ColumnImtiaz Ahmad Shad

اسلام میں سُستی اور کاہلی منع ہے ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

دین اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ ایک کامل دین ہے۔ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (سورۃ المائدۃ:3)یہ آیت مبارکہ دین اسلام کے مکمل کئے جانے، نعمت خداوندی کے تمام کئے جانے اور اسلام کے بطور دین پسند کئے جانے کا اعلان خداوندی ہے، جس سے گزشتہ امتوں میں سے کسی کو بھی سرفراز نہیں کیا گیا۔دین اسلام نے انسانی زندگی کے آغاز و انجام کو اس طرح مربوط کر دیا ہے کہ کسی بھی مرحلہ پر تضاد یا خلا کا احساس نہیں ہوتا۔ اس نے ایک طرف انسانی حیات کے ماضی ومستقبل کو آپس میں جوڑا ہے تو دوسری طرف اس کے مادی پہلو کو اس کے روحانی پہلو سے منسلک کیا ہے، یوں اس کے نزدیک قانون ربط کی اساس پر انسانی زندگی استوار ہے،جبکہ دنیا کے مروجہ مذاہب و نظریات میں انسانی زندگی بہت سے خانوں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہے۔اس طرح ان کے ہاں ترقی کا تصور محدود اور یک طرفہ ہے۔چنانچہ کسی کے ہاں ماضی کا تصور ہی بھیانک ہے لہٰذا ترقی کے حوالہ سے ماضی کے تجربات سے استفادہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ کسی کے خیال میں مستقبل کا تصور تباہی و زوال کی علامت ہے اس لیے ماضی کو اپنی تمام ترفرسودگی سمیت سینے سے لگائے رکھنا ہی ترقی کی نشانی ہے۔کسی کی فکر میں مادی زندگی بے کار اور بے اعتنائی کے قابل ہے ،یوں روحانی اسرارورموزہی ترقی کا نشان ہیں۔ اور کسی کے نظریہ میں روحانیت، توہماتی سوچ کا نتیجہ ہے گویا ان کی نظر میں مادیات سے ہٹ کر سوچنا ہی رجعت پسندی کا آئینہ دار ہے۔ایسے میں جب ترقی کے اسلامی تصور پر غور کیا جائے تو وہ اپنے اندر جامعیت اور کمال کی شان رکھتا ہے کہ اس نے حیات انسانی کی ہر پہلو سے ترقی کو مد نظر رکھا ہے۔ لہٰذا اگر اس کے کسی پہلو کو بھی نظر انداز کر دیا جائے تو یہ کمال دین کے منافی ہو گا بسااوقات مادی ترقی کیلئے جدوجہد کی یہ کہہ کر نفی کی جاتی ہے کہ ہر جاندار کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے، لہٰذا اس کیلئے کسی جدوجہد کی ضرورت نہیں بلکہ انسان کو صرف مخصوص اعمال و عبادت میں اپنے اوقات صرف کرنے چاہئیں۔ مگر یہ موقف انتہائی سطحی درجہ کا ہے کیونکہ رزق بذمہ خدا ہونے کا واضح مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اسباب حیات پیدا کئے ہیں اور ان وسائل رزق میں سب کا حصہ مقرر کیا ہے، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے: وَلَقَدۡ مَكَّـنّٰكُمۡ فِى الۡاَرۡضِ وَجَعَلۡنَا لَـكُمۡ فِيۡهَا مَعَايِشَ ؕ قَلِيۡلًا مَّا تَشۡكُرُوۡنَ۔ اور یقیناً ہم نے تم کو زمین میں قرار دیا اور تمہارے لیے ا س میں سامانِ زندگی رکھ دئیے)
قرآن حکیم نے تکریم انسانیت کے اعزاز و فضیلت کے ساتھ جن امتیازی پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی ہے، وہ مادی ترقی سے ہی تعلق رکھتے ہیں یعنی سمندروخشکی پر آمدورفت کا سفری اور بار برداری کا نظام، پاکیزہ اشیاء کی فراہمی اور تخلیقات خداوندی کی اکثریت پر برتری اور فوقیت ۔ چنانچہ انسان نے مادی ترقی کے ذریعہ حمل و نقل کے ذرائع میں جدت پیدا کر لی ہے،وہ زمین کے خزانوں سے بہتر طور پر استفادہ کر رہا ہے، اور اس نے نہ صرف بحری و بری برتری قائم کر لی ہے بلکہ فضا و خلا سے بھی متنوع فوائد حاصل کر رہا ہے۔جبکہ ان وسائل تک رسائی اور مزید اسباب حیات کی تلاش، ان سے زیادہ سے زیادہ اور بہتر استفادہ کی حکمت عملی ترتیب دینا تو انسان کے ذمہ ہے جیسے بہترین بیج و عمدہ کھاد کی تیاری، زرعی و صنعتی آلات کی فراہمی، جدید ٹیکنالوجی اپنانا وغیرہ، اسی بنا پر قرآن حکیم نے رزق خداوندی کی جستجو اور جدوجہد کا یہ کہہ کر حکم دیا ہے:۔
فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ( اللہ تعالیٰ کے ہاں رزق تلاش کرو)۔سستی اور کاہلی کا اہل ایمان کے ہاں تصور نہیں،بد قسمتی سے آج ہماری معیشت،زندگی کا تصور اور مستقبل کی تڑپ ان کے ساتھ جڑی ہے جن کے بارے میں قرآن کریم نے واضح پیغام دیا کہ وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِهِمْۚ-لَاتَعْلَمُوْنَهُمْۚ-اَللّٰهُ یَعْلَمُهُمْؕ- وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یُوَفَّ اِلَیْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ(۶۰)( اور ان (دشمن) کے مقابلہ کیلئے جتنی طاقت حاصل ہوسکے اور بندھے ہوئے گھوڑوں کی تیاری کرو کہ اس سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو مرعوب کر سکو)۔اگر ہم ترقی کے اسلامی تصور کو نہ بھولے ہوتے تو آج ہر جگہ مسلمانوں کی گردنیں نہ کاٹی جارہی ہوتیں ، اور نہ ہی انہیں غلامی کا سامنا ہوتا۔ افسوس جس کو ہم ترقی کا راز سمجھ بیٹھے ہیں وہ سوائے اغیار کے دھوکے اور مکاری کے کچھ نہیں۔کیا یہ ممکن ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈبینک سے سود پر قرضے لیے جائیں،خیرات اور صدقات کی مد میں دنیا سے
اشیائے ضروریہ وصول کر کے قوم کا پیٹ پالا جائے اور دعوے فلسطین کو آزاد کروانے اور اقوام عالم میں رہبری کے کیے جائیں؟ آدھا تیتر آدھا بٹیر کے مصداق یہ ممکن ہی نہیں کہ دعوے اسلام کے اور رہن سہن کفار سا۔خالق کائنات نے جب تکمیل دین کے حوالے سے آیات نازل فرمائی تو اس میں اپنی تمام نعمتوں کی تکمیل کا بھی ذکر کیا۔ اب ان نعمتوں کو بروئے کار لانا اور ان سے استفادہ حاصل کرنا تو اہل ایمان کا کام ہے۔جب ہم اس حقیقت سے منہ موڑ لیں گے اور اپنی نالائقیوں اور کمزوریوں کو چھپانے کیلئے فقط اس بات کا سہارا لیں گے کہ رزق کامعاملہ اللہ کے ہاں ہے تو یقینا ہم قرآن مجید کے اس پیغام کی نفی کریں گے کہ فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَاللہ نے اسباب حیات پیدا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ،اسباب حیات کی تلاش اور جستجو تو ہر قیمت پر آپ کو خود ہی کرنا ہو گی۔پاکستان میں یہ رواج عام ہے کہ محنت کر کے دولت کمانے والوں کو بڑی آسانی سے دولت کے پجاری کہہ دیا جاتا ہے جبکہ کمزور طبقہ بجائے محنت کر کے رزق تلاش کرنے کے دوسروں کو برا بھلا کہتا رہتا ہے۔یہی حال امت مسلمہ کا ہے کہ اسلامی معاشی تصور کو اپنانے کے بجائے ہر انسانی ترقی کو یہود و ہنود کی سازش قرار دینے میں اپنی عافیت تصورکی جاتی ہے۔ خدا کے بندو یہ ممکن ہی نہیں کہ گٹر میں مدھانی ڈال کر مکھن نکالا جائے۔مکھن کے حصول کیلئے آپ کو دودھ کی چاٹی میں ہی مدھانی ڈالنی ہو گی۔اگر اپنی معیشت ٹھیک کرنی ہے تو اسلامی معاشی تصور کو ہی اپنانا ہو گا،مت بھولو دوسرا کوئی نظام نہیں۔اسلام کے برعکس جو نظام ہے وہ تو اللہ تعالی فرما چکے کہ یَا أَیُّہَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیمِ ۔لہٰذا جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پر اسلامی طرز معیشت کو اپنانے میں ہی نجات ہے، جلد یا بدیر ہمیں اسی کی طرف لوٹنا ہو گا۔وگرنہ یاد رہے آئی ایم ایف کے گرد طواف کرنے سے کسی صورت بھی ترقی اور خوشحالی نے آپ کے دروازے پر دستک نہیں دینی۔دنیا میں ایسی کسی قوم کی مثال نہیں ملتی جو ہاتھ میں کشکول لے کر نکلی ہو اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے بام عروج کو جا پہنچی ہو۔بدقسمتی سے وطن عزیز کو جنہوں نے درست سمت کی جانب لے کر جانا ہے وہ خود ہی بے سمت ہیں،ابھی وقت ہے اسلام کے برعکس نظام کو چھوڑ کراسلامی نظام کو مکمل طور پر اپنانا ہو گا،ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button