Columnمحمد مبشر انوار

عدالتی سہارا .. مبشر انوار

مبشر انوار

 

بالعموم قومیں اپنی بیدار مغز قیادتوں کی رہنمائی میں دن دُگنی رات چوگنی ترقی کرتی دکھائی دیتی ہیں اور اقوام عالم میں ہمہ جہت اپنا مقام بناتی نظر آتی ہیں کہ بیدار مغز قیادتوں کی توجہ ہمہ جہتی پر رہتی ہے۔ ملک و قوم سے مخلص، ملکی مفادات کو ترجیح دینےوالی قیادتوں میں یہ وصف قدرتی موجود ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ ذاتی و گروہی مفادات کو پس پشت رکھتے ہیں، ان کی نظروں کےسامنے فقط ملک و قوم کا وقار اور ترقی رہتے ہیں، لہٰذا ذاتی مفادات ہمیشہ ثانوی حیثیت رکھتے بلکہ اکثر و اوقات ذاتی مفادات کےٹکراؤ کی صورت میں ذاتی مفادات کو وسیع تر قومی مفادات کی خاطر قربان کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں معاملات اس کے برعکس ہیں کہ بابائے قوم نے ایک قوم بنا کر بیک وقت انگریز اور مہار بنیئے سے آزادی حاصل کی اور ابتدائی دور میں، قوم کا ثبوت دیتے ہوئے،ملکی مفادات کو سامنے رکھا گیا اور انتہائی نا مساعد حالات کے باوجود پاکستان کی ترقی پر اقوام عالم انگشت بدنداں اور ششدرتھی کہ اگر اس قوم کو مناسب حالات و رہنمائی میسر رہی تو یہ قوم بہت جلد اقوام عالم میں اپنا مقام بنا لے گی۔ اس ملک و قوم کی بدقسمتی کہ ابتدائی چند سالوں میں جہاں ایک طرف ملک صنعتی حوالے سے ترقی کر رہا تھا وہیں دوسری طرف اس کے دونوںبازوؤں میں دانستہ یا نادانستہ دوریاں بڑھائی جا رہی تھیں، صنعتی ترقی کو چند خاندانوں تک محدود رکھا جا رہا تھا، صنعتی ترقی کے نام پر مراعات یافتہ طبقے کو پروان چڑھایا جا رہا تھا، مزدور، محنت کش کا استحصال ہو رہا تھا۔ بات یہیں تک محدود رہتی تو توقع تھی کہ حالات سدھرنے پر محنت کش و مزدور کو اس کا حصہ مل جاتا، اس کا استحصال ختم ہو جاتا لیکن فرد واحد کی حاکمیت میں ایسا ہوتا نظر نہیں آتا تھا کہ جمہوری اقدار پر قائم ہونے والی ریاست میں فرد واحد کا اقتدار جمہوری اصولوں کی نفی تھی تو دوسری طرف جمہوری قوتوں کی جدوجہد بھی بادی النظر میں ہوس اقتدار ہی دکھائی دیتی تھی کہ مشرقی بازو میںاحساس کمتری اپنے عروج پر نظر آتی تھی تو مغربی پاکستان میں احساس برتری و تفاخر و تکبر کی جھلک نمایاں تھی۔
یوں کہا جائے کہ تب کی قد آور سیاسی شخصیات بھی حالات کو سمجھتے بوجھتے ہوئے بھی ذاتیات سے اوپر اٹھنے کے لیے تیارنہیں تھیں تو دوسری طرف پس پردہ سجایا گیا سٹیج، پاکستان کو دولخت کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے لیے بروئے کار تھا۔ایسا نہیں تھا کہ معاملات سنبھالے نہیں جا سکتے تھے لیکن اس کے لیے ذاتیات سے اوپر اٹھنے کی ضرورت تھی، جس کے لیے بھٹوبوجوہ تیار نظر نہیں آئے، آج ان کے متعلق جو بھی کہا جائے لیکن پس پردہ حالات اور جمہوری اقدار سے انکار کرتے ہوئے بھٹو نےشیخ مجیب کی اکثریت کو تسلیم نہیں کیا اور مخالفین کے بچھائے ہوئے جال میں گھر گئے۔ بعد ازاں دیکھا جائے تو پاکستان میںسیاسی سرگرمیاں بہت حد تک تیسری طاقت کے زیر اثر نظر آتی ہیں اور پاکستانی سیاسی افق پر ابھرنے والی سیاسی قیادتوں میںسیاسی پختگی اور سنجیدگی کا شدید بحران نظر آتا ہے بلکہ اگر کہا جائے کہ ہم بدقسمتی سے قحط الرجال کا شکار ہیں، تو بے جانہ ہو گا کہ ہماری سیاسی قیادتیں، سیاسی عمل میں ذاتی ضد وانا کا شکار نظر آتے ہیں جبکہ بظاہر پس پردہ طاقت لیکن اب ساری دنیا کے سامنے آشکار تیسری طاقت کا اس روئیے کا اظہار ملکی سیاست میں بخوبی نظر آ رہا ہے کہ خصوصی سیاسی نرسری میں پروان چڑھنے والی سیاسی قیادت میں احساس برتری و آمریت کی جھلک واضح نظر آتی ہے، اصولوں کو تسلیم کرنے کی بجائےمحاذ آرائی( میاں نواز شریف ایک زمانے میں ببانگ دہل اس کا اعتراف کرتے رہے جبکہ ان کی دختر مریم نواز اس وقت اس روش پر رواں دواں نظر آتی ہیں) کرتے ہوئے سیاسی افق میں ہیجان و عدم استحکام قائم رکھا جاتا ہے، تا کہ اپنے مقاصد حاصل کئے جاسکیں۔
