ColumnImtiaz Aasi

شیخ رشید،ورکرزکونشن اور دھڑے بندی .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

انتخابات قومی اسمبلی کے ہوں یا صوبائی اسمبلی کے وفاقی دارالحکومت سے جڑا شہر راولپنڈی سیاسی اعتبار سے اپنی منفرد حیثیت رکھتا ہے۔پنڈی کی سیاست کی اُفق پر عشروں سے چھایا فرزند راولپنڈی شیخ رشید ان دنوں پس زنداں ہے۔قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن کیلئے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔راولپنڈی کا فرزند کلاشنکوف کیس میں قید ہوکر سنٹرل جیل بہاولپور بھیجاگیاتو اسیری کے یہ ایام شیخ رشید کیلئے خاصے کٹھن تھے، کہاں ایئرکنڈیشنڈ کمرے اور کہاں بہاولپور جیل کی گرم ترین بیرکس کا ایک لمحہ لمحہ، پنڈی کے فرزند کیلئے جہنم سے کم نہیںتھا۔ حضرت یوسف ؑ نے ویسے تو نہیں کہا تھا کہ جیل خانہ جہنم کا ایک ٹکڑا ہے۔ہمیں یاد ہے شیخ صاحب کے مربی اور روزنامہ جنگ راولپنڈی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹرشورش ملک مرحوم اور سنیئر صحافی سلیم بخاری ہر بدھ وار کو ان سے ملنے جایاکرتے تھے۔ شورش ملک علیل ہوئے تو ان دنوں شیخ رشید نواز شریف کابینہ میں وفاقی وزیر اطلاعات تھے چند روز میں وزیراعظم سے منظوری لے کر ملک صاحب کو علاج معالجہ کیلئے لندن بھیجوا دیایہ اور بات ہے ان کی زندگی نے وفا نہیں کی وہ آپریشن کے بعد وطن واپس آنے کے ایک دو ماہ بعد سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔ فرزند راولپنڈی کے کاغذات حلقہ این اے 62 سے ان کے بھتیجے شیخ راشد شفیق نے جمع کرائے ہیں۔راشد شفیق خو د بھی حلقہ این اے 60سے امیدوار ہوں گے۔راشد شفیق کا گذشتہ الیکشن میںمقابلہ مسلم لیگی رہنما سجاد خان سے تھا،سجاد خان چند سو ووٹو ں سے ہارگئے تھے۔ راولپنڈی شہر میں سجاد خان کی اپنی برادری کے کم از کم چالیس ہزار ووٹرز ہیں ۔شیخ رشید قسمت کے دھنی ہیںانتخابات میں انہیں کسی نہ کسی جماعت کی حمایت ضرور حاصل رہی ہے۔وہ پنڈی سے سولہ مرتبہ قومی اسمبلی کا الیکشن جیت چکے ہیں۔اب کی بار تو ان کیلئے عمران خان کا نام کافی ہے دوسری اہم بات یہ ہے ان کی مخالف جماعت مسلم لیگ نون دھڑے بندی کا شکار ہو چکی ہے۔مریم نواز قائد کے دئیے گئے پروگرام کے تحت 22 فروری کوراولپنڈی میں ورکرز کنونشن سے خطاب کریں گی۔شہر کے ایک سابق رکن قومی اسمبلی اور وزیراعظم شہبازشریف سے قربت رکھنے والے حنیف عباسی ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔ حنیف عباسی امیداوار نہیں ہو سکتے تھے وہ سزایافتہ ہیںاس لیے ان کے بیٹے نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ایسے وقت میں جب مسلم لیگ نون عوامی حمایت سے محروم ہو چکی ہے۔راولپنڈی ڈویژن میں گذشتہ دو انتخابات میں اس جماعت کوبری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ پنڈی میں مسلم لیگ نون کا تین دھڑوں میں بٹ جانا لیگیوں کیلئے خاصا دھچکا ہے۔ 2013 اور 2018 الیکشن پر نظر دوڑائیں تو دونوں انتخابات میں مسلم لیگ نون کی شکست میں تنظیم سازی کا فقدان رہا ہے۔