CM RizwanColumn

یہ کھیل اب ختم ہونا چاہیے! .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

اونچا، بے تکا اور روایت سے ہٹ کر بولنا اور اس طرح میڈیا میں زیر بحث رہنا عمران خان کا چند سالہ پرانا وتیرہ ہے۔ اسی اٹکل سے وہ پاکستانی سیاست کی مین سٹریم پر آگئے تھے اور اسی ہنر کی بنا پر وہ گیم سے مکمل آؤٹ ہونے کے باوجود بالکل اسی طرح زیر موضوع اور زیر گفتگو ہیں جیسے کہ گیم ابھی بھی ان کے ہاتھ میں ہے۔ حالانکہ ان کی کتاب بند کر کے علیحدہ رکھ دی گئی ہے۔ اپنی اسی سرشت اور حکمت عملی کے تحت انہوں نے ایک تازہ بیان داغ کر نئی اور موجودہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی معاملے میں ایک طرح سے دخیل ہونے کی دعوت اور شہ دی ہے کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے اعتماد کے ووٹ میں اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نظر نہیں آرہی۔چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے کہ ہمیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے، پولیٹکل انجینئرنگ کی جا رہی ہے، باپ پارٹی کو پیپلز پارٹی میں شامل کیا جا رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں نون لیگ کو لانے کیلئے زور لگایا جا رہا ہے، فاٹا کے ایم این ایز نے انہیں بتایا ہے کہ وہاں حالات خراب کیے جا رہے ہیں۔ پھر عمران خان نے یہ بھی پیغام دے دیا کہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی نہیں چاہتے، ہماری لڑائی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں بلکہ انصاف کے حصول کیلئے ہے۔چودھری پرویز الہٰی کو گیم کیلئے علیحدہ سے گراؤنڈ دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پرویز الہٰی اور ہم اتحادی ہیں، جنرل باجوہ کے بارے میں ہمارا موقف الگ الگ ہے۔ پرویز الہٰی ہمیں ہمارے موقف سے ہٹنے کیلئے نہیں کہہ سکتے۔ پھر پرانا بیانیہ بھی دہرا دیا کہ جنرل باجوہ کرپشن کو برا نہیں سمجھتے تھے۔ چوروں سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ پھر یہ بھی کہہ دیا کہ اگر اقتدار میں آئے تو فوری بلدیاتی الیکشن کرائیں گےحالانکہ جب عمران
خان اقتدار میں تھے تو جان بوجھ کر بلدیاتی انتخابات سے صرف نظر کرتے رہے تھے لیکن لوگوں کو بیوقوف سمجھتے ہوئے پھر بلدیاتی انتخابات کا لولی پوپ دینا مناسب سمجھا۔ پھر امریکہ والے بیانیہ میں تازہ ملاوٹ کرتے ہوئے عمران خان نے اسی نشست میں یہ بھی کہا کہ ‘حسین حقانی کو لگایا گیا جس کا مجھے علم ہی نہیں تھا۔ رجیم چینج کے پس پردہ حسین حقانی ملوث ہے۔ حسین حقانی امریکہ کو جنرل باجوہ کے حق میں اور میرے مخالف کرتا رہا۔ حسین حقانی امریکہ کو کہتا تھا کہ جنرل باجوہ آپ کے حق میں ہے۔ ڈونلڈ لو کو یہاں سے بتایا جاتا کہ عمران خان امریکہ مخالف ہے، یعنی اگر کل کو یہ کہنا پڑے کہ انہیں امریکہ نے ہٹایا تھا تو بھی یہ بیان کام دے جائے اور اگر کل کلاں امریکہ کی ہمدردیاں درکار ہوں تو امریکہ بہادر یا اس کے کسی نمائندہ کو یہ بتایا جاسکے کہ میرا تو موقف یہی رہا ہے کہ امریکی قیادت کو میرے خلاف بھڑکایا گیا حالانکہ میری تو امریکہ سے کوئی لڑائی نہیں جس طرح اب موجودہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو انہوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ ان کی اس سے کوئی لڑائی نہیں۔ یوٹرن اور خبروں میں زیر گردشِ رہنے کے علاوہ اس تمام بیان میں کچھ بھی نہیں مگر واری جائیں میڈیا کے کہ اس کے پاس عمران خان کے علاوہ کوئی اور موضوع ہی نہیں گو کہ عمران خان اپنے کرپشن مخالف بیانیے کے ساتھ ہی ختم ہو گئی اور یہ کتاب بند کر دی گئی ہے۔
اسی طرح چند روز قبل بھی عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ میں اب تک جنرل قمر جاوید باجوہ کاسیٹ اپ ان کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ تب عمران خان نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھیوں کا مقصد انہیں اقتدار میں واپس آنے سے روکنا ہے، حالانکہ پاک آرمی کی یہ روایت ہے کہ جب نیا آرمی چیف آجاتا ہے تو ریٹائرڈ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اور یہ فرض بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اب ادارہ میں ریٹائرڈ جنرل باجوہ کا کوئی سیٹ اپ ہے۔ یہ بات سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے، البتہ یہ ممکن ہے کہ ایسے لوگ اسٹیبلشمنٹ میں موجود ہوں جو تحریک انصاف