانا ان کے ہاں سے آئے۔ ہم نے پچاس، ساٹھ گھر بنا کر دیے، جب ہم وہاں سے رخصت ہوئے تو گاؤں کے لوگ رو رہے تھے۔انہوں نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے، حالانکہ اس سے پہلے یہاں علیحدگی پسندوں نے دیواروں پر پاکستان مخالف نعرے لکھ رکھے تھے اور یہاں چودہ اگست اور یوم قائداعظم بلیک ڈے کے طورپر منایاجاتا تھا جبکہ سکول میں بلوچستان کی آزادی کا ترانہ پڑھا جاتا تھا۔ اسی طرح جب 2014ء میں تھر میں بچوں کی ہلاکتوں کی خبریں آنا شروع ہوگئیں تو ہم اپنی پوری ٹیم کے ساتھ وہاں ہرنگر اور ہرگوٹھ گئے۔ اب تک ہم وہاں میٹھے پانی کے 700 کے قریب کنویں کھدوا چکے ہیں۔ پہلے ہم مینوئلی آپریٹیڈ کنویں بناتے تھے، پھر ہم نے سولر پینلز لگانے شروع کردیے، ہم نے تھر کے لوگوں کو میٹھا اور صاف پانی فراہم کیا، ہم تھر کو سر سبز و شاداب بنانے کے مشن پر گامزن ہیں‘‘۔ ‘2016ء کے آخر میں ہمارے ایک دوست ترکی سے آئے، انہوں نے کہا کہ شام کے مسلمانوں کا بہت برا حال ہے، چنانچہ میں ترکی گیا، وہاں کے لوگوں کی حالت زار دیکھی، وہاں ’عرفہ‘ جانا ہوا،کیمپوں میں گئے، ترکی والوں کا کمال ہے کہ انہوں نے شامی مہاجرین کو اپنا شہری بناکر رکھا ہوا تھا۔ وہ انہیں ہر طرح کی سہولت دیتے تھے۔ ہم نے بھی ان کے لیے کام کیا۔ ہمیں شامی مہاجرین کے لیے بھی لوگوں کی طرف سے کافی امداد اور عطیات ملے، کافی سامان کنٹینروں میں بھر کے بھیجا‘‘۔ کہتے ہیں کہ2010 کے بعد جب بھی کوئی ڈیزاسٹر آتا تو لوگ پوچھنا شروع ہو جاتے کہ آپ نے ابھی تک کام کیوں نہیں شروع کیا، اب ہماری ٹیمیں باقاعدہ تشکیل پاچکی ہیں۔کہتے ہیں کہ 2005ء کے زلزلے کے وقت میرے بچے بہت چھوٹے تھے، ان سارے فلاحی کاموں میں میری اہلیہ کا کردار بہت مثالی رہا ہے۔ بچوں کو بھی میں ساتھ لے کر آزاد کشمیر گیا، میں نے انہیں آفت زدہ لوگوں کی زندگی دکھائی۔ اس وقت پورے ملک میں 36 ڈسپنسریاں خدمات فراہم کررہی ہیں، کمیونٹی سنٹرز کے علاوہ 10سکولز بھی ہیں۔خواتین کے لیے ’اپنا روزگار‘ سکیم بھی شروع کردی ہے، انہیں کڑھائی سلائی سکھاتے ہیں، جب وہ سیکھ جائیں تو ہم انہیں سلائی مشین فراہم کر دیتے ہیں۔ ہم نے ’تھرگرین‘ کے نام سے ایک مہم شروع کر رکھی ہے۔ اب وہاں قریباً 30 فارم بن چکے ہیں، 70 ایکڑ اراضی پر فصل کاشت ہو رہی ہے۔ سبزیاں اور گندم کاشت ہوتی ہے۔ مزید 10، 12 ایکڑ اراضی کو سرسبز و شاداب بنانے پر کام جاری ہے۔
رسول اکرم ﷺ کی ذات اقدس کو اپنی انسپائریشن قرار دینے والے ڈاکٹر آصف محمود جاہ کے والد صاحب ٹیچر تھے، والدین حیات ہیں، آٹھ بہن بھائی ہیں، ایک بھائی ڈاکٹر، دوسرا پروفیسر، ایک بھائی پرائیویٹ جاب کرتے ہیں، ایک کا اپنا بزنس ہے، تین بہنیں ہیں، جن میں سے ایک ٹیچر ہیں۔ ڈاکٹر آصف مجموعی طور پر 26 کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی سرکاری ملازمت ان کی رفاہی سرگرمیوں پر اثرانداز نہ ہو، چنانچہ وہ صبح 9 سے شام 5 بجے تک مکمل طور پر کسٹم افسر ہوتے ہیں اور اس کے بعد ڈاکٹر۔ حکومت پاکستان نے 2016ء میں ستارہ امتیاز اور 2020ء میں انہیں ہلال امتیاز سے نوازا۔ یہ سب سے بڑا سول اعزاز ہے۔ ایک سرکاری افسر کے لیے سماجی خدمات پر یہ اعزاز ثابت کرتے ہیں کہ وہ ایک مثالی خدمت گار ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button