ColumnNasir Naqvi

پرواز .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

اردو ادب میں بہت کچھ ہو رہا ہے کہانی، افسانہ، ناول، سفرنامے ۔ سب کچھ لکھا جا رہا ہے شعرو شاعری کا زور کچھ زیادہ ہی ہے لیکن ادب میں بے ادبوں کا مجمع بھی خوب ہے۔ مصلحت پسند ی میں کوئی انہیں منتشر کرنے کو تیار نہیں، فساد پھیلنے کا بھی خطرہ ہر وقت لاحق رہتا ہے لہٰذا اکثر لوگ ڈیڑھ اینٹ کی اپنی اپنی مسجد میں خوش ہیں۔ جن لکھاریوں اور تخلیق کاروں کی پذیرائی ہونی چاہیے ہم انہیں نظر انداز کرنے کی منفرد صلاحیتیں رکھتے ہیں اور جن کا ادب سے واسطہ نہیں، ان کی لنگڑی لولی تحریروں کی نوک پلک درست کر کے انہیں سر پر بٹھا لیتے ہیں اس لیے کہ ایسے لوگ موج میلہ اور مستی میں بھری جیبوں سے ناموری پیدا کرنے کی خواہش میں وارد ہوئے ہیں، ویسے بھی حقیقی ادیب اور شاعر کا اوڑھنا بچھونا ہی مفلسی کے کیمپ اور چادر تلے ہوتا ہے۔ بھرے پیٹ اچھا اور معیاری ادب خال خال ہی نکلتا ہے کیونکہ وہ گیس اور بدہضمی کا ڈیرہ ہوتا ہے پھر بھی آپ اس کیفیت کو بنیاد یا معیار نہیں بنا سکتے، کیونکہ مارشلائی دور اور پابندیوں کے باوجود وہ کچھ پڑھنے، دیکھنے اور سننے کو ملا جس کی تعریف نہ کرنا بھی بے ادبی کہلائے گی۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری فہم و فراست کسی بھی سطح کی ہو، ہم شہرت کی بلندیوں کے لیے پرواز اونچی رکھنے کے قائل ہیں خواہ پرواز بھرتے ہی منہ کے بل کیوں نہ گر جائیں؟ آپ میری باتوں سے اتفاق کریں یا کہ اختلاف، رائج وقت کچھ ایسے ہی حالات ہیں خالص ادب میں بھی ملاوٹ کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم کتاب کے متوالے ہونے کے باوجود کتاب دوست اس لیے نہیں کہ ’’اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘ لیکن ادب نواز منصور آفاق کا دعویٰ ہے کہ آج کتاب پہلے سے زیادہ پڑھی جا رہی ہے لیکن خرید کر نہیں، انٹرنیٹ پر،یہ حقیقت ہے کہ نہیں، تاہم لکھاری اور تخلیق کار کے لیے بہت بڑی حوصلہ افزائی یقینی ہے۔ میری ’’جمع تفریق‘‘ میں زندگی کی طرح قلم بھی چلتا رہنا چاہیے کیا اچھا ہے کیا بُرا؟ اس کا فیصلہ زمانے پر چھوڑ دیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو لکھنے والے تنقید کا نشانہ بنے انہوں نے تعریفی لکھاریوں سے زیادہ اچھا کام کیا ہے،میں سمجھتا ہوں کہ اچھی پرواز کے لیے اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے اور جس نے اعتماد کے ساتھ پرواز بھری، اس کے پائوں کامیابی نے ضرور چومے ہیں۔
چند روز پہلے کی بات ہے کہ ہم بزم اقبال لاہور میں ملک کے ممتاز شاعر فرحت عباس شاہ کے پاس بیٹھے تھے کہ اچانک وہاں ظہیر بدر صاحب تشریف لے آئے۔ ان کے ہمراہ محترمہ نبراس سہیل اور صائمہ ملک بھی تھیں۔ ابتدائی گفتگو کے بعد پتا چلا نبراس سہیل نے ایک معرکتہ الآرا نوبل انعام یافتہ ناول ’’فلائٹس‘‘ کو اردو میں ڈھالا اور وہ ان دنوں متحدہ امارات سے لاہور اس کی تعارفی تقریب کے لیے آئی ہیں۔ باتوں باتوں میں محترمہ نے ’’ادبی چائے خانہ‘‘ بزم اقبال کی تعریف کی اور خواہش کا اظہار کیا کہ میں چائے خانہ کے آرٹسٹک ماحول سے بے حد متاثر ہوئی ہوں اگر منصور آفاق ڈائریکٹر بزم اقبال اجازت دے دیں توپرواز کی تقریب رونمائی اسی چائے خانہ میں ہو گی۔ اسی دوران معروف شاعر احتشام حسن بھی آ دھمکے۔ انہیں دیکھ کر نبراس کھل اٹھیں، تھوڑی دیر میں پتا چلا، احتشام اور نبراس کے شریک حیات سہیل صاحب بچپن کے ساتھی ہیں۔ فرحت عباس شاہ نے فوراً ایک سادہ کاغذ پر نبراس سہیل سے درخواست لکھوائی اور منصور آفاق صاحب کی غیر موجودگی میں اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے انہیں فوراً تقریب کی اجازت دے دی۔ فرحت عباس شاہ کا کہنا تھا یہ سب کچھ میں نے اس لیے فوری طور پر کر دیا کہ بزم اقبال کی ذمہ داری ہی لکھاریوں اور تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی اور سہولت کاری کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا منصور آفاق کا حکم بھی یہی ہے تاکہ ہم ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ کر کے ایک ادب دوست ماحول بنا کر بلا امتیاز
