Ahmad NaveedColumn

زمیں ایسی نہ تھی! .. احمد نوید

احمد نوید

 

امریکہ میں آباد پاکستانیوں کی پہلی کھیپ موجود ہے، پاکستان سے 1873سے 1917کے درمیان امریکہ پہنچ کر آباد ہوئی ۔ دوسری کھیپ برطانوی سلطنت کے خاتمے کے بعد جب پاکستان بنا تو اُس وقت امریکہ پہنچی ، کیونکہ 1947کے بعد امریکہ نے جنوبی ایشیائی ریاستوں کے لیے امیگریشن کوٹہ کھول دیا تھا۔کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ 1965میں امریکی امیگریشن ایکٹ نے ایک نئی امیگریشن سکیم متعارف کروائی، جس سے ہزاروں پاکستانی مستفید ہوئے اور امریکہ میں آباد ہو گئے ۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ پہنچنے والوں میں ڈاکٹرز ، انجینئرز اور دیگر پیشہ ور افراد کی تعداد زیادہ تھی۔ اس وقت امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی زیادہ تر نیو یارک سٹی، واشنگٹن ڈی سی ، ہیوسٹن ، شکاگو ، لاس اینجلس ، سان فرانسکو میں آباد اور رہائش پزیر ہے ۔
تعلیم کے لحاظ سے، 55 فیصد پاکستانی نژاد امریکی انڈرگریجویٹ یا ماسٹر ڈگری رکھتے ہیںجبکہ 80 فیصد سے زیادہ پاکستانی نژاد امریکی گھر پر انگریزی نہیں بولتے اور 12 فیصد پاکستانی کمیونٹی سابقہ دولت مشترکہ کا علاقہ ہونے کے باوجود لسانی تنہائی کا شکار ہے۔2007 سے 2009 تک پاکستانی امریکیوں کی فی کس آمدنی 24,663 امریکی ڈالر تھی۔ پاکستانی تارکین وطن میں غربت کی شرح 15 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ امریکہ میں رہنے والے 8 فیصد پاکستانی، جن کی عمریں 16 سال یا اس سے زیادہ ہیں، بے روزگار ہیں۔ 5 5 فیصد پاکستانی امریکی کرائے پر رہتے ہیں جبکہ 14 فیصد بڑے گھرانوں میں رہتے ہیں۔
ا یک رپورٹ کے مطابق ایشیائی امریکیوں کو امریکہ میں سب سے زیادہ بااثر، اعلیٰ تعلیم یافتہ، اعلیٰ تنخواہوں پر کام کرنے والے اور تیزی سے ترقی کرنے والی نسلی برادری سمجھا جاتا ہے۔ اسی رپورٹ نے یہ بھی اشارہ کیا کہ وہ معیشت اور اپنے مالی معاملات کے حوالے سے زیادہ مطمئن ہیں اور کیریئر، کامیابی، محنت، اور کامیاب شادی شدہ زندگی پر زیادہ زور دیتے ہیں۔حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، ایشیائی نئے تارکین وطن کے سب سے بڑے گروپ کے طور پر ہسپانویوں کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں اور ان کا تعلیمی پس منظر شاندار ہے۔ نئے آنے والوں میں سے قریباً 61 فیصد کے پاس انڈر گریجویٹ ڈگری ہے جو کہ غیر ایشیائی تارکین وطن میں تعلیم کا تقریباً دگنا ہے اور پاکستانی بھی ان میںشامل ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت امریکہ دس لاکھ پاکستانیوں کا گھر ہے ۔ اِن دس لاکھ پاکستانیوں کے سر اُس وقت شرم سے جھک جاتے ہیں، جب امریکہ میں آباد پاکستانی جرم کا مرتکب ہوتاہے ۔ گذشتہ دنوں انٹرنیشنل میڈیا پر ایک پاکستانی فیملی کے جرم کی داستان نمودار ہوئی تو بے حد افسوس ہوا۔ اس افسوسناک واقعے کا شکار ایک پاکستانی خاتون تھی، جو 2002میں بیاہ کر امریکہ پہنچی تھی اور اُس بیچاری کو غالباً اندازہ نہیں تھا کہ وہاں اُس کے ساتھ کیا ہوگا۔
امریکی اخبار کے مطابق امریکہ کی ایک عدالت نے ایک ہی خاندان کے تین افراد کو اُس پاکستانی خاتون سے 12 سال تک جبری مشقت کروانے کے جرم میں قید کی سزائیں سنائی ہیں۔ امریکی محکمہ انصاف کے ایک اعلامیے کے مطابق 80 سالہ زاہدہ امان نے اُس خاتون سے اپنے بیٹے کی شادی 2002 میں کروائی مگر جب خاتون کے شوہر گھر سے چلی گئی، تب بھی ان کے خاندان نے اُس پاکستانی خاتون کو ورجینیا میں گھر پر رکھا اور خاندان کے دیگر افراد کی خدمت کروائی۔ محکمہ انصاف کے مطابق جبری مشقت کا یہ سلسلہ اگلے 12 برس تک جاری رہا اور چونکہ مذکورہ خاتون کے پاس امریکہ میں عارضی رہائش کا اجازت نامہ تھا، اس لیے اُنھیں ڈی پورٹ کروانے کی دھمکی بھی دی جاتی رہی۔
