ColumnMazhar Ch

آئی ایم ایف، معیشت اور انتخابی سیاست .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

 

خبر ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف)کو نواں جائزہ مکمل کرنے کا پیغام دے دیا ہے۔اگست 2022میں آئی ایم ایف نے بیل آئوٹ پروگرام کے ساتویں اور آٹھویں جائزے کی منظوری دے تھی جس کے تحت پاکستان کو ایک ارب سولہ کروڑ ڈالر کی دو اقساط بیک وقت ملی تھیں ۔نئی قسط کے اجراء سے قبل نویں جائزے کی منظوری ضروری ہے جس کیلئے حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین پچھلے چند ماہ سے بات چیت جاری ہے۔ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے نئی قسط کے اجراء سے پہلے حکومت سے بجلی پر سبسڈی واپس لینے، گیس کی قیمتوں میں اضافے اور لیٹر آف کریڈیٹ کو بلاک نہ کرنے جیسے متعدد اور مطالبات رکھے تھے لیکن انتخابی سیاست میں گھری حکومت توانائی کی قیمتوں میں اضافے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی تھی۔وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے آئی ایم ایف کو نواںجائزہ مکمل کرنے کے پیغام سے لگتا یہی ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے بیشتر مطالبات تسلیم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔کوئی شک نہیں کہ انتخابی سیاست میں گھری حکومت کو آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم کرنے کی سیاسی قیمت عوامی مقبولیت میں کمی کی صورت میں چکانی پڑ سکتی ہیں تاہم معیشت کی بحالی اور استحکام کیلئے آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل اشد ضروری ہے۔آئی ایم ایف پروگرام کی اہمیت کا اندازہ لگانے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے آئی ایم ایف پروگرام کا نواں جائزہ مکمل کرنے کے اعلان کے اگلے ہی روز سٹاک ایکسچینج میں قریباً 900پوائنٹس کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
واضح رہے کہ موجودہ حکومت نے آتے ہی آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرایا تھا جس کیلئے اسے سابقہ عمران حکومت کی جانب سے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرنی پڑی تھی۔بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کرنے کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کا طوفان آ گیا تھا جس کی سیاسی قیمت حکومتی جماعت کو ضمنی انتخابات میں شکست کی صورت میں ادا کرنی پڑی تھی۔اس سے پہلے ایسی ہی سیاسی قیمت پی ٹی آئی حکومت کو آئی ایم ایف پروگرام کے اجراکے بعد چکانی پڑی تھی۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو آئی ایم ایف پروگرام لینے کیلئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ روزمرہ اشیاء کی چیزوں پر ٹیکسز لگانے پڑے تھے جس کے نتیجے میں مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ ہوا ۔مہنگائی میں اضافے کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے
کارکنوں نے بھی اس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے’’گھبرانے کی اجازت‘‘مانگ لی تھی۔ یہ سب بیان کرنے کا مقصد اس کے سواکچھ نہیں کہ ہمارے جیسے شدید معاشی مشکلات کے شکارملک کو آئی ایم ایف سے مخصوص شرائط کے تحت ہی قرض ملتا ہے۔1988 سے پہلے پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین ہونے والے معاہدے قلیل مدتی بنیادوں پر ہوتے تھے جن میں عمومی طور پر قرض معاشی اصلاحات سے مشروط نہیں ہوتے تھے تاہم اس کے بعدسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرامزشروع ہو گئےجو ایسے پروگرامز ہوتے ہیں جن میں قرض دینے والا ادارہ شدید معاشی مشکلات کے شکارقرض حاصل کرنے والے ممالک کو مخصوص شرائط کے تحت نیا قرض دیتا ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق معیشت کی بحالی اور استحکام کیلئے جہاں ایک طرف ملکی کرنسی کو مارکیٹ کی بنیاد پر لانے جیسے سخت معاشی فیصلوں کی ضرورت ہے وہیں دوسری طرف آئی ایم ایف پروگرام کو اس کی تکمیل تک جاری رکھنا بھی ناگزیر ہے۔