ColumnZameer Afaqi

عوام کو مر ہی جانا چاہیے؟ ۔۔ ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

معاشروں میں پیدا ہونے والی ٹینشن جس کی بنا پر معاشرے انتشار کا شکار ہو کر تنزلی کی طرف گامزن ہوتے ہیں، کی پوری دنیا میں دو ہی وجوہات سامنے آئی ہیں جس میں پہلے نمبر پر معاشی ابتری اور دوسرے نمبر پر تخلیقی صلاحیتیوں کے ساتھ سوچ و فکر کے استعمال پر پابندی، معاشی فروانی نہ ہو تو معاشروں کی کیا حالت ہوتی ہے یہ بتانے کیلئے کسی ارسطو کی ذہانت کی ضرورت نہیں اور جس معاشرے یا ملک کے افراد میں تخلیقی صلاحیتوں اور غور و فکرپر پابندی لگا دی جاتی ہے یا رکاوٹیں پیدا کر دی جاتی ہیں وہاں کی اوسط ذہانت سیاسی اشرافیہ کی صورت بھگتنی پڑتی ہے جو قوم پر مسلط ہوکر اس کا جینا حرام کر دیتی ہے جن کا وژن دنیا بھر کی ذہانت کے ترازو میں تلنے کیلئے ڈالا ہی نہیں جاتا۔پاکستان کن مشکلات کا شکار ہے ،کیا ہونا چاہیے ،دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہے، کیا کرنا چاہتی ہے یہ ہمارے اجتماعی مسائل ہی نہیں ، پاکستان کی قیمت پر سیاست کرنے والے یہ عمومی سیاستدان قوم پر گناہوں کی سزا کے طور پر مسلط ہیں۔جو فہم و ادراک سے تو عاری ہیں ہی، جنہیں اس بات کا بھی احساس نہیں کہ عام آدمی ان کی حرکتوں کی وجہ سے کن حالات کا شکار ہو چکا ہے۔
پاکستان کے عوام کی قیمت پر سیاست کرنے والے سیاستدان ان مفلوک الحال کروڑوں پاکستانیوں کے حق میں آواز اس لیے نہیں اٹھاتے کہ ان کے حق کیلئے آواز بلند کرنے سے انہیں نہ ہی شہرت ملے گی اور نہ پیسہ، حالانکہ اس وقت وہی سیاسی جماعت عوام میں اپنی وقعت اور ہمدردی پیدا کر سکتی ہے جو عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے اس کے حقیقی مسائل کے خلاف صرف ’عوام کی آواز‘ بن کر باہر نکلے ورنہ سیاسی جماعتوں کا انجام کوڑے دان بنتا نظر آرہا ہے۔
تمام قابل ذکر اخبارات، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا دہائی دیتے ہوئے بتاتا ہے کہ پاکستان کے اندرگزشتہ چند ہفتوں کے دوران درجنوں افراد نے غربت ،بے روزگاری اور بیماری کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشی کی ہے اور جن کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے ، غربت بے روزگاری اور بیماری کا ڈرون ان سیاستدانوں کی ہر احتجاجی تحریک جلسے جلوس کے نتیجے میں مفلوک الحال پاکستانیوں کے گھروں اور زندگیوں میں ہر روز گرتا ہے ،مگرسستی
شہرت کے بھوکے سیاستدانوں کو پاکستان کے کروڑوں بھوکے نظر نہیں آتے ۔ ملک بھر میں محولہ بالا وجوہات کی بنا پر خود کشی کرنے والے افراد کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے جن میں زیادہ تعدادخواتین کی ہوتی ہے جو مختلف وجوہات کی بناپر زندگی سے منہ موڑلیتی ہیں جبکہ اس وقت مہنگائی کے جس منہ زور طوفان کا سامنا عوام کو کرنا پڑ رہا اس نے عوام سے جینے کی امنگ بھی چھین لی ہے جس کے بارے خود حکمران کہتے پھر رہے ہیں کہ ہم عوام کی چیخیں نکلوائیں گے یہ بھی پاکستانی کی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایک طرف حکمران عوام کی چیخیں نکلوا رہے ہیں تو دوسری طرٖف اپنے ساتھ ہونے والے ریاستی جبر کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو زندان کے نذر کیا جارہا ہے کیا مہذب معاشروں کے حکمرانوں کا یہ طرز حکومت ہوتا ہے؟۔
