ColumnZameer Afaqi

ہمسایہ ممالک سے تجارت .. ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

پاکستان اور بھارت ایسے ہمسائے ہیں جن کی صرف طویل ترین سرحدیں ہی آپس میں نہیں ملتیں بلکہ ایک طویل کلچر ،تمدن اور باہمی یگانت کی بھی طویل تاریخ ہے۔ اس کے ساتھ دونوں ممالک میں بسنے والے شہریوں کی ایک دوسرے سے رنگ و نسل کے ساتھ مذہبی طور پر قرابت داریاں بھی ہیں یہاں تک کہ عبادت ،زیارت گاہیں اور تاریخی ورثے بھی ہیں جبکہ دونوں ممالک کی اکثریت ایک خاص ایلیٹ کی آسودگی کے سوا غربت ، جہالت بھوک اور ننگ میں جکڑی ہوئی ہے ۔اگر کبھی انہونی ہو جائے اور ان دونوں ملکوں میں امن اور بھائی چارے کی فضا فروغ پا جائے باہمی میل جول اور تجارت کیلئے سرحدیں کھل جائیں تو ڈیڑھ ارب کی آبادی کے حامل ان دوممالک کے ساتھ اڑھائی ارب کی آبادی کے ا س خطہ جسے جنوبی ایشیا کہتے ہیں، کے پسے ہوئے طبقات کے دکھ پریشانیاں غربت اور بھوک دور ہو سکتی ہے۔ مستقبل میں جنگوں کا میدان معاشی ہدف نظر آتا ہے جو ممالک اور قومیں اس میدان میں اپنا سکہ جمانے میں کامیاب ہوگئے وہاں ترقی اور خوشحالی کے بحر قلزم میں بہیں گے اور جو ممالک اپنے باہمی تنازعات کو روایتی، جذباتی، تعصبات،نفرت اور ہتھیاروں سے حل کرنے کی کوشش کریں گے ، وہاں بھوک اور ننگ کا راج کبھی ختم نہیں ہوگا۔
عالمی بینک کے اندازوں کے مطابق پاکستان اور بھارت میں رکاوٹیں دور ہونے کی صورت میں سالانہ 35ارب ڈالر سے زائد کی تجارت ہو سکتی ہے۔ متعدد جنوبی ایشیائی ممالک دور کی بجائے اپنے پڑوسی ممالک سے زیادہ بہتر شرائط پر تجارت کر سکتے ہیں،انسان کی بنائی رکاوٹیں دور ہو جائیں تو جنوب ایشیائی ممالک میں تجارت کا حجم 23ارب ڈالر سے بڑھ کر 67ارب ڈالر ہو سکتا
ہے، بھارت، نیپال ، پاکستان اور سری لنکا میں جنوب ایشیائی ریجن کی نسبت دیگر دنیا سے امپورٹ انڈیکس دو سروں سے دگنا زیادہ ہیں ، سی پیک سے تجارت کو فائدہ ضرور ہو گا، تاہم تجارتی سہولیات اور انفرا سٹرکچر کی بھی تجارت کے فروغ میں برابر کی اہمیت ہے۔ عالمی بینک کے ماہر معاشیات کے مطابق توقع ہے بنگلہ دیش اور نیپال ٹی آئی آرکی توثیق کر دیں گے اس کے بعد ڈھا کہ سے کابل تک سڑک سے تجارت ممکن ہو سکے گی، رپورٹ کے مطابق اگر علاقائی رکاوٹیں دور ہو جائیں تو تجارت کے نتیجے میں روز گار کے بڑے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں، دنیا کا تیز تر ترقی کرنے والا علاقہ ہونے کے باوجود پاکستان کی علاقائی تجارت کا تناسب محض نو فیصد ہے، تا ہم جنوبی ایشیائی ممالک کی باہم تجارت صرف پانچ فیصد ہے۔
پاکستان اور بھارت جن معاشی مسائل کے انبار میں پھنسے ہوئے ہیں ان سے نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ علاقائی تجارت کو آپشن کے طورپراپنایا جائے۔ دونوں ممالک باہمی اعتماد سازی کے اقدامات اٹھائیں توان کی معاشی ترقی کی رفتارانتہائی تیزہوسکتی ہے،عالمی بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ تجارتی پابندیاں جنوب ایشیائی ممالک کے مابین ہیں۔ بالخصوص پاکستان اور بھارت کے مابین تجارتی
پابندیوں کی نوعیت انتہائی پیچیدہ اوریہ پابندیاں تجارتی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔رپورٹ کے مطابق تجارت کیلئے جنوبی ایشیائی ممالک کے مابین زیادہ سے زیادہ فضائی روابط قائم کرنا ضروری ہیں۔ جنوبی ایشیا کے ممالک میں پاکستان کے فضائی روابط سب سے کم ہیں۔ پاکستان سے ایک ہفتہ میں بھارت اورافغانستان کیلئے چھ فلائٹس ہیں۔سری لنکا اوربنگلہ دیش کیلئے دس دس فلائٹس اورنیپال کیلئے صرف ایک فلائٹ ہے۔ مالدیپ اوربھوٹان کیلئے پاکستان سے کوئی فلائٹ نہیں۔ اس کے برعکس بھارت کی سری لنکا کیلئے ایک ہفتہ میں 147، بنگلہ دیش67، نیپال 71، مالدیپ 32، افغانستان 22 اوربھوٹان کیلئے 23 فلائٹس ہیں۔ تاہم اگر اسلام آباد اور دہلی باہمی تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو دوطرفہ تجارت کی سطح کو 37 ارب ڈالر تک بڑھانے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔یہ بات کچھ عرصہ پیشتر جاری کردہ عالمی بینک کی ایک اور رپورٹ میں بتائی گئی تھی جس میں جنوبی ایشیا کے ملکوں کے درمیان تجارت کے وسیع ممکنہ مواقع کا احاطہ کرتے ہوئے ان کے راہ میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق، جنوبی ایشیا کے دو بڑوں ملکوں پاکستان اور بھارت کی باہمی کشیدگی کی وجہ سے ناصرف دونوں ملکوں کی باہمی تجارت پر منفی اثر پڑ رہا ہے بلکہ خطے کی تجارت بھی اس وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جنوبی ایشیا کے ملکوں خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کی راہ میں وہ رکاوٹیں ہیں جن کا تعلق براہ راست تجارتی معاملات اور غیر تجارتی معاملات سے ہے اور جب تک ان کو دور نہیں کر لیا جاتاخطے کے ملکوں خاص طور پر پاک بھارت تجارت کے حجم میں اضافہ ممکن نہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ کئی برسوں سے سرد جنگ کی سی کیفیت ہے اور سرحدوں پر آئے دن گولہ باری بھی ہوتی ہے۔معاشی امور کے ماہرین کے خیال میں اس کشید ہ صورتِ حال کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔ معاشی امور کے ماہرین کے خیال میں پاکستان کئی شعبوں میں تجارت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔بھارت کی مارکیٹ بہت بڑی ہے، جس سے یقینا ًپاکستان کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ سروسز میں پاکستان کے بینکنگ سیکٹر، صنعت میں پاکستان کی ٹیکسٹائل جو بھارت میں پہلے ہی بہت مقبول ہے، زراعت میں چاول، پھلوں میں آم اور یہاں تک کہ ڈرامے اور فلموں میں بھی ہمیں فائدہ ہو سکتا ہے۔اگر دونوں ممالک کے تعلقات میں حقیقی معنوں میں بہتری آتی ہے اور اعتماد بھی بحال ہوتا ہے تو ہمیں ٹرانزٹ ٹریڈ میں بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔ ہم بھارت کو افغانستان اور وسطی ایشیا کیلئے راہداری کی سہولت دے سکتے ہیں، جس سے ہمیں ٹول ٹیکس کی مد میں اچھا خاصا پیسہ مل سکتا ہے۔معروف صنعت کاروںکے خیال میں میڈیسن کے شعبے میں ہم بھارت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ وہاں دوائیں سستی بھی ہیں اور زیادہ بہتر بھی لیکن تجارت کیلئے کسی بھی قدم کو اٹھانے سے پہلے ہمیں اچھی طرح ہر پہلو کا جائزہ لینا چاہیے۔
پاکستان میں ماہرین اور دوسرے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بیٹھ کر ایسے آئٹمز کی فہرست بنانی چاہیے، جس کو درآمد کرنا ضروری ہے اور جس سے مقامی صنعت کو نقصان بھی نہ ہو۔ بغیر سوچ وبچار کے تجارت کرنا پاکستان کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ صنعت کاروں کی طرح کچھ ماہرینِ معیشت بھی بھار ت کے ساتھ پاکستان کی تجارت میں ملک کا فائدہ نہیں دیکھتے۔ ان کے خیال میں کیونکہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے، پاکستان کیلئے اس سے مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ معروف معیشت دانوں کے خیال میں نہ صرف پاکستانی صنعت متاثر ہوگی بلکہ زراعت کو بھی نقصان پہنچے گا۔پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں کسانوں کو زیادہ سبسڈی دی جاتی ہے۔ پاکستان میں صنعتی اور زرعی شعبوں کی حالت کوئی اچھی نہیں ہے۔ ہماری صنعتی پیداوار کی گنجائش بھی اتنی زیادہ نہیں ہے جتنی کہ بھارت کی ہے۔ ہم تو جی ایس پی پلس سے بھی فائدہ نہیں اٹھا پائے تو ان حقائق کے پیشِ نظر ہمیں اپنی مارکیٹ نہیں کھولنی چاہیے۔ اس سے بھارت کو فائدہ ہوگا اور ہمیں نقصان لیکن یہ سچ اپنی جگہ پر موجود ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری سے خطے کی عوام کی زندگیوں میں بہتری سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button