تازہ ترینتحریکخبریںسیاسیات

پی ٹی آئی کی جیل بھرو تحریک کا آج سے آغاز،قریشی،اسد عمر گرفتاری دینگے

پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کی معاشی عدم استحکام ، پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں پر کریک ڈاؤن کے خلاف ’جیل بھرو تحریک‘ کا آغاز آج بروز بدھ 22 فروری سے لاہور سے ہو رہا ہے۔

پہلے مرحلے میں پارٹی کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی، اسد عمر ،سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ، سینیٹر ولید اقبال ، سابق صوبائی وزیر مراد راس سمیت 200 کارکنان گرفتاری دیں گے۔

پی ٹی آئی ترجمان کے مطابق حکومت نے گرفتاریوں سے انکار کیا تو پی ٹی آئی رہنما اور کارکنان مال روڈ چیئرنگ کراس پر دھرنا دیں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز 21 فروری بروز منگل پاکستان تحریک انصاف سینٹرل پنجاب ونگ کی گورننگ باڈی کے اجلاس میں ’جیل بھرو تحریک‘ پر تفصیلی غور کیا گیا، جب کہ صدر لاہور شیخ امتیاز محمود کی جانب سے شرکاء کو تفصیلی بریفنگ دی گئی اور تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے حکمت عملی طے کی گئی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تحریک کے آغاز کے موقع پر گرفتاریاں دینے والے سینیر رہنماؤں اور کارکنوں کے اعزاز میں پارٹی دفتر میں تقریب منعقد ہوگی، ڈاکٹر یاسمین راشد گرفتاریاں دینے والے رہنماؤں اور کارکنوں کے ہمراہ چیئرنگ کراس پہنچیں گی۔

دوسری جانب پنجاب میں نگران حکومت نے جیل بھرو تحریک کے حوالے سے حکمت عملی طے کر لی ہے جس کے تحت صوبائی دارالحکومت میں سات دن کے لئے دفعہ 144 نافذ، اہم شاہراہوں پر احتجاج اور دھرنوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

علاوہ ازیں لاہور کی جیلوں میں گنجائش نہ ہونے کے باعث گرفتاری دینے والے کارکنوں کو میانوالی اور ڈیرہ غازی خان کی جیلوں میں منتقل کیا جائے گا اور ان کا کرمنل ریکارڈ بھی چیک کیا جائے گا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے 17 فروری کو ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کے دوران 22 فروری کو لاہور سے جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

پنجاب حکومت نے حکمت عملی طے کرلی

پاکستان تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک کے حوالے سے پنجاب کی نگران حکومت نے حکمت طے کرلی ہے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت نے قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو متحرک کر دیا ہے۔

ذرائع کا بتانا ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے گرفتاری دینے والے لوگوں کا کرمنل ریکارڈ چیک کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بدعنوانی،کرمنل کیس میں ملوث افراد کے خلاف فوری کارروائی کی جائےگی۔

گزشتہ روز نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں چیف سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس سمیت دیگر حکام نے شرکت کی۔

اجلاس میں پی ٹی آئی کی جیل بھرو تحریک پر مشاورت کی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ پی ٹی آئی کارکن اور رہنما قانون کے خلاف جائیں تو گرفتار کیا جائے گا۔ حکومت نے رضاکارانہ گرفتاری دینے والے کارکنوں کو گرفتار نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

نگران حکومت نے میانوالی اور ڈیرہ غازی خان کے جیل حکام کو الرٹ رہنے اور امن و امان کی صورت حال کو ہر صورت یقینی بنانے کی ہدایات بھی کر دی ہیں۔

یاد رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے 22 فروری بروز بدھ سے جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا حکومت ہمیں جیلوں میں ڈالنے سے ڈرا رہی ہے، جب ہم جیل بھرو تحریک شروع کریں گے تو ان کے پاس جیلوں میں جگہ کم پڑ جائے گی۔

پنجاب حکومت کا گرفتاریاں نہ کرنیکا فیصلہ

پنجاب حکومت نے تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک میں رضاکارانہ گرفتاری دینے والے کارکنوں کو گرفتار نہ کرنے کی ہدایت کردی۔

پی ٹی آئی کارکن اور رہنما قانون کے خلاف جائیں تو گرفتار کیا جائے گا،اجلاس میں چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس سمیت دیگرحکام نے شرکت کی۔

اجلاس میں پی ٹی آئی کی جیل بھرو تحریک پر مشاورت کی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ پی ٹی آئی کارکن اور رہنما قانون کے خلاف جائیں تو گرفتار کیا جائے گا۔حکومت نے رضاکارانہ گرفتاری دینے والے کارکنوں کو گرفتار نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

شیخ رشید کل گرفتاری دینے کیلیے تیار

پاکستان مسلم لیگ عوامی کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ 22 فروری کو گرفتاری دینے کے لیے تیار ہوں۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے اسلام آباد کچہری میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کی جیل بھرو تحریک کل سے شروع ہو رہی ہے اور 22 فروری کو ہی میں بھی گرفتاری دینے کیلیے تیار ہوں۔

