ColumnImtiaz Ahmad Shad

ہم سب کا پاکستان .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

کسی بھی ریاست یا حکومت کے نظام کو سمجھنے کیلئے ہمیں شہریوں اور بالخصوص عام یا کمزور آدمی کے مفادات کو دیکھنا ہوتا ہے۔ اسی نظامِ ریاست یا حکومت کو کامیاب سمجھا جاتا ہے جو اپنے شہریوں کے درمیان باہمی تعلق کو مضبوط بناتی ہے اور یہ عمل ریاستی و حکومتی ساکھ کو قائم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ عمومی طور پر ریاست، حکومت اور شہریوں کے درمیان باہمی تعلق ہی ریاست اور معاشرے کو مضبوط بنانے کی کنجی سمجھا جاتا ہے۔ ریاست اور شہریوں کے باہمی تعلق کو ہم ان کے درمیان عمرانی معاہدے کے طور پر دیکھتے ہیں،ایک طرف ریاست و حکومت ذمہ دار ہوتی ہے کہ وہ شہریوں کے بنیادی حقوق اور مفادات کے تحفظ کے عمل کو یقینی بناتی ہے تو دوسری طرف شہری بھی اپنے بنیادی حقوق اور مختلف مفادات کے حصول کے بعد ریاستی اموراور قوانین کی مکمل پاسداری کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔
ایک اچھی، مہذب اورذمہ دارریاست اور حکومت بنیادی طور پر شہریوں کے ساتھ اپنے باہمی تعلق کی مضبوطی کو بنیاد بنا کر ایسی پالیسیاں یا قانون سازی سمیت ایک ایسے سازگار ماحول کو یقینی بناتی ہے جس کا مقصد شہریوں او ر بالخصوص کمزو ر طبقات کو مضبوط اور مستحکم بنانا ہوتا ہے، تاکہ شہری ریاستی مفاد کے ساتھ کھڑے ہوں۔شہریوں کی سطح پر مسائل بہت واضح ہیں۔ان مسائل کا اظہار ہمیں 1973 کے دستور کے بنیادی حقوق کے باب میں نظر آتا ہے جس میںتعلیم، صحت، روزگار، تحفظ،انصاف، آزادی اظہار، شہری آزادیوں، معلومات تک رسائی سمیت دیگر اہم امور شامل ہیں۔ عمومی طور پر ریاستی نظام کی بڑی خوبی کمزور طبقات کے مفادات کے ساتھ اپنے رشتے کو مضبوط بنانے سے جڑی ہوتی ہے۔ یہ جو امیر اور غریب کے درمیان ہمیںفرق نظر آتا ہے یا طاقت ور اور کمزورمیں جو خلیج بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے اسے ختم کرنا ہی ریاست اور حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے۔ ریاست، حکومت اور شہریوں کے درمیان تعلق کی مضبوطی کا ایک بڑا نکتہ لوگوںکی سیاسی،سماجی، معاشی سرمایہ کاری سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ ریاست اور حکومتی سطح پر شہریوں کے باہمی تعلق کا ایک بڑا اشاریہ شہریوں پر بجٹ اور پالیسیوں میں مالی حصے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ سیاسی نظام کی مضبوطی کیلئے سیاسی سطح پر سیاسی جماعتو ں کی فعالیت عملی طورپر نظر آنی چاہیے کیونکہ سیاسی جماعتوں کی مدد سے ہی سیاسی نظام کو آگے بڑھانا ہے تو ایسے میں ہمیں کافی متحرک اور فعال سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے، جن کا مضبوط تعلق کمزور طبقات کے مفادات اور سیاست سے جڑا نظر آنا چاہیے۔اسی طرح سیاسی نظام کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے جمہوری نظام میں پارلیمانی نظام اور پارلیمنٹ کی مضبوطی پر بھی زور دینا ہوگا، کیونکہ پارلیمنٹ ہی سیاسی نظام میں بڑی تبدیلیوں کا موجب بنتی ہے اور خاص طور پر عام آدمی کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا ہی عملاً پارلیمنٹ اور اس میں موجود ارکان کی بڑی ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ پارلیمنٹ کا مقصد محض ڈیبیٹنگ کلب نہیں بلکہ اس کا مقصد ملک کی سیاست، سماجیات اور معیشت میں عوامی مفاد کے تحت بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لاناہوتا ہے۔
