وزیراعظم صاحب! صرف اِتنا کافی نہیں! .. محمد انور گریوال
چارپائی کے پائے شوخ رنگوں سے مزیّن تھے، خوبصورت بان سے اُس کی بُنتی ہوئی تھی، سندھ کے روایتی رنگوں میں گُندھا سرہانا رکھا تھا، پائنتی پر ثقافت کی عکاس چادر بچھی تھی۔ چارپائی کے سامنے ایک چھوٹا سا نہایت نفیس میز رکھا گیا تھا۔ یہ نئی نویلی چارپائی سرسبز کھیتوں میں رکھی گئی تھی، تاحدّ ِ نگاہ سبزہ دکھائی دیتا تھا۔ اندرونِ سندھ کے کسی مقام کا یہ منظر دلکش بھی تھا اور پُر کشش بھی۔ یہ بالکل نیا تخیل تھا جو کسی حکومتی مشیر نے اپنے وزیراعظم کے لیے پیش کیا تھا، اور جس پر عمل کرتے ہوئے میاں نواز شریف چارپائی پر تشریف رکھتے تھے۔ یہ ذکر ہے گزشتہ صدی کے اختتام پذیر ہونے سے دو ایک برس قبل کا۔ میاں نواز شریف نے الیکشن میں ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ حاصل کیا تھا، وہ خود مرکز میں وزیراعظم تھے تو اُن کے برادرِ خورد میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ۔ صدر کے لیے انہوں نے اپنے دیرینہ بزرگ رفیق ، رفیق تارڑ کا انتخاب کیا تھا، ہر طرف اپنی حکومت تھی، مقبولیت کے چرچے چار سو پھیل چکے تھے۔
یہ دلکش دیہاتی منظر صرف تصویر کشی کے لیے تیار نہیں کیا گیا تھا، بلکہ یہاں انفرادیت یہ قائم کی گئی کہ میاں صاحب نے قوم سے نشری خطاب فرمایا۔ باقی سب کچھ کے علاوہ میاں صاحب نے ملک کی حالت سنوارنے کے لیے انقلابی اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے قوم کے جذبات کے عین مطابق، عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے ایسی تقریر کی کہ مخالف بھی تعریف کئے بِنا نہ رہ سکے، یا کم از کم مخالفین کو خاموشی میں ہی عافیت دکھائی دی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ بڑے شہروں میںسیکڑوں ایکڑ اراضی پر بیوروکریسی کے گھر موجود ہیں، جہاں ایک مرلہ لاکھوں میں ہے وہاں وہ ایکڑوں پر قابض ہیں، اُن کی رہائش گاہیں فروخت کر دی جائیں گی، اُن کے لیے محفوظ کالونیاں تعمیر کی جائیں گی، اِ ن پلاٹوں سے حاصل ہونے والی آمدنی ملکی ترقی پر لگائی جائے گی۔نئے ڈیم تعمیر کئے جائیں گے۔ بڑی عمارتوں میں یونیورسٹیاں قائم کر دی جائیں گی۔ اِس انقلابی خطاب میں انہوں نے غریبوں کے لیے بہت سے اقدامات کرنے کے اعلانات بھی کئے۔
میاں نواز شریف کے ماحول دوست اور غریب پرور خطاب کے بعد ہمارے جیسے حکومت مخالف لوگوں نے بھی اُن کی بھر تائید کی اور ان کے فیصلوں اور اعلانات کو خوب سراہا۔
اب نِگاہیںپَردہ اٹھنے کا انتظار کرنے لگیں، پہلے گمان، پھر وسوسہ اور پھر مایوسی نے سراُٹھانا شروع کر دیا۔ وقت گزرنے لگا اور چہ میگوئیاں بڑھنے لگیں۔ آخر اندازہ ہونے لگا کہ جو سُنا شاید وہ افسانہ تھا اور جو دیکھا تھا شاید کوئی خواب تھا، جس کی تعبیر قسمت میں نہ تھی۔ امید اِس لیے بندھ گئی تھی کہ کوئی بھی حکومت کوئی بھی بڑا کام صرف اُس وقت کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہے جب وہ بھاری مینڈیٹ کی حامل ہو۔ اِس سے قبل یہ موقع جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کو ہی میسر آسکا تھا، درمیان میں اگر حُسنِ اتفاق سے کوئی جمہوری حکومت آ بھی گئی تو اُسے کچھ کرنے کا موقع ہی نہیں ملا، بلکہ عشروں تک کسی منتخب حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری نہ کرنے دی گئی، جبکہ فوجی حکومتوں نے کم و بیش گیارہ گیارہ سال پورے کئے ، (حتیٰ کہ جنرل مشرف نے بھی)۔ تب وزیراعظم نواز شریف کے اعلانات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کون سا عمل مانع تھا، اِس راز سے بظاہر پردہ نہیں اٹھ سکا، تاہم عام عوام کا خیال تھا کہ جس بیوروکریسی کے گھروں کو فروخت کرنے کا اعلان ہوا، وہ وزیراعظم سے بھی زیادہ طاقتور تھی، یہی وجہ ہے کہ اعلانات ہوئے، عمل کی نوبت نہ آنے دی گئی۔
