ColumnM Anwar Griwal

مشرقی پاکستان، ٹوٹا ہوا تارا! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

کتاب کا پہلا ہی ورق پلٹا تو ایسا لگا کہ غم کے دریا میں قدم رکھ دیا ہو، مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں، ادیبوں اور مشاہیر کی تصاویر تھیں۔ اگلا صفحہ پاکستان کیلئے جانیںقربان کرنے والوں کی تصاویر سے سجا تھا۔ صفحہ کے کونے میں یہ جملہ تحریر تھا ’’زندہ جاوید شہدائے پاکستان جو مقامِ دارورسن سے گزرتے رہے‘‘۔ پھر آپ کا سامنا اِس تحریر سے ہوتا ہے، ’’لوحِ تاریخ پر کندہ شواہد اور آنکھوں دیکھے واقعات سے جنم لیتی پیچ در پیچ داستان، جس میں حیرتوں ، عبرتوں ، جراحتوں کے ہزارہا پہلو پوشیدہ ہیں، جو سوچنے والے ذہنوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں، نصف صدی پر محیط تحریریں‘‘ انتساب کے آخری جملہ نے دِل پر بھاری پتھر رکھ دیا، ملاحظہ فرمائیے؛ ’’پاکستان کے مایہ ناز قانون دان جناب اے کے بروہی کے نام! جنہوںنے میرے اندر مشرقی پاکستان جانے کا شوق پیدا کیا اور ڈھاکہ کے سائیکل رکشہ ڈرائیور چُنوں میاں کے نام! جس نے مجھے مشرقی پاکستان کی روح قبض کردینے والی غربت اور محرومیوں کا مشاہدہ کروایا‘‘ یہ ابتدائی تاثر اور احوال ہے جناب الطاف حسن قریشی کی تازہ کتاب ’’مشرقی پاکستان، ٹوٹا ہوا تارا‘‘کا۔
ورق ورق پلٹتے میرے جیسے فرد کا دِل بھی ڈوبنے لگا، جس نے پاکستان سے مشرقی پاکستان کی ذلت آمیز علیحدگی کا منظر اپنے لڑکپن میں ہی دیکھا ہے، اگر اپنی یادداشت پر بھروسہ کیا جائے تو محض دھندلا سا عکس ہے، اگر دِل سے پوچھا جائے تو ایسے لگتاہے کہ کوئی پیارا الگ کر دیا گیا، جب دسمبر آتا ہے، تو اس ماہ کے نصف سے اگلا روز ہر سال شرمساری اور بے چارگی سے لبریز دل وجاں پر بہت بھاری گزرتا ہے۔ جب اِس عنوان پر لکھی کوئی کتاب سامنے آتی ہے تو یہ زخم تازہ ہو جاتا ہے، حقائق ایسے ہی ہیں جو زخم پر نمک چھڑکنے کا کام کرتے ہیں۔ جن لوگوں نے اپنی مکمل ہوش و حواس میں یہ سانحہ دیکھا ہے، اُن کی حالت کیا ہوگی۔ سُنتے تھے کہ جب سقوطِ ڈھاکہ کا شرمناک او ر افسوسناک سانحہ رونما ہوگیا تو لوگ لاہور کی سڑکوں پر دھاڑیں مار مار کر روتے تھے۔ اب بھی ایک پاکستان میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو یہ صدمہ ابھی تک اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں، ’’مشرقی پاکستان ، ٹوٹا ہوا تارا‘‘ جیسی کوئی کتاب پاتے ہیں تو ایک مرتبہ پھر غمگین ہو جاتے ہیں۔
الطاف حسن قریشی جہاں پاکستان کے سینئر ترین صحافی ہیں وہاں وہ معتبر ترین اور نظریاتی صحافت کے علمبردار اور سرخیل بھی ہیں۔ اُن کی ذات بے شمار رازوں کا مجموعہ ہے، سیاست کے ایوانوں کی کوئی خبر ہوگی جو اُن کی نگاہ سے اوجھل رہی ہو۔ ’’ملاقاتیں کیا کیا!‘‘ میں انہوں نے پاکستان کے بہت سے سینئر اور اہم سیاسی رہنمائوں سے انٹرویوز شائع کئے ہیں، جس سے پاکستان کے ماضی کی سیاست کے بہت سے خفیہ پہلو سامنے آجاتے ہیں، اہم قائدین سے طویل ملاقاتوں سے خود اُنہی سیاستدانوں کی شخصیات کے بہت سے پوشیدہ رُخ قاری کی نظر سے گزرتے ہیں۔ صحافت کی دنیا میں سچ لکھنے کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بانی بھی وہی ہیں ۔ ایسے ہی زیرِ نظر کتاب میں بھی پوری تاریخ سمو دی گئی ہے۔ مغربی پاکستان میں رہ کر مشرقی پاکستان کے عوام کے بارے میں کوئی درست تجزیہ نہیں کی جا سکتا تھا، تب پرنٹ میڈیا پر ہی سارا دارومدار تھا، کیونکہ ریڈیو اور چند برس قبل ظہور پذیر ہونے والا ٹی وی حکومت کا نمائندہ اور ترجمان ہوتا تھا۔
