ColumnJabaar Ch

نون لیگ کی فالٹ لائن۔۔ ۔۔ جبار چودھری

جبار چودھری

نون لیگ کی فالٹ لائن۔۔۔۔

پنجاب میں گزرے چھ ماہ میں نون لیگ کو دوسری مرتبہ شکست ہوچکی ہے۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ میاں نوازشریف اورمریم شکست کے بعد پارٹی رہنماؤں پر برہم ہوئے ہیں حالانکہ انہیں خود پر برہم ہونا چاہیے۔اس شکست نے نون لیگ کی فالٹ لائنزکومزید گہراکردیا ہے،پنجاب میں انتخابات آیا چاہتے ہیں اور اس وقت یہ پارٹی ہیڈلیس چکن کی مانند نظر آرہی ہے،نون لیگ کی فالٹ لائنز میں سے ایک بڑی فالٹ لائن میڈیاکا محاذ ہے۔بڑے میاں صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ صحافت میں لفافہ کلچرکے وہ بانی قائد ہیں،اس میں کتنی حقیقت ہے یہ مجھے نہیں معلوم کہ مجھے نہ کبھی لفافہ ملا اور نہ ہی میں نے اپنے بیس سالہ میڈیا کے کیریئر میں کسی کو اپنے سامنے وصول کرتے دیکھا ۔لفافوں کا تو پتا نہیں لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ میاں نوازشریف نے اپنی سیاست اور حکومت میں اپنی مشہوری کیلئے اپنے وقت کے بڑے کالم نگاروں اور بعد میں اینکروں کواپنے دسترخوان کا حصہ ضروربنائے رکھا اورکچھ خوشہ چیں آج بھی ہیں۔انہوں نے ایسے لوگوں کو اپنی حکومتوں میں نوازنے میں بھی کمی نہیں رکھی۔ عطا الحق قاسمی کو دیکھ لیجئے ۔انہوں نے نون لیگ کیلئے اپنے کالم اورقلم کو وقف کیے رکھا تو بدلے میں نوازشریف نے ان کی روٹی روزی کا پورا خیال رکھا۔ ابھی پچھلے دورحکومت میں الحمرآرٹس کونسل پورے کا پوراان کے حوالے تھا، بعد ازاں پی ٹی وی کا چیئرمین ہی لگادیا اورپندرہ کروڑ سرکاری خزانے سے وہ اپنے گھرلے گئے، سپریم کورٹ نے پیسے واپس کرنے کا حکم دیا لیکن ہنوز عمل درآمد نہیں ہوسکا لیکن قاسمی صاحب کا قلم رواں ہے۔
مشاہد حسین سید بھی ایک ایسی ہی مثال ہیں جو صحافی تھے لیکن میاں صاحب کے قریب ہوئے تو آج تک بلاتعطل سینیٹ کے رکن ہیں۔وزیربھی بنے رہے۔محمد مالک شہبازشریف کے قریب ہوئے تو چھوٹے میاں صاحب نے بھی نوازشات کی بارش کی۔پنجاب حکومت میں اپنا مشیر خاص لگائے رکھا اورپھر پی ٹی وی کا ایم ڈی بھی بنادیا کہ سرکاری گنگا سے صحافیوں کو اشنان کروانے کیلئے پی ٹی وی کا خانچا موجود ہے۔سلمان غنی نے بھی ن لیگ کی بہت قلمی خدمت کی لیکن وہ سیانے ہیں انہوں نے باقاعدہ عہدہ قبول نہیں کیا لیکن پی ٹی وی میں بطورخصوصی تجزیہ کاراپنا تجزیہ دیتے ہیں اور چیک وصول کرلیتے ہیں ۔یعنی نہ ہنگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ وی چوکھا۔