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کرسٹین کلارک نے کہا کہ ’ملزمان نے متاثرہ فریق کی کمزوریوں کا بھرپور استحصال کیا اور جسمانی و جذباتی تشدد کے ذریعے ان سے ظالمانہ طور پر مشقت کروائی۔اس مقدمے کا ٹرائل مئی 2022 میں سات روز تک جاری رہا تھا۔ جیوری کی جانب سے ملزمان کو قصوروار ٹھہرائے جانے کے بعد زاہدہ امان کو 12 سال، اور ان کے بیٹوں 48 سالہ محمد ریحان چودھری اور 55 سالہ محمد نعمان چودھری کو بالترتیب دس سال اور5 سال کی قید کی سزا سنائی گئی ۔محکمہ انصاف کے مطابق مجرمان کو یہ سزائیں وفاقی جیلوں میں کاٹنی ہوں گی۔ اس کے علاوہ عدالت نے زاہدہ امان اور ریحان چودھری کو حکم دیا ہے کہ وہ متاثرہ خاتون کو ڈھائی لاکھ ڈالر کا ہرجانہ بھی ادا کریں۔
عدالت میں پیش کیے گئے ثبوتوں کے مطابق ملزمان نے خاتون سے گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کروایا، ان پر جسمانی اور زبانی تشدد کیا اور اُنھیں پاکستان میں اپنے خاندان سے بات کرنے سے روکا۔ ملزمان نے ان کی امیگریشن دستاویزات اور پیسے بھی ہتھیا لیے اور دھمکی دی کہ اُنھیں پاکستان ڈی پورٹ کروا کر اُنھیں ان کے بچوں سے جدا کر دیا جائے گا۔ملزمان نے خاتون کو وقتاً فوقتاً تھپڑ اور لاتیں رسید کیں، دھکے دیے، لکڑی کے تختے سے پیٹا اور ایک موقع پر اُن کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اُنھیں ان کے بچوں کے سامنے سیڑھیوں سے نیچے گھسیٹا۔ یہ سب اس لیے کیا گیا تاکہ متاثرہ خاتون ملزمان کے گھر میں ملازمت کرنے پر مجبور رہے۔
عدالت میںیہ ثبوت بھی پیش کیے گئے کہ یہ افراد خاتون سے روز کام کرواتے ،جس کی شروعات صبح سویرے ہو جاتی۔ ان کے کھانے پینے پر، ڈرائیونگ سیکھنے پر اور گھر کے لوگوں کے علاوہ کسی اور سے بات کرنے پر پابندی تھی۔محکمہ انصاف کے مطابق خاتون سے بے انتہا مشقت طلب کام کروائے گئے ،جن میں ایک ایکڑ پر مبنی باغ کی گھاس تراشنا، قالینوں کو ہاتھ سے دھونا اور سکھانا، دو منزلہ گھر کو اندر و باہر سے پینٹ کرنا، گاڑی کے قالین سے چمٹے کے ذریعے کچرا چننا اور گھر کے سامنے کنکریٹ کی ایک راہداری بنانا شامل ہے ،جس کے لیے خاتون کو 80 پاؤنڈ وزنی کنکریٹ کے تھیلے گھسیٹنے پڑے، جس کے بعد وہ انھیں مکس کر کے سیمنٹ بچھاتیں۔
ایف بی آئی کے رچمنڈ فیلڈ آفس میں سپیشل ایجنٹ انچارج سٹینلے ایم میڈور نے عوام سے کہا کہ اگر اُنھیں ایسے کسی بھی استحصال کے بارے میں علم ہے یا شک ہے تو وہ فوراً حکام کو اس کی اطلاع دیں۔ وکیلِ استغاثہ جیسیکا ڈی ایبر نے ملزمان کو قصوروار پائے جانے کے موقع پر جبری مشقت کو ’دورِ جدید کی غلامی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی امریکہ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
اس افسوسناک واقعے کے بعد وہ پاکستانی جو اپنے بچوں کی امریکہ میں شادیاں کرتے ہیں، اُنہیں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے اور خاص طور پر اُس وقت جب وہ بیٹی کو بیاہ کر امریکہ بھیج رہے ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ خاندان جو اُن کی بیٹی کو شادی کے بعد امریکہ لے جارہے ہیں، وہ نفسیاتی طور پر شدید نوعیت کے امراض کا شکار ہوں۔ جیسا کہ یہ خاندان تھا ۔
زندگی بے سائباں بے گھر کہیں ایسی نہ تھی
آسماں ایسا نہیں تھا اور زمیں ایسی نہ تھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button