دنیا کے سیاسی تجربات پر نظر ڈالیںتو حکمرانی کے نظام میں فعالیت، شفافیت اور زیادہ جوابدہی سمیت لوگوں کے روز مرہ کے معاملات میں بہتری پیدا کرنے کیلئے مقامی حکومتوں کے نظام کو سب سے زیادہ فوقیت دی جاتی ہے۔ آج دنیا میں سب سے زیادہ بحث ہمیں یہی دیکھنے کو ملتی ہے کہ جب تک ہم زیادہ سے زیادہ سیاسی، انتظامی او رمالی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل نہیں کریں گے یا وفاق اور صوبوں کے ساتھ مقامی حکومت کے نظام کو تیسرے درجے کی حکومت نہیں تسلیم کریں گے، حکمرانی کا نظام شفاف نہیں ہوگا۔ اس وقت حکمرانی کے نظام میں فعالیت کیلئے سب سے بڑا چیلنج مقامی حکومتوں کا مضبوط اور خودمختار نظام ہے۔ 1973کے آئین کی شق140Aکے تحت ہماری صوبائی حکومتوں اور مقامی حکومتوں کو سیاسی،انتظامی اور مالی خودمختاری دینی ہوگی۔یہی نظام بنیادی طور پر ریاست، حکومت اور شہریوں کے درمیان باہمی تعلق کو مضبوط بنانے کا سبب بنتا ہے،لہٰذا ہمیںاپنے مجموعی ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام میں بڑی اصلاحات درکار ہیں۔ یہ کام روایتی طور پر نہیں ہوگا بلکہ بڑی غیر معمولی اقدامات جو کچھ تلخ بھی ہوںگے لیکن کرنے ہوںگے۔اسی طرح یہ ذمہ داری کسی ایک فریق کی نہیں بلکہ اس میں ریاست کے تمام فریقین کو اپنا اپنا حصہ اجتماعی طور پر ڈالنا ہوگا۔یہ کام کسی ٹکراؤ کے نتیجے سے ممکن نہیں ہوگا بلکہ باہمی طور پر ایک بڑے اتفاق رائے کی ضرورت ہے اور یہ عمل مختلف فریقین میں ایک بڑی ٹھوس مشاورت اور باہمی فیصلوں کے بغیر ممکن نہیں۔ اس میں ہمارے اہل دانش، میڈیا اور رائے عامہ بنانے والوں سمیت علمی و فکری محاذ پر سرگرم لوگوںکو بھی اپنا ذمہ دارانہ کردار نبھانا ہوگا اور جدیدیت کو بنیاد بنا کر ایک ایسے حکمرانی کے نظام کی طرف پیش قدمی کریں جو عام آدمی کے مفادات کو مستحکم بناسکے یا ان کو ہر سطح پر تحفظ فراہم کرسکے۔
یہ عمل محض قانون سازی یا پالیسیوں تک ہی محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کی عملی شکل لوگوں کو ہر سطح پر شفافیت کے اندازمیں نظر آنی چاہیے تاکہ اس کے ثمرات وطن کے کمزور طبقوں تک بھی پہنچ پائیں اور ان میں یہ اعتماد بحال ہو کہ پاکستان کسی ایک مخصوص طبقہ کا نہیں بلکہ ہم سب کا پاکستان ہے۔ افسوس وطن عزیز کی تمام سیاسی جماعتیں مفادپرستوں کی آماجگاہ بن چکیں۔جمہور یت کا درس دینے والوں نے جمہور کی چیخیں نکلوا دیں۔معاملات اس نہج تک پہنچ چکے کہ ایک دوسرے کے وجود کو بھی برداشت کرنا گوارہ نہیں۔ذاتی مفاد کیلئے ہنگامی اجلاس بھی طلب کیے جاتے ہیںمگر ایک زرعی ملک کی عوام آٹے کیلئے لائنوں میں کھڑی ہیں اس کیلئے کوئی ہنگامی اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے۔ایسے میں لوگوں کا جمہوریت سے یقیناً اعتبار اٹھ رہا ہے۔بلدیاتی انتخابات سے بھاگ کر سیاسی جماعتیں جو اقتدار میں ہیں عوام میں مزید تشویش پیدا کر رہی ہیں،عوام کو محسوس ہو چکا کہ یہ سب اقتدار کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کو کسی صورت راضی نہیں۔اسمبلیوں اور سینیٹ میںچند خاندانوں کی اجارہ داری نے سیاسی اور جمہوری نظام کو مفلوج کر دیا ہے۔یہی خاندان در اصل سیاست،تجارت اور زرعی شعبوں میں تگڑے ہیں اور عوام کا خون چوس کر اپنی تجوریوںبھر لیتے ہیں۔عوام کے آئین پاکستان میں جو حقوق ہیںان سے بھی یہی لوگ مستفید ہوتے ہیں،کبھی عوام کو ان کے حقوق دینے تو دور ان سے آشنا بھی نہیں ہونے دیا گیا۔ 75 برسوں میں عوام کا یہ حال ہو چکا کہ اب وہ ریاست اور ریاستی اداروں سے بھی نالاں نظر آتے ہیں۔ایسے میں اہل علم و دانش کو کردار ادا کرتے ہوئے عوام اور جمہوریت کے دعویداروں کے درمیان کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ ریاست کو بکھرنے سے بچایا جا سکے۔یقیناً آج نہیں تو کل یہ احساس پیدا ہو جائے گا کہ پاکستان چند خاندانوں کی جاگیر نہیں بلکہ ہم سب کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ریاست کی مضبوطی میں ہی سب کی بقا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button