اپنے تخلیق کار کی عزت افزائی کر سکیں، پھر ایسا ہی ہوا۔ شرکاء کی بڑی تعداد نے دیکھا کہ ایک پُروقار اور منفرد تقریب منصور آفاق کی صدارت میں منعقد ہوئی، نعمان سعید مہمان خاص تھے۔ نظامت ظہیر بدر نے کی، صائمہ ملک نے’’پرواز‘‘ سے اقتباس سنایا اور مترجمہ نبراس سہیل کی شخصیت کا خاکہ پیش کیا۔ فرحت عباس شاہ نے بزم اقبال کی جانب سے شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور صاحب کتاب کو مبارک باد دی۔ پروفیسر شفیق احمد خاں، احتشام حسن، ندیم چودھری، ڈاکٹر غافر شہزاد، پروفیسر سعدیہ بشیر، رائے عرفان، عدنان آصف بھٹہ اور دیگر نے نوبل انعام یافتہ ناول ’’فلائٹس‘‘ اور’’پرواز‘‘ کا تنقیدی اور تعریفی جائزہ پیش کیا۔ اکثریت کی رائے تھی کہ نبراس سہیل نے انتہائی محنت اور ذمہ داری سے ایک باصلاحیت مترجم کی ذمہ داری نبھائی۔ اس کارنامے پر وہ مبارک باد کی مستحق ہیں۔ مقررین کا کہنا تھا کہ دنیائے ادب میں روسی، چینی، فرانسیسی، جرمن اور مختلف زبانوں کے معروف ناولوں کے ترجمے کیے گئے ہیں لیکن نبراس سہیل 2018ء کے ناول کا ترجمہ اس قدر جلد اردو ادب میں لے آئیں یہ بہت بڑا کارنامہ ہے بلکہ اردو ادب پر ان کا احسان ہے۔ اس طرح کی سرگرمیوں سے ہم اور ہمارے ادب دوست غیر ممالک کی تہذیب و تمدن سے روشناس ہوں گے،لہٰذا اس قسم کی کوشش جاری رہنی چاہیے۔ نبراس اس سے پہلے افسانوں اور کہانیوں کو مختلف زبانوں سے ترجمہ کر چکی ہیں۔ اس لیے ان کے انداز میں اصلی ناول کی چاشنی، معاشرتی ماحول کے ساتھ ساتھ اپنی زبان اردو کی روانی، جملوں اور محاوروں کے ذریعے خوبصورت انداز میں موجود ہے۔ آخر میں نبراس سہیل نے ’’پرواز‘‘ کے حوالے اورانتخاب سے متعلق حقیقت سے آگاہ کیا کہ انہوں نے ’’فلائٹس‘‘ کو ترجمہ کے لیے کیوں منتخب کیا؟ ان کا کہنا تھا یہ دورِ جدید کا ایک بین الاقوامی انعام یافتہ ایسا ناول ہے جس میں پاکستانیوں کو اپنے ناولوں کی طرح ہیرو، ہیروئن تو نہیں ملیں گے لیکن اس میں ناول، افسانہ، کہانی، ماحولیاتی منظرنامہ، خطوط یعنی ادبی قوس قزح کے تمام رنگ ضرور ملیں گے۔ اس میں مختلف موضوع مختصر اور کچھ تفصیل سے پائے جائیں گے کیونکہ یہ زندگی کے سفر کے حقیقی رنگ ہیں انہوں نے بزم اقبال، منصور آفاق، فرحت عباس شاہ اور دیگر انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہاں جس انداز میں مجھے پذیرائی ملی وہ میری توقعات سے بڑھ کر ہے یقیناً یہ حوصلہ افزائی میرے قلم کو تقویت بخشے گی۔
اس یادگار اور منفرد تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ 23جنوری کو ملک بھر میں بجلی ناپید تھی پھر بھی تقریب مغرب کے بعد تک اندھیروں میں جاری رہی اور شرکاء کی دلچسپی کسی لمحے کم نہ ہوئی۔ اس لیے کہ یہ اندھیروں میں اجالوں کے سفر کو جاری رکھنے کی ترغیب تھی۔ نوبل انعام یافتہ 1962ء میں پولینڈ میں جنم لینے والی مصنفہ اولگاتکارچک کم عمری میں ہی اپنے ملک کی ہردلعزیز مصنفہ بن گئی تھیں۔ 2015ء میں انہیں ’’بکر پرائز‘‘ سے نوازا گیا اور حکومت نے سالانہ ادبی ایوارڈ بھی دیا۔