سینیر سیاستدان نے کہا کہ صدرعارف علوی نے الیکشن کی تاریخ دے کر اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ انہوں نے پنجاب اور کے پی میں الیکشن کے لیے 9 اپریل کی تاریخ دی ہے یہ وہی تاریخ ہے جس رات عمران حکومت پر شب خون مارا گیا تھا۔ معلوم نہیں انتخابات ہوتے بھی ہیں یا نہیں لیکن اگر ملک میں انتخابات نہ ہوئے تو خانہ جنگی اور قحط ہوگا۔

جیل بھرو تحریک کا شیڈول

پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) نے جیل بھرو تحریک کا شیڈول جاری کردیا ہے، شیڈول کے مطابق عمران خان گرفتاری دے کر تحریک کا آغاز لاہور سے کریں گے۔ بائیس فروری سے یکم مارچ تک روزانہ 200 کارکنان گرفتاریاں دیں گے، پشاور سے کارکن 23 فروری جمعرات کو گرفتاریاں دیں گے۔

جمعہ 24 فروری کو راولپنڈی، ہفتہ 25 فروری ملتان، اتوار 26 فروری کو گوجرانوالہ اور پیر کو سرگودھا سے گرفتاریاں دی جائیں گی۔

دوسری جانب پنجاب پولیس نے ہفتہ کو زمان پارک کے باہر سرچ اور سوئپ آپریشن کیا، اہلکاروں نے چیئرمین پی ٹی آئی کی رہائش گاہ کے باہر پوزیشنز سنبھال لیں۔ عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر تحریک انصاف کے کارکنان خیمہ زن ہوگئے ہیں اور از خود ڈیوٹیاں انجام دے رہے ہیں۔

جیل بھرو تحریک کیا ہے؟

جیل بھرو تحریک، 1947 میں خطہ برصغیر پاک و ہند پر برطانوی راج کے خلاف سیاست دانوں کے وسیع احتجاج کی ایک شکل تھی، جس کا مقصد سرکاری مشینری کا گلا گھونٹنا تھا۔

آسان الفاظ میں کہیں تو حکومتی کاموں میں خلل پیدا کرنا تھا۔ احتجاج کے اس طریقہ کار کو اپنانے والوں میں گاندھی سب سے نمایاں رہنما تھے۔ جیل بھرو تحریک میں شامل ہزاروں سیاسی کارکنان پولیس یا دیگر سیکیورٹی فورسز کے پاس پہنچتے ہیں اور خود کو گرفتاری کے لیے پیش کرتے ہیں، یا عملی طور پر کچھ ایسا کرتے ہیں کہ انہیں گرفتار کرلیا جائے، جیسے کہ حکومت کے خلاف توہین آمیز نعرے بازی وغیرہ۔

تقسیمِ ہند سے پہلے اور اب بھی جیلوں میں قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش کافی محدود ہے۔ تقریباً ہمیشہ ہی بڑی تعداد میں لوگوں کو جیلوں میں بند کرنا مشکل عمل ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا جیل بھرو مظاہرین فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

حالیہ تاریخ میں، بھارتی سماجی کارکن انّا ہزارے نے 2011 میں جیل بھرو احتجاج کا اعلان کرکے اس وقت کی مرکزی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا۔ ایک بڑے سیاسی بحران کو ٹالنے کے لیے انّا ہزارے کے مطالبے پر حکومت نے شہری محتسب مقرر کرنے کے لیے ”جن لوک پال بل“ کی منظوری دی۔

حکومت کو انّا ہزارے کو بھی رہا کرنا پڑا جو دہلی میں گرفتار تھے۔ آن لائن پٹیشن پر دستخط اور احتجاج کرنے والے لاکھوں ہندوستانیوں نے انّا ہزارے کی حمایت کی۔ اس وقت کی ہندوستانی حکومت نے ہزارے کے جیل بھرو احتجاج کو بے اثر کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کیا، لیکن کچھ کام نہ آیا۔

مثال کے طور پر، ممبئی میں پولیس نے فیصلہ کیا کہ ایم ایم آر ڈی اے گراؤنڈ یا کلینا پولیس گراؤنڈ کے ایک حصے کو جیل قرار دیا جائے اور وہاں موجود ہر شخص کو حراست میں لے لیا جائے۔

پاکستان میں ”جیل بھرو“ کی تاریخ

پاکستان نے 75 سالوں میں صرف ایک جیل بھرو احتجاج دیکھا ہے۔ ضیاالحق کی حکومت کے خلاف ”تحریک بحالی جمہوریت“ (MRD) نے 1980 کی دہائی کے اوائل میں جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا گیا۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ان سیاست دانوں میں شامل تھے، جنہیں فوجی حکومت نے جیل میں ڈالا تھا۔ اس گرفتاری نے انہیں دوام بخشا اور وہ سیاسی منظر نامے پر اجاگر ہوئے۔ یہ گرفتاری ان کے سیاسی کیریئر کا پہلا بڑا سنگ میل ثابت ہوئی۔