پون صدی سے یہ جملہ سب سے زیادہ بولا اور سُنا جا رہا ہے کہ ملک خطرناک موڑ سے گزر رہا ہے۔ موڑ نہ جانے کب ختم ہوگا، کب سیدھاراستہ نصیب ہوگا؟ قوم کو ہمیشہ یہ جملہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ ’عوام کڑوا گھونٹ بھرنے کو تیار رہیں‘۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ عوام کڑوا گھونٹ کیوں بھریں، کیا ملک اجاڑنے اور لوٹنے میں عوام کا بھی کچھ ہاتھ ہے؟ کیا انہوں نے بھی کچھ حصہ بٹورا ہے؟ کرپشن کرنے والے اور مراعات حاصل کرنے والے طبقات اور ہیں، سزا عوام کو دی جاتی ہے۔ اب بھی عوام کی اکثریت تو سیاستدانوں کے ساتھ ہی ہے، غلامی کے خوگر سیاسی کارکنان اپنے اپنے لیڈر کی بات کے علاوہ کسی اور حقیقت کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے حالات سنورنے کی بجائے خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں، عوام کی بھاری اکثریت حالات خراب کرنے کے ذمہ دار سیاستدانوں کے ہی پیروکار ہے۔ طبیب تبدیل کرنے کا عوام کا کوئی ارادہ نہیں۔
اب قریباً ربع صدی کے بعد جبکہ چھوٹے بھائی صاحب ترقی کرکے وزیراعظم کے عہدہ جلیلہ پر رونق افروز ہیں، ملک ڈیفالٹ کی طرف جارہا ہے، بیرونی قرضوں کا بوجھ عوام کی گردن اور کمر توڑ رہا ہے، نحیف عوام کی آواز بھی نہیں نکل رہی۔ ایسے میں انہوں نے بھی قوم کو کچھ اُسی قسم کی خوش خبریاں سنائی ہیں، جو پچیس برس پہلے بڑے بھائی جان نے سنائی تھیں۔ کہا گیا ہے کہ پوری کابینہ تنخواہ نہیں لے گی، لگژری گاڑیاں واپس کر دی جائیں گی، پٹرول اپنی جیب سے ڈلوائیں گے، شہروں کے درمیان میں ایکڑوں کے حساب سے سرکاری افسران کی رہائش گاہوں کو فروخت کر دیا جائے گا، سرکاری ملازمین کو ایک سے زیادہ پلاٹ نہیں ملیں گے، (اور یہ کہ اس سارے عمل سے دو سو ارب روپے سالانہ بچت ہو گی)۔ وزیرِ اعظم کے اعلان کردہ تمام اقدامات دراصل عوام کے جذبات کو عملی شکل دینے کا ہی نام ہے، عوام یہی چاہتے ہیں اور اسی کامطالبہ حکمرانوں سے کرتے ہیں، گویا وزیراعظم نے عوام کے دل کی بات کہہ دی ہے۔
اِن خوش کُن اعلانات سے اُڑنے والی گرد بیٹھ جائے تو کچھ عرض کی جائے، یہ کہ عمل کی ضرورت ہے، ایسے ہی دعوے تمام حکمران (بشمول بڑے بھائی جان) پون صدی سے کرتے آرہے ہیں، دعووں سے مسائل کا حل نہیں نکلتا اور یہ کہ صرف وفاقی کابینہ ہی نہیں، صوبائی حکومتوں کو بھی انہی اعلانات کا پابند کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ صدر مملکت کا نمائشی عہدہ جسے عرفِ عام میں’ آئینی عہدہ‘ بھی کہا جاتا ہے، بے حد اور اضافی اخراجات کا موجب ہے۔ چاروں صوبوں کے گورنرز پر قومی خزانہ بے دردی سے لٹایا جاتا ہے۔ اور یہ بھی کہ بیوروکریسی کے پاس بھی ضرورت سے بہت زیادہ گاڑیاں اور مراعات ہیں، جن کو بہت سختی سے قابو کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ بھی کہ فوج کے اخراجات کو معمولی سا بھی کم کیا جائے تو یقیناً اربوں روپے کا فرق پڑ سکتا ہے۔ یہ بھی کہ عدلیہ کی مراعات ظالمانہ حد تک زیادہ ہیں۔ یہ بھی کہ ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے والے ارب پتی مقتدر طبقات کی ظالمانہ پنشن اور ریٹائرمنٹ کے بعد جاری مراعات کا خاتمہ ضروری ہے۔ جنابِ عالی جذباتی باتوں نہیں عمل کی ضرورت ہے، صرف وفاقی کابینہ نہیں تمام لوٹ مار طبقات کا ہاتھ روکنے کا وقت ہے۔ ورنہ وہ وقت بھی دور نہیں جب عوام کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہ ہوگااور استحصالی طبقوں کو جان بچا کر بھاگنے کی مہلت بھی نہیں مل سکے گی۔