آئی ایم ایف پروگرام کی مکمل بحالی اور تکمیل نہ ہونے کی صورت میں دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ دوست ممالک کے مالی تعاون کا حصول بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ایک ہفتہ قبل عالمی بینک نے پاکستان کیلئے ایک ارب دس کروڈ ڈالر کے دو قرضوں کی منظوری ملک میں توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں میں اضافے اور ٹیرف پر نظر ثانی نہ کرنے کی وجہ سے اگلے مالی سال تک موخر کر دی تھی۔آئی ایم ایف پر امریکہ،برطانیہ ، چین اور فرانس جیسے بڑے ممالک اور عالمی بینک اور پیرس کلب جیسے مالیاتی اداروں کا کنٹرول ہے۔ آئی ایم ایف کے فیصلوں کیلئے کی جانے والی رائے شماری میں ووٹنگ کی غیر مساوی وغیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے اس ادارے پر بڑی معاشی طاقتوں کا مکمل راج ہے۔آئی ایم ایف میں شامل ہر ایک ملک کو ایک ملک ایک ووٹ کا حق ملنے کی بجائے ملک کی جی ڈی پی، زر مبادلہ کے ذخائر اور اور برآمدات و درآمدات کی مقدار کے حساب سے ووٹ ملتے ہیں۔امریکہ ، برطانیہ، چین، فرانس اور جاپان کے مجموعی ووٹ کل ووٹوں کا 40فیصد بنتے ہیں۔ صرف امریکہ کے ووٹ کل ووٹوں کا قریباً18فیصد بنتے ہیں۔سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان سمیت معاشی طور پر دنیا کے20بڑے ممالک کے پا س کل ووٹوں کا قریباً70فیصد حصہ ہے۔بقیہ 165 ممالک کے پاس صرف30فیصد ووٹ ہیں۔معاشی اعتبار سے دنیا کے پہلے 20بڑے ممالک میں صرف ایک مسلم ملک سعودی عرب شامل ہے جس کے3.17ووٹ ہیں۔ بھارت کے پاس قریباً دو ووٹ ہیں ۔
آئی ایم ایف اپنے طور پر بحران کا شکار معیشت کو درست ڈگر پر لانے کیلئے کڑی شرائط عائد کرتی ہے لیکن اکثر اوقات یہ کڑی شرائط قرضے میں جکڑے ہوئے ملک کی معاشی حالت سدھارنے کی بجائے اسے مزید بگاڑنے کا باعث بن جاتی ہیں۔ سود کی شرح بڑھانے سے غربت میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ ٹیکس بڑھانے اور حکومتی اخراجات کم کرنے سے عوامی سہولیات میں کمی آنے سمیت بے روزگاری بڑھتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ قومی اداروں کی نجکاری کی شرط سے بے روزگاری بڑھنے سمیت ملکی اثاثے غیر ملکیوں کے پاس چلے جاتے ہیں۔عالمی سرمائے کی ملک میں آمدورفت سے تما م پابندیاں ہٹانے کے نتیجے میں سٹاک مارکیٹ میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے جبکہ عالمی مالیاتی اداروں کو زیادہ سے زیادہ آزادی دینے سے ملکی صنعتیں مفلوج ہو جاتی ہیں۔آئی ایم ایف کے پیکجز سے اکثر اوقات غریب ممالک کو اتنی رقم قرضے میں ملتی ہے جس سے وہ صرف اپنے موجودہ بیرونی قرضوں کا سود ادا کر سکتے ہیں۔آئی ایم ایف کی جانب سے مسلط کی گئی کڑی شرائط پر عمل درآمد سے ملکی معیشت کو تو کسی حد تک سنبھالا دینا ممکن ہو جاتا ہے تاہم معیشت کویہ سنبھالا مہنگائی اور غربت میں اضافے سمیت عام آدمی کے معیار زندگی میں کمی کی قیمت پر ہی ملتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے چند ایک ممالک آئی ایم ایف کے پیکجز سے اپنی معیشتوں کو بحرانی کیفیت سے نکالنے میں کامیاب ہو چکے ہیں لیکن وہ ہماری طرح نہ تو پچھلی دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف رہے ہیں اور نہ ہی اپنے سے کئی گنا بڑی معیشت (بھارت)سے فوجی اور دفاعی شعبے میں مقابلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button