پاکستانی عوام کے المیوں کی نشاندہی کرنے والے بتاتے ہیں کہ پورے پاکستان میں ساٹھ فیصد سے زائدگھر یا خاندان ایسے ہیں جو غربت، وسائل کی کمی یا کسی اور وجہ سے کھانے پینے کے اشیا ء تک رسائی نہیں رکھتے اور یوں مناسب خوراک سے محروم رہتے ہیں بلکہ گزشتہ دنوں ایک رپورٹ کے مطابق ہزاروں لاکھوں خاندانوں نے جسم و جان کا رشتہ قائم رکھنے کیلئے اپنی گھریلو اشیا کو فروخت کرنا شروع کر دیا ہے ۔ ایسے گھرانوں یا افراد کو غذائی عدم تحفظ کا شکار کہا جاتا ہے۔یعنی ساٹھ فیصد پاکستانیوں کو مناسب خوراک کی فراہمی نہیں ہو پاتی۔ جس کا ان کی زندگیوں پر کیا اثر پیدا ہوتا ہے کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ غذائی کمی کے شکار بچوں میں اسٹنٹنگ ( عمر کے لحاظ سے چھوٹا قد) اور ویسٹنگ ( قد کے لحاظ سے کم وزن) اور خوراک کے دیگر چھوٹے چھوٹے اجزا ( مائیکرونیوٹرینٹ) کی شرح بہت کم ہوجاتی ہے۔ ملک میں )پانچ سال سے کم عمر( بچوں کی 35 فیصد تعداد کا تعلق غذائیت کی کمی سے ہے جبکہ اگر یہ شرح صرف 15 فیصد سے اوپر ہوجائے تو اسے عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) کے تحت قومی ہنگامی حالت یا ایمرجنسی کہا جاتا ہے۔
کوئی بھی حکومت اپنے عوام سے لاتعلق ہو کر زیادہ عرصہ قائم نہیں رہتی حکومت کی لاتعلقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ منڈی کی قوتوں کو مکمل آزادی ہے کہ وہ جو چاہے من مانی کرتی پھریں انہیں کوئی نہیں پوچھے گا یہی وجہ ہے کہ یہاں اشیاء ضروریہ کی قیمتیں بڑھ تو جاتی ہیں لیکن پھر نیچے نہیں آتیں ذرا پڑوسی ملک کی ہی مثال لیجئے جہاں پیاز جیسی عام سے سبزی عوام کی پہنچ سے باہر قیمت کے باعث 1998 میں بی جے پی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور اسکی بڑھتی ہوئی قیمت نے ہندوستانی حکومت کی دوڑیں لگوا دی تھیں لیکن پاکستانی عوام سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کے سبب دور ہوتے جارہے ہیں مگر حکومت کو خبر ہی نہیں بلکہ یہاں کسی چیز کی کمی پیدا ہوجائے جیسا کہ ٹماٹر کی ہوئی تھی تو حکمران بڑی ڈھٹائی سے یہ کہتے دکھائی دیئے کہ ٹماٹر نہ کھانے سے کون سی موت واقع ہو جاتی ہے، جس حکومتی اشرافیہ کا مائنڈ سیٹ ایسا ہو اس سے کس بھلائی کی توقع کی جاسکتی ہے جبکہ عمرانی حکومت کے نزدیک مہنگائی سے عوامی بربادی اور تباہی سے بھی بڑا مسلہ اپنے مخالفین کو ’’ ُتن کے رکھنا ہے‘‘ عجب عوام دشمن حکومت ہے کہ ابھی خوراک کی قیمتوں کا ہی ماتم ختم نہیں ہوتا کہ دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کی بھی خبر سامنے آجاتی ہے ،اب بیمار ہونے سے پہلے بھی کیلکولیٹر سامنے رکھ کر حساب لگانا پڑا کرے گا کہ دواؤں کی قیمتوں میں مجوزہ اضافہ لوگوں کو عام بخار اور فلو کی گولیاں بھی خریدتے ہوے سوچنے پر مجبور کر دے گا کہ یہی چار پیسے بچا کر ایک ٹماٹر یا دو آلو خرید لیے جائیں جبکہ گیس بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے بجلی گیس اور پٹرول استعمال کرنے کی نوبت ہی کم سے کم آتی جائے گی ۔ اس پر مستزاد کے تمام ریاستی ادارے ہاتھ دھو کر عوام کے پیچھے پڑ چکے ہیں بندہ جائے تو جائے کہاں ؟ کیا پاکستانی عوام کائنات میں کوئی وقعت رکھتے ہیں؟ کیا یہ وہی انسان ہے جسے خالق کائنات نے واجب التکریم قرار دیا ہے پھر اس کی اتنی بے توقیری پر سب کیوں خاموش ہیں ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button