پارلیمانی طرز حکومت کے مسلمہ اصول دنیا بھر میں رائج ہیں جبکہ یہی پارلیمانی طرز حکومت و سیاست پاکستان میں بھی نافذالعمل ہے لیکن دنیا کے برعکس کہ دنیا ان مسلمہ اصولوں پر عمل پیرا ہو کر اپنی سیاست اور سیاستدانوں میں پختگی وسنجیدگی حاصل کر چکی ہے اور سیاسی قیادتیں باہم مل کر معاملات طے کر لیتی ہیں جبکہ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ دن بدن تنزلی کی جانب گامزن ہے کہ سیاسی اشرافیہ ان مسلمہ اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے قاصر ہے۔ ایسے ایسے سوالات اٹھائے جا رہےہیں کہ جن کے متعلق پارلیمانی طرز سیاست؍حکومت میں سوچنا ایک طفلانہ عمل دکھائی دے لیکن پاکستان میں ایسے معاملات پر عمل کرنے کی بجائے قانونی موشگافیوں کو تلاش کر کے، ذاتی مفادات کے حصول و ضد و انا کی تسکین کا سامان کیا جا رہا ہے۔
سیاسی بلوغت و پختگی کا اندازہ صرف اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پارلیمانی طرز حکومت میں دنیا بھر میں قبل از وقت انتخاب،عوامی رائے کے لیے اسمبلیوں کو تحلیل کیا جا سکتا ہے، اس کے پس منظر میں خواہ کوئی سے بھی عوامل ہوں، لیکن اس کا اختیارآئین وزیر اعلی و وزیر اعظم کو تفویض کرتا ہے لیکن ذاتی وقتی مفادات کے حصول میں اس آئینی حق کو عدالتوں کے سامنے رکھ دیاگیا ہے کہ اس کی مناسب تشریح کی جائے۔ عدالت کے سامنے ایسے آئینی سوالات رکھنے سے صرف موجودہ مخالفین کے اختیارات ہے نہیں بلکہ کل کو آپ کے اختیارات پر بھی قدغن لگ سکتی ہے بشرطیکہ عدالتیں نظریہ ضرورت و حالات واقعات سے متاثر ہوئے بغیرآئین کی روح کے مطابق فیصلہ صادر کریں کہ کسی بھی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا آئینی اختیار صرف وزیر اعلیٰ و وزیر اعظم کوحاصل ہے لیکن اگر سیاسی افق پر چھائی گرد کو مد نظر رکھیں تو عین ممکن ہے کہ آج عدالتیں وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کے اختیارکو مخصوص پس منظر میں محدود کر دیں جبکہ آنے والے کل میں عدالتیں اپنے فیصلے سے رجوع کر لیں جیسا ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ یہاں یہ امر بھی برمحل نظر آتا ہے اور قرین قیاس بھی ہے کہ ملک کو بہر طور جمہوری و پارلیمانی طرز پر چلانے کی کوششیں ہی ہوں لیکن اس قیاس یا گمان کو کسی طور ہضم کرنا ممکن نظر نہیں آتا کہ پارلیمانی طرز سیاست و حکومت کو چلانے کے لیے جس بردباری، رواداری و سیاسی بلوغت کی ضرورت ہے وہ موجودہ سیاسی اشرافیہ میں نظر نہیں آتی اور نہ ہی پس پردہ قوتوں کی یہ ترجیح دکھائی دیتی ہے البتہ نظام اور نظام چلانے والوں کی طنابیں بہرحال کہیں اور ہی دکھائی دیتی ہیںاس وقت آئینی اختیارات وآئینی موشگافیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ، عدالت عظمی کے معزز جج صاحبان جو سوالات اٹھا رہے ہیں، جو ریمارکس دے رہے ہیں،اس کا مقاصد بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ عدالت موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، پارلیمانی طرز سیاست و حکومت کے اصول طے کر دے لیکن اگر اس مفروضے کو سامنے رکھا جائے تو کیا یہ ممکن ہے کہ موجودہ حالات اور سیاسی اشرافیہ کی سنجیدگی وبلوغت کے باوجود واضح طور پر گرتے ہوئے اس نظام کو عدالتی سہارا مضبوط کر پائے گا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button