ColumnNasir Sherazi

دو ٹانگوں والی بلیاں .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

ملک مالیاتی و اقتصادی بحران کی لپیٹ میں ہے، ڈالر اور پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کے بعد مختلف مافیاز نے ہر اُس چیز کی قیمت میں اضافہ کردیا ہے جس کا پٹرول یا ڈالر سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ وجہ پوچھی جائے تو ایسا جواب ملتا ہے جسے سن کرجی چاہتا ہے کہ انسان سامنے والے کا سر پھوڑ دے، اِس پر اختیار نہ ہو تو کم ازکم اپنا سرپھوڑ لے۔ وفاقی حکومت کے اہم وزیر محترم نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ملک ڈیفالٹ کرچکا ہے تو ہر فرد کو یوں لگا جیسے اس کی نبض ڈوبنے لگی ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا نے اس بیان کو خصوصی جگہ دی، اس سے قبل ڈیفالٹ کی خبروں کو اپوزیشن سے جوڑ دیا جاتا تھا اور قوم کو تسلی دی جاتی تھی کہ ایسا کچھ بھی نہیں ایسی خبریں وہ دے رہے ہیں جو ملک کو انتشار سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ حقائق کچھ بھی ہوں زمینی حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی ڈیفالٹ کرچکا ہے، جاری ماہ کے آخر ی ایام ہیں ایسے میں افواہ ہے کہ پٹرول کی قیمت میں مزید اضافہ کیا جائے گا یہ ہویا نہ ہو وزیراعظم پاکستان آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ مہنگائی تو ابھی ہونی ہے، ایسے میں عام آدمی کا حشرکیا ہوگا سوچ کے روح کانپ اٹھتی ہے۔
یہ پچھلی صدی کا ذکر نہیں صرف چند برس قبل کی بات ہے بھکاری ایک روپئے کا سوال کرتا تھا اور ایک روپیہ حاصل کرنے کے بعد خوشی خوشی آگے بڑھ جاتا تھا، بات ایک روپئے سے دس روپئے تک پہنچی اب سوال دس روپئے کا نہیں ہوتا کیونکہ دس روپئے میں کچھ نہیں آتا، وہ وقت آج بہت سہانا لگتا ہے جب سستی روٹی سکیم کے تحت روٹی دو روپئے کی ہوئی، ملی نہ ملی الگ کہانی ہے لیکن ایک ہی چھلانگ میں اس کی قیمت پانچ روپئے کردی گئی یوں دس روپئے کا سوال کرنے والے بھکاری کو اس قیمت میں دو روٹیاں ملنے لگیں آج روٹی کی سرکاری قیمت بیس روپئے ہے لیکن یہ روٹی کے نام پر پاپڑ ہے ، وزن اس قدر کم ہے کہ روٹی کے فقط دو لقمے بنتے ہیں، پس اب بھکاری اللہ کے نام پر ایک سو کا نوٹ مانگتا ہے اور اِسے پاکر بھی خوش نہیں ہوتا بلکہ بُرا سا منہ بناکے آگے بڑھ جاتا ہے، پھر مڑ کر دینے والے پر ایسی نظر ڈالتا ہے جیسے نظروں ہی نظروں میں کہہ رہا ہو کہ میں نے تمہاری غربت پر ترس کھاکر تم سے سو روپئے کا سوال کیا ہے، اِس سوروپئے سے میرا کچھ نہیں بنے گا اس میں لیٹر دودھ آتا ہے نہ کلو دہی، ایسے کم ازکم سات آٹھ نوٹ ہوں تو ایک لیٹر کوکنگ آئل کا پائوچ ملتا ہے جس کو حکومتی کاغذوں میں انسانی صحت کے لیے مضر قرار دیاجاچکا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود سرکاری یوٹیلٹی سٹورز پر آپ کو یہی برانڈز بیس پچیس روپئے کی رعایتی قیمت پر ملے گا، اسے خریدیں اور اپنی صحت کو مزید تباہ کریں۔
وہ بھلے وقت یا شاید ڈاکو خاندانی ہوا کرتے تھے کہ ڈکیتی میں صرف زیور اور روپیہ لے جاتے تھے، اب زیور تو بک چکے، روپیہ اگر مہینے کی پہلی تاریخ کو تنخواہ کی شکل میں کسی گھر تک پہنچتا بھی ہے تو ٹھیک تیسرے دن تنخواہ دار کی آخری تاریخیں شروع ہوجاتی ہیں، بجلی اور گیس کے بل بچوں کی فیسیں، گھرکا کرایہ، بیماروں کی دوائیں خریدنے کے بعد اگر گھر میں کچھ بچ جاتا ہے تو صرف آٹے کا ایک تھیلا، اب ڈاکو آئیں تو سب سے پہلے وہ آٹے کے تھیلے پر ہاتھ صاف کرتے ہیں ان کا اگلا ہدف چینی اور پتی جبکہ دو پیکٹ دال مل جائے تو ڈاکو سمجھتا ہے کہ ڈکیتی کامیاب رہی، گذشتہ ماہ سکھر میں ہونے والی ایک ڈکیتی اسی قسم کی تھی، ڈاکوئوں کو خبر ملی کہ ایک سٹور پر کنٹرول ریٹ پر آٹے کا سٹاک آیا ہے، وہ وہاں پہنچے اور آٹا لوٹ کر فرار ہوگئے۔ ضلع لوئر وزیرستان میں سرکاری سٹور سے آٹے کے تیس ہزار تھیلے غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے، ان تھیلوں کو پائوں لگے تھے نہ پہیے لیکن پھر بھی وہ غائب ہوگئے، ذرائع خبر دیتے ہیں کہ معاملہ سیکرٹری فوڈ ،پشاور کے ڈی سی سائوتھ کے نوٹس میں لاچکے ہیں لیکن یہ تھیلے بازیاب نہ ہوئے، وانا سے لیکر بنوں، میرانشاہ اور لکی مروت میں ایک مافیا ہے جو اپنی وارداتیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
آٹے کا بحران پیدا کرنے کے حوالے سے فلور ملز مالکان کا کردار بھی زیر بحث آرہا ہے جن کے خلاف ایکشن ہونے سے قبل ہی فلور ملز مالکان نے ہڑتال کی دھمکی دے دی، مل مالکان پر الزام ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے رعایتی قیمت پر ملنے والی گندم کے مطابق آٹا مارکیٹ میں نہیں دے رہے بلکہ سستی گندم مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کرنے میں ملوث ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حکومت اور فلور ملز مالکان کے درمیان محاذ آرائی عروج پر ہے، بحران بڑھانے والے عناصر کی فہرستیں تیار کرلی گئی ہیں گرفتاریاں کسی بھی وقت ہوسکتی ہیں جس کے بعد یہ بحران مزید سنگین ہوسکتا ہے۔
مختلف ادوار میں فلور ملز مالکان کے منفی رویے نے حکومتوں کو مجبور کیا جس کے بعد آخری حل کے طور پر فلور ملز کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا اب بیشتر فلور ملز مالکان میدان سیاست میں ہیں ان کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ہے، کچھ ایسے ہیں جو ایوان میں ہیں یا ان تک رسائی رکھتے ہیں جس کے سبب اب فلور ملز کو شاید قومی ملکیت میں نہ لیا جاسکے لیکن آٹا کا بحران بھی جلد حل ہوتا نظر نہیں آتا، اس کی قیمت میں استحکام ہر گھر کی ضرورت ہے۔
پنجاب میں سرکاری گندم کا کوٹہ بڑھاکر چھبیس ہزار ٹن یومیہ کردیاگیا ہے، صوبے کے نو ڈویژن میں چھتیس اضلاع میں ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں، حکومت کے گوداموں میں ضرورت کے مطابق گندم موجود ہے، کمی کی صورت میں امپورٹ کے انتظامات بھی ہیں لیکن پاکستان کے مختلف سرحدی علاقوں سے گندم اور آٹے کی سمگلنگ پر قابو پائے بغیر اور سمگروں کو سلاخوں کے پیچھے بھجوائے بغیر صورتحال کی بہتری کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں سکتا۔
رونا صرف آٹے کا نہیں ہے، پاکستان سے سمگل ہونے والی چیزوں میںآٹا اور گندم سمیت خوردنی تیل، گائے، بھینس، بکریاں، مرغی اور اس کا گوشت بھی شامل ہے جس کے سبب ملک کے اندر ان کی قیمتیں حیرت انگیز طور پر آج کچھ ہوتی ہیں کل کچھ۔ اگر ہم صرف سمگلنگ پر قابو پالیںتو ان چیزوں کی قیمتیں تیس فیصد تک کم ہوسکتی ہیں لیکن اصل مسئلہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا ہے، جنہوں نے یہ کام کرنا ہے، بلیاں انہوں نے ہی پال رکھی ہیں، اب تو چار ٹانگوںوالی بلیوں کے علاوہ دو ٹانگوں والی بلیاں پالنے کا رواج معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، پوش علاقوں کی ہر دوسری گلی میں ایک گھر ایسی ہی بلیوں کا ہے، ان بلیوں کی اپنے بلوں ّ سے روابط کی نئی آڈیو ویڈیوز آنے والی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button