ابصار عالم صاحب بھی جب جیو کے بیوروچیف بنے تو ان کا جھکاؤ نون لیگ کی طرف ہوگیا میاں صاحب نے انہیں بھی یاد رکھااور پیمراکا چیئرمین لگادیا۔ عدالت نے ان کونوکری سے نکال دیا ۔نجم سیٹھی صاحب نے بھی کبھی نون لیگ سے سرکاری عہدہ لینے میں کوتاہی نہیں کی ،پہلے بھی ان کو پی سی بی کا چیئرمین بنایا اور اب پھر یونہی حکومت بنی ہے نون لیگ تو وہ لندن سے پرچی لیکر پاکستان تشریف لائے تو شہبازشریف صاحب کو اتنی بڑی اور اہم پرچی دیکھ کر انکار کی جرت نہیں ہوسکی ۔پھر تازہ مثال سید فہد حسین صاحب کی ہے ۔فہد حسین صاحب نے بھی عین مشاہد حسین سید والا روٹ اختیار کیا ہے۔نون لیگ کے حق میں انگریزی اخباروں میں کالم لکھے اوراب ماشااللہ وفاقی وزیرہیں۔
اب یہ سب کچھ لفافہ کلچرمیں آتاہے یا نہیں یہ آپ حساب لگالیں میں نے تو حقائق لکھ مارے ہیں۔ویسے تو ہر حکمران کو ہی سخت سوالوں سے خوف آتا ہے اس لیے وہ میڈیا کواپنے ساتھ ملاکرکھیلنے میں راحت محسوس کرتے ہیں ۔عمران خان کی مثال بھی مختلف نہیں ۔وہ بھی اپنے اینکرزکو ہی زیادہ انٹرویوزدیتے ہیں لیکن یہ بھی انہی کا حوصلہ تھا کہ وزیراعظم ہوتے ہوئے اپنے سب سے بڑے ناقد منصور علی خان صاحب کو بھی انٹرویو دے دیااور سینئراینکرپارس جہانزیب نے جو انٹرویو خان صاحب کا کیا وہ دیکھنے کے لائق ہے کہ کوئی لگی لپٹتی رکھی ہی نہیں ۔مشکل اور سخت سوال لیکن خان صاحب سامنے بیٹھے رہے ۔نہ چہرے پر ناگواری آئی نہ کسی اتالیق کی طرف جواب کیلئے دیکھاہاں پیشانی پر پسینا ضرورآیا۔یہ ایسی خوبی یا صلاحیت ہے جو عمران خان کو نوازشریف یا شہبازشریف سے بڑاکردیتی ہے، اگر یقین نہ آئے تومیاں نوازشریف کا سید طلعت حسین کو دیا گیا انٹرویو نکال کے دیکھ لیں کہ ایک سوال کیا ہوا میاں صاحب کے طوطے اڑے اوروہ انٹرویو کے دوران ہی اپنے اردگردبٹھائے معاونین سے مدد مانگنے لگ گئے تھے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نون لیگ میڈیا کے اعتبار سے ابھی تک نوے کی دہائی سے باہر نہیں نکل سکی، وہ ابھی بھی وی سی آروالے زمانے میں رہ رہی ہے جبکہ دنیا ترقی کرکے ڈیجیٹل اور فورکے سے بھی آگے ایٹ کے تک چلی گئی ہے۔آج کل وی سی آر ٹھیک کرنے والا کوئی مکینک باقی نہیں بچا تو نون لیگ کی میڈیا اسٹریٹجی کیسے بچ سکتی ہے، میڈیا نون لیگ کی ایسی فالٹ لائن ہے جسے یہ نہ سدھا رسکے اور نہ ہی شاید سدھار سکیں گے کیونکہ ان میں ریوڑیاں بانٹنے کا چلن بالکل اندھے جیسا ہے۔ عمران خان میڈیا کا سامنا کرنے میں شریف خاندان سے سوہاتھ آگے ہے۔پچھلے آٹھ ماہ میں ساٹھ جلسوں میں خطاب۔ پچاس کے قریب ٹی وی انٹرویوزاورپریس کانفرنسیں ۔جب سے لاہور میں خیمہ زن ہوئے کوئی صحافی چھوڑانہیں انہوں نے جس کو زمان پارک نہ بلوالیا ہو۔دوسری طرف نون لیگ ہے جس میں جس کو اقتدارکی گاجر مل گئی وہ ایک کونے میں بیٹھا مست کھارہا ہے۔یہ لوگ میڈیا کا سامناکرنے سے باقاعدہ ڈرتے ہیں ۔
