Ali HassanColumn

ڈونرز کانفرنس اور پاکستان کی معاشی مشکلات ۔۔ علی حسن

علی حسن

ڈونرز کانفرنس اور پاکستان کی معاشی مشکلات

اقوام متحدہ اور پاکستان کی مشترکہ دعوت پر جنیوا میں ڈونرز کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ کانفرنس پاکستان کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ تھی کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں جو بارشیں ہو ئیں اور سیلاب آیا، اس کی وجہ سے پاکستان کا بڑا علاقہ جھیل نظر آنے لگا تھا ، تباہ کن اثرات مرتب ہوئے اور لوگوں کی بہت بڑی تعداد کئی لحاظ سے ابھی تک شدید متاثر ہے، صوبہ سندھ کے تو کئی علاقے ابھی تک زیر آب ہیں۔ وہ زرعی زمینیں جن پرگندم کاشت ہونا تھی، پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ایسی امتحانی صورتحال میں حکومت نے کانفرنس طلب کی۔ اس لحاظ سے کانفرنس کامیاب قرار دی گئی ہے کہ شرکاء کی تعداد موثر تھی۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اگر رقم میں خوردبرد کا خدشہ ہوتا تو 10 ارب ڈالر کا اعلان نہیں ہوتا حالانکہ سیاسی مخالفین نے ہمارے خلاف بدترین پروپیگنڈا کیا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی وزرا کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جنیوا کانفرنس انتہائی کامیاب ثابت ہوئی امداد کے وعدے کیے گئے۔ یہ کامیابی ٹیم ورک کا نتیجہ ہے لیکن گیند اب ہمارے کورٹ میں ہے اور ہمیں ایک ایک پائی کو شفافیت کے ساتھ استعمال کرنا ہے، ایک ایک پائی عوام کی ترقی و خوشحالی اور خدمت میں نچھاور کی جائے گی، سیلاب متاثرین کی دوبارہ آبادکاری تک کوششیں جاری رکھیں گے، متحدہ عرب امارات نے پاکستان کا 2 ارب ڈالر کا قرض رول اوور کرنے جبکہ 1ارب ڈالرز کا اضافی قرض بھی فراہم کرنے کیلئے کہا ہے۔ یہ اطلاعات حوصلہ افزا ضرور ہیں لیکن سر دست معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کو فوری طور پر ریلیف کی اشد ضرورت ہے۔ ڈونرز کانفرنس میں جن رقموں کا اعلان کیا گیا ہے ان کی بھاری تعداد پاکستان کو قرضوں کی صورت میں ملے گی،یہ قرضے منصوبہ بندی کے پیش نظر ہوں گے اور پاکستان کو رقموں کی فراہمی کی مدت تین سال کے دوران ہوگی، دنیا جہان کے ممالک نے پاکستان کی تکلیف کے پیش نظر اظہار یکجہتی اور خیر سگالی کے جزبہ کا مظاہرہ ضرور کیا ہے لیکن سیلاب متاثرین کی بحالی کسی قسم کے انتظار کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
جنیوا کانفرنس میں سیلاب سے متاثرہ پاکستان کیلئے توقعات سے زیادہ امداد کے وعدے، وعدہ کی گئی رقم تجاوز کر گئی، تاہم تلخ حقیقت یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ رقم ملک کو پہلے سے درپیش ڈیفالٹ سے خطرے سے نکالنے میں مدد نہیں دے گی کیونکہ ڈونر کی جانب وعدے کے مطابق ملنے والی رقم سیلاب متاثرین کی بحالی اور انفراسٹرکچر کی بحالی کیلئے خرچ کی جائے گی جس کی مانیٹرنگ خود اقوام متحدہ کرے گا۔ معاشی ماہرین کا کہنا تھا کہ اس سے پاکستان کا معاشی منظر نامہ تبدیل نہیں ہوگا اور نہ ہی اس سے پہلے سے طے شدہ خطرہ ختم ہوگا۔وعدہ کیا گیا عطیہ ملک کو اگلے 10 سالوں میں ایک سخت نگرانی کے نظام کے تحت فراہم کیا جائے گا ، رقم صرف سیلاب متاثرین پر خرچ کی جائے گی۔
عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو مشکل معاشی حالات اور بیرونی قرض کی ادائیگیوں کے شدید خطرات کا سامنا ہے۔ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ یوکرائن روس کی جنگ سمیت کئی وجوہات کے باعث عالمی معیشت کو سست روی کا سامناہے۔عالمی بینک کے مطابق سیلاب کے باعث موجودہ مالی سال پاکستان کی معاشی شرح نمو 2 فیصد رہنے کا امکان ہے، حالیہ بد ترین سیلاب اور سیاسی بے یقینی پاکستان کے مشکل معاشی حالات کی بڑی وجوہات ہیں۔عالمی بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جون سے دسمبر تک ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر 14 فیصد گر چکی ہے۔وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ آئی ایم ایف شرائط پوری کرنے سے مشکلات بڑھیں گی، دوست ملک بھی عالمی ادارے سے معاہدے کے بغیر مدد کیلئے تیار نہیں،ہم ملک دیوالیہ ہونے سے بچانا چاہ رہے ہیں۔ دوست ممالک بھی کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کریں جس کے بعد ہی ہم آپ کی مدد کرسکتے ہیں۔ حکومت کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ ملک ڈیفالٹ نہ ہوجائے ۔ معاشی بحران میں سب سے زیادہ عمل دخل آئی ایم ایف کا ہے، آئی ایم ایف کہہ رہا ہے پٹرول کی قیمتیں بڑھائیں اور سبسڈیز کو ختم کریں۔ آئی ایم ایف کی وجہ سے مہنگائی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی سربراہ سے حکومت کے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ ادارے کی قرض سے متعلق شرائط مکمل کی جائیں گی۔
آٹا کے بحران نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تمام صوبوں میں عوام آٹا کی فراہمی کیلئے مظاہرے کر رہے ہیں۔ عوام کی بھاری اکثریت اپنی خوراک کیلئے آٹا پر ہی انحصار کرتی ہے۔ اس کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ پر سخت رد عمل فطری تقاضہ ہے جسے دیکھ کر صوبہ سندھ میں اضلاع انتظامیہ نے آٹا کی سرکاری قیمت 75 روپے فی کلو کا اعلان کیا اور زیادہ قیمت پر فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا گیا۔ آٹا تلاش کے باوجود ایک سو ستر روپے فی کلو تک میں میسر نہیں تھا لیکن محکمہ خوارک اور انتظامیہ سوئی ہوئی تھی۔ کیا یہ سب کچھ چینی کی طرح پیسہ بنانے کا کارروائی کا حصہ تھا ؟ محکمہ خوارک کے تمام ذمہ دار لوگوں پر سخت الزامات عائد کئے جا رہے ہیں اور وزیراعظم کہتے ہیں کہ گندم کے ذخائر قوم کی ضروریات کے مطابق موجود ہیں، ماضی کی حکومت کی طرح ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر نہیں بیٹھے، ان کے زمانے میں گندم کی پیداوار کم تھی، ہم نے گندم امپورٹ کی ہے۔آٹے کا معاملہ صوبائی معاملہ ہے، افسوس وافر گندم کے باوجود صوبے ذمہ داری ادا نہیں کر رہے ہیں۔ آٹے بحران کا جواب صوبائی حکومتوں سے لینا چاہیے ۔ صوبے مہربانی کریں عوام کی جان پر عذاب نہ ڈالیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button