قیامِ پاکستان کے چند ہی برس بعد مشرقی اور مغربی پاکستان میں نفرت کی دیواریں کھڑی ہونی شروع ہو چکی تھیں۔ الطاف حسن قریشی نے حُب الوطنی کے تقاضے نبھاتے ہوئے اپنا جہاد جاری رکھا ہوا تھا،ایسے میں انہوں نے مشرقی پاکستان کے متعدد دورے کئے، وہاں قریہ قریہ ، کوچہ کوچہ اور شہر شہر گئے، ہر طبقہ فکر سے ملاقاتیں کیں۔ جسٹس سے لے کر جرنیل تک،سیاستدان سے لے کر طالب علم تک ، تاجر سے لے کر مزدور تک کے انٹرویوز کئے۔ اپنی آنکھوں سے اپنے ہی بھائی بندوں کے دلوں میں نفرت کے کانٹے اُگتے دیکھے۔ مخالفت کے بیج بونے والوں کو بھی دیکھا، مظلوم عوام کا حال بھی جانا۔ نفرت کی دیوار پختہ ہوتے بھی دیکھی اور بات حد سے بڑھی تو متحدہ پاکستان کے حامیوں کیلئے قائم کئے گئے مذبح خانوں کا بھی بچشمِ سَر مشاہدہ کیا۔ غربت اور محرومیوں کے مناظر بھی دیکھے اور مغربی پاکستان سے وہاں جانے والوں کے ہاتھوں ڈھائے جانے والے مظالم بھی دیکھے۔
الطاف حسن قریشی کے دیکھے اور لکھے گئے حالات صدفی صد درست تھے۔ مشرقی پاکستان میں مایوسیاں پھیل چکی تھیں، ملک ٹوٹنے کا ماحول بن چکا تھا۔ یہاں سے جانے والے فوجی افسران کا رویہ مشرقی پاکستان کے باسیوں کے ساتھ نہایت جارحانہ، تضحیک آمیز اور ظالمانہ ہوتا تھا۔ جس سے نفرت نے انتقام کا روپ دھار لیا تھا۔ اُن کی نفسیات اور مجبوریاں جانے بغیر ہی یہاں سے جانے والے حکمرانوں نے اپنے اوپر بے حسی کا آہنی خول چڑھا رکھا تھا۔ یہ اجتماعی رویہ تھا، یہاں سے جانے والے کچھ لوگ اگرچہ اچھے ہوتے تھے، مگر آٹے میںنمک کے برابر۔ وہاں البتہ بڑی تعداد پاکستان کو متحد دیکھنا چاہتی تھی، جسے بزورِ بازو دبانے کی کوشش کی گئی، انہی پر مظالم ڈھائے گئے۔ جماعت اسلامی اور بہاری سب سے نمایاں تھے۔
1408صفحات پر مشتمل کتاب ایک تاریخی دستاویز ہے، جو ایک معتبر صحافی کے تجزیوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کی ترتیب میں شامل تمام مضامین ماہنامہ ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ یا ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ میں شائع ہو چکے تھے، جنہیں یکجا کرکے ایک ضخیم کتاب مرتب کی گئی ہے۔ اس کتاب کو شائع کرنے کا اعزاز ’’قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل‘‘ کے روحِ روان علامہ عبدالستار عاصم اور فاروق چوہان کو حاصل ہوا۔ یہ کتاب ہر اُس شہری کے مطالعہ کیلئے ضروری ہے جو اپنے ہی ماضی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتا ہے۔ کتاب کے مطالعہ سے یہ احساس بھی بار بار دِل و دماغ پر دستک دیتا ہے کہ تاریخ سے ہمارے سیاستدانوں ، حکمرانوں اور فو جی حکام وغیرہ نے کچھ بھی سبق نہیں سیکھا۔ نئی نسل کو اپنی تاریخ کے اِس تاریک ترین سانحے سے آگاہی کیلئے اس کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button