میاں نوازشریف نے کب کسی کو انٹریو دیا؟ چاہے اپنے بھروسے کے اینکرکو ہی دیا ہوکسی کو یاد ہی نہیں۔مریم نوازکا آخری انٹریو دوسال پہلے عاصمہ شیرازی صاحبہ نے کیا تھا اس پر بھی درجنوں سوال تھے کہ میمز تک بنائی گئیں۔شہبازشریف نے اپنا آخری انٹرویوایک سال پہلے کامران خان کو دیا تھا۔ حمزہ شہبازاپنے اندر الگ ہی شاہی مزاج رکھتے ہیں، اگر کوئی انٹرویو کی درخواست کردے تو حکم کرتے ہیں کہ پہلے مجھ سے ملاقات کروائی جائے تاکہ اعتماد کا رشتہ قائم کرلیں، اس پارٹی میں دوسرے درجے کی قیادت بھی مختلف نہیں ۔خواجہ آصف صاحب سیالکوٹی ستر کے پیٹے میں ہیں ۔میرے چند پسندیدہ سیاستدانوں میں ہیں لیکن انٹرویوز دینے کے لیے انہوں نے اپنی پوری سیاست میں چار اینکروں سے آگے کبھی نہیں سوچا۔ ان کے چار اینکروں کی لسٹ ہے اس کے علاوہ کسی کو انٹرویو دینے کی ہمت نہیں کرتے۔احسن اقبال بھی اسی ڈگر پر ہیں۔مریم اورنگ زیب وفاقی وزیراطلاعات لیکن میڈیا کا سامنا کرنے میں نوازشریف سے بھی زیادہ خوف زدہ۔ہا ں ن لیگ میں ایک لیڈر ایسا ضرور ہے جو میڈیا سے بالکل نہیں ڈرتا۔وہ شاہد خاقان عباسی ہیں، عباسی صاحب ہر کسی کو ٹائم دیتے ہیں ۔بلاخوف گفتگو کرتے ہیںلیکن آج کل اس رجیم چینج کے بعدکچھ گوشہ نشین ہیں۔میڈیا پر بھی کم آتے ہیں اور وزارت بھی قبول نہیں کی۔عطااللہ تارڑصاحب نڈرتھے لیکن اب وزیربنے ہیں توشوزمیں کافی زیادہ کمی آگئی ہے اور پک اینڈ چوزبھی زیادہ ۔
یہ تو مین اسٹریم میڈیا کی فالٹ لائنز ہیں لیکن ان کے سوشل میڈیا کا اس سے بھی برا حال ہے۔ نون لیگ کا سوشل میڈیا پی ٹی آئی سے کوسوں دور ہے بلکہ یوں کہیں کہ ریس میں بھی نہیں۔سوشل میڈیا ہیڈ عاطف رؤف کے پاس بیٹھیں تو لڑائیوں کی ایسی ایسی کہانیاں کہ کانوں کو ہاتھ لگائیں۔عاطف رٔؤف کا تعلق بھی چونکہ مریم گروپ سے ہے تو وہ حکومت سے باہر ہیں اس لیے حکومت میں بدرشہبازجیسے شہبازگروپ کے لوگ آگئے ہیں۔یہ اپنی نوعیت کی الگ ہی ٹسل ہے۔
ن لیگ کا سوشل میڈیا نوازشریف کے دورمیں بہترہواتھا جب مریم نوازنے وزیراعظم ہاؤس میں سٹریٹجک میڈیا سیل قائم کیا تھا۔اس دورمیں مریم نوازنے سوشل میڈیا کو بہت منظم کرلیا تھا لیکن جب پانامہ کے بعد جب نوازشریف نااہل ہوئے اورووٹ کو عزت دواورخلائی مخلوق کے بیانیے چلانے کا موقع آیا تو نون لیگ کی اپنی حکومت میں ایف آئی اے نے ان کے سوشل میڈیا کے کارکنوں کو پکڑنا شروع کردیا۔ عمیر طلعت ہوں یا اس جیسے دوسرے پارٹی وفادارسب کے ٹویٹر ہینڈل غیر فعال کردیے گئے۔ مقدمات اور گرفتاریاں ہوئیں نون لیگ کی اپنی حکومت میں ان کارکنوں کو تنہا چھوڑ دیا گیا تو یہ لوگ بددل ہوگئے ۔اس کے بعد نون لیگ کا سوشل میڈیا کھڑا ہی نہیں ہوسکا۔ویسے بھی نون لیگ کی ترجیحات میں اقتدار سب سے پہلا اور آخری ہدف ہوتا ہے کارکن تو آتے جاتے رہتے ہیں ۔میڈیا کا سامنا کرنا نون لیگ کی قیادت کی ایسی فالٹ لائن ہے جو موجود رہی تو غیرمقبولیت کے زلزلے آتے ہی رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button