پارٹی نے جن ورکرز کو سرکاری عہدوں سے نوازا وہ پارٹی کو مضبوط کرنے کی بجائے اپنی موج مستی میں مصر وف رہے جس کے نتیجہ میں پارٹی میں کئی دھڑے وجود میں آچکے ہیں۔ درحقیقت مسلم لیگ کے قائد نواز شریف خوشامدپسند واقع ہوئے ہیںجس کے پیش نظر پارٹی کے ورکرز کابکھر جانا قدرتی امر ہے۔دو ماہ قبل پارٹی کے مخصوص ورکرز کا کنونشن بلانے سے پارٹی اتحاد برقرار رکھنے کا مقصد قطعی طور پر پورا نہیں ہو سکتا۔چند روز قبل ورکرز کے ایک اجلاس میں پارٹی کے ان عہدے داروں کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی جو عشروں سے پارٹی کے ساتھ چل رہے تھے۔تازہ ترین صورتحال میںراولپنڈی میں مسلم لیگ کئی دھڑوں میں منقسم ہو چکی ہے ایک دھڑے کو حنیف عباسی اور دوسرے کو ملک ابرار اور تیسرے کو سجاد خان کی حمایت حاصل ہے۔ہمیں یاد ہے گذشتہ
انتخابات کے عین موقع پر حنیف عباسی کے عدالت سے سزایاب ہونے کے بعد مسلم لیگ کا ٹکٹ لینے کیلئے کوئی تیار نہیں تھا ایک پرانے ورکر سجاد خان کو این اے 60کاٹکٹ دے کر میدان میں اتارا گیا۔ پنجاب میں نگران حکومت کسی نہ کسی حوالے سے مسلم لیگ نون کی حمایت یافتہ ہے اس کے باوجود راولپنڈی میں مریم نواز ورکرز کنونشن سے لیاقت باغ میں خطاب کرنے کی بجائے مسلم لیگ نون کے سابق رکن اسمبلی ملک ابرار کے حلقے میں کسی جگہ خطاب کریں گی حالانکہ جس طرح مسلم لیگ کے رہنما عوامی حمایت کے دعوے کرتے ہیں اس لحاظ سے مسلم لیگ کی چیف آرگنائزر کو لیاقت باغ میں جلسہ سے خطاب کرنا چاہیے تھا۔ مریم نواز وطن لوٹیں تو راولپنڈی سے ماسوائے سجاد خان اور ان کے چند ساتھیوں کے مسلم لیگ کا کوئی عہدے دار ان کے استقبال کیلئے لاہور نہیں گیا۔راولپنڈی میں سجاد خان کو مسلم لیگ نون کے سابق رکن اسمبلی ملک شکیل اعوان اور مراز منصور بیگ جیسے پرانے مسلم لیگیوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے جبکہ دوسرا دھڑا ملک ابرار اور تیسر دھڑا حنیف عباسی اس کے چند ساتھیوں پر مشتمل ہے ۔قابل ذکر پہلو یہ ہے گذشتہ انتخابات میں مسلم لیگ کے صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار بیس سے تیس ہزار ووٹوں کے مارجن سے شکست سے دوچار ہوئے تھے جو اس امر کا غماز ہے کہ راولپنڈی میں مسلم لیگ عوام کی حمایت سے محروم ہو چکی ہے۔تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت میں مسلم لیگ کے وزیراعظم شہباز شریف کے دور میں عوام کو خصوصاً ہوشربا مہنگائی کا جو سامنا ہے اس سے بہت کم امید کی جا سکتی ہے قومی اسمبلی کے ضمن الیکشن میں مسلم لیگ کا کوئی امیداور کامیابی سے ہمکنار ہو سکے گا۔مریم نواز نے مسلم لیگ کو راولپنڈی میں مضبوط کرنا ہے تو اس مقصد کیلئے انہیں پارٹی کی تنظیم نو کرکے خوشامدی ٹولے سے عہدے واپس لے کر پارٹی کے ساتھ مخلص اور کام کرنے والے ورکرز کوآگے لانا ہوگا۔اگر موجودہ صورت حال برقرار رہی تو 2013 اور 2018 کے انتخابات والی صورتحال برقرار رہے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button