پنجاب میں ایم آر ڈی تحریک کے دوران ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا، لیکن سندھ میں اس نے پرتشدد رخ اختیار کر لیا، جہاں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور بالآخر یہاں تحریک کو کچل دیا گیا۔

خالد بن سعید کا ایک تحقیقی مقالہ اس بات کی ایک جھلک پیش کرتا ہے کہ اس طرح کے مظاہرے کیسے نظر آتے ہیں اور کیوں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی کوشش کو تشدد کی کارروائی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ گست 1983 کے اواخر میں مخدوم ہالا کے تقریباً 50 ہزار پیروکار گرفتاری کے لیے جمع ہوئے اور کئی گھنٹوں تک قومی شاہراہ بلاک رکھی۔“

اگست اور ستمبر کے آخر میں جب تحریک تیزی سے عسکریت پسند اور پرتشدد ہوتی گئی تو فوج کو لانا پڑا، اور وسطی و شمالی سندھ کے کچھ اہم قصبوں کا کنٹرول سنبھالنا پڑا۔ تمام یونیورسٹیاں بند کر دی گئیں۔ نواب شاہ، سکھر، لاڑکانہ، جیکب آباد اور خیرپور اضلاع کے ضلعی مجسٹریٹس کے جاری کردہ پریس نوٹ میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان فائرنگ کے تبادلے اور بینکوں، کارخانوں، سرکاری دفاتر اور ریلوے اسٹیشنوں پر حملوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔

ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان ویسٹرن ریلوے کے روٹ کے ساتھ واقع کچھ اہم قصبوں اور شہروں میں ہونے والے عسکریت پسند مظاہرے سندھ اور پنجاب کے درمیان ریلوے مواصلات کو متاثر کرنے کے لئے کیے گئے تھے۔ یہ بھی تجویز کیا گیا کہ مقصد کراچی کی بندرگاہ سے سامان خاص طور پر تیل کی درآمد پر انحصار کرنے والے پنجاب کے تاجروں اور کاروباری افراد کو ٹرینوں پر گھات لگانا اور رکاوٹیں کھڑی کرکے نقصان پہنچانا تھا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ 1983 میں جب سندھ میں تحریک اپنے عروج پر تھی تو پُرتشدد واقعات نے حکام کو موقع فراہم کیا کہ وہ اس تحریک کو کچلیں۔ بعد میں، 1980 کی دہائی کے بہت سے سیاسی کارکن یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ اگرچہ ایم آر ڈی اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پائی، لیکن اس نے عوام میں سیاسی بیداری پیدا کی۔

جیل بھرو تحریک کس طرح ناکام ثابت ہوسکتی ہے؟

گست 1983 کے اواخر میں مخدوم ہالا کے تقریباً 50 ہزار پیروکار گرفتاری کے لیے جمع ہوئے اور کئی گھنٹوں تک قومی شاہراہ بلاک رکھی۔“

اگست اور ستمبر کے آخر میں جب تحریک تیزی سے عسکریت پسند اور پرتشدد ہوتی گئی تو فوج کو لانا پڑا، اور وسطی و شمالی سندھ کے کچھ اہم قصبوں کا کنٹرول سنبھالنا پڑا۔ تمام یونیورسٹیاں بند کر دی گئیں۔

نواب شاہ، سکھر، لاڑکانہ، جیکب آباد اور خیرپور اضلاع کے ضلعی مجسٹریٹس کے جاری کردہ پریس نوٹ میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان فائرنگ کے تبادلے اور بینکوں، کارخانوں، سرکاری دفاتر اور ریلوے اسٹیشنوں پر حملوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔

ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان ویسٹرن ریلوے کے روٹ کے ساتھ واقع کچھ اہم قصبوں اور شہروں میں ہونے والے عسکریت پسند مظاہرے سندھ اور پنجاب کے درمیان ریلوے مواصلات کو متاثر کرنے کے لئے کیے گئے تھے۔ یہ بھی تجویز کیا گیا کہ مقصد کراچی کی بندرگاہ سے سامان خاص طور پر تیل کی درآمد پر انحصار کرنے والے پنجاب کے تاجروں اور کاروباری افراد کو ٹرینوں پر گھات لگانا اور رکاوٹیں کھڑی کرکے نقصان پہنچانا تھا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ 1983 میں جب سندھ میں تحریک اپنے عروج پر تھی تو پُرتشدد واقعات نے حکام کو موقع فراہم کیا کہ وہ اس تحریک کو کچلیں۔ بعد میں، 1980 کی دہائی کے بہت سے سیاسی کارکن یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ اگرچہ ایم آر ڈی اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پائی، لیکن اس نے عوام میں سیاسی بیداری پیدا کی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button