انہیں پولینڈ کے اعلیٰ ترین ایوارڈ ’’نائیکی اور نائیکی ریڈر‘‘ بھی مل چکے ہیں اور ’’فلائٹس‘‘ پر بھی اس اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا۔ ’’اولگا تکارچک‘‘ آٹھ ناولوں کے علاوہ دو افسانوی مجموعات کی خالق ہیں جن کا ترجمہ ایک درجن سے زائد زبانوں میں کیا جا چکا ہے، جبکہ نبراس سہیل متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے فیڈرل بورڈ سے منسلک ایک تعلیمی ادارے جی ایم انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں بطور پرنسپل خدمات انجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے 2006ء میں دبئی میں انگلش لیکچرار کی حیثیت سے تدریسی سلسلہ شروع کیا تاہم وہ 1995ء سے ریڈیو پاکستان بہاولپور اور لاہور سے صدا کاری، نیوز کاسٹر اور بطور کمپیئر اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں بطور مترجم ان کے کئی انگریزی اور امریکی افسانوں کے ترجمے ان کی ایک مضبوط پہچان ہیں۔ میرے مطابق ’’فلائٹس‘‘ کا انتخاب نبراس سہیل نے بین الاقوامی اخبارات کے تبصروں اور تجزیوں سے متاثر ہو کر کیا، تاہم ان کی جیت یہ ہے کہ قریباً پانچ سو صفحات پر مبنی اس ناول کو کم وقت میں بہترین اور مربوط انداز میں اردو ادب کا حصہ اس انداز میں بنایا کہ ناول کی اصل روح کے ساتھ جگہ جگہ پاکستانی رنگ اور انگ بھی موجود ہے اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مترجمہ کی ادبی لگن، محنت اور زبان و بیان پورے ناول میں نہ صرف نمایاں ہے بلکہ اسے پہلے سے موجود ناولوں سے منفرد بھی کرتا ہے، اسی لیے برطانوی اخبار گارڈین یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ پرواز میں موضوعات کی رنگارنگی کی صورت، بامعنی ربط کی ایک بھرپور اور سحر انگیز ترغیب موجود ہے۔ خطے کے تمام ہوٹلز کو چاہیے کہ وہ بیڈ کی سائیڈ ٹیبلز پر پرواز کی موجودگی کو یقینی بنائیں کیونکہ موجودہ جنونی دور میں اس کتاب سے بہتر کوئی ہم سفر نہیں ہو سکتا۔ ’’پرواز‘‘ کو ’’عکس پبلی کیشن‘‘ نے بڑے خوبصورت انداز میں شائع کیا ہے جس کا جاذب نظر ٹائٹل ہمایوں اعظم نے بنایا ہے۔ اس بہترین کاوش کے بعد امید ہے کہ نبراس سہیل اپنا سفر جاری رکھیں گی اگر وہ اسی طرح ثابت قدم رہیں تو یقیناً اردو ادب میں ایک ذمہ دار اور خوبصورت مترجم کا اضافہ ہمارے اور اردو کے لیے باعث فخر بنے گا۔ یہ بات بھی انتہائی خوش آئند ہے کہ بزم اقبال نے جس انداز میں مترجمہ نبراس سہیل کے اعزاز میں ایک خوبصورت محفل سجائی وہ دوسرے اداروں کے لیے باعث تقلید ہے۔ کاش ایسا رویہ دوسرے قومی ادارے بھی اپنا لیں تاکہ ہمارے تخلیق کاروں کی بہت سی محرومیوں کا نہ صرف ازالہ ہو جائے بلکہ ان کی خداداد صلاحیتوں کو جِلا مل جائے کیونکہ یہی قلمکار معاشرے اور ریاست کی حقیقی آنکھیں ہوتے ہیں اور قوموں کو ایک حد تک ان کی تہذیب کے ساتھ ادبی سرگرمیوں اور تخلیق کردہ ادب سے بھی پہچانا جاتا ہے گو ہمارے ادب میں کائنات کی حقیقی تخلیق کار عورت کی کمی نہیں لیکن موجودہ دور میں اس کی پذیرائی کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ شاید اسی ذمہ داری کو منصور آفاق اور فرحت عباس شاہ نے بزم اقبال کے حوالے سے بطریق احسن نبھایا ہے جس کے لیے سب کے سب داد و تحسین کے مستحق ہیں۔ مترجمہ نبراس سہیل کو ان کی پہلی اور خوبصورت تخلیق ’’پرواز‘‘ مبارک ہو۔ یہ اردو ادب اور اردو پڑھنے والوں پر احسان عظیم سے کم نہیں۔ نبراس کا مطلب روشنی، دیا، چراغ ہے لہٰذا مترجمہ نے اردو ادبی دنیامیں ایک خوبصورت روشنی دکھا دی، دیا جلا دیا اور امید ہے کہ اب چراغ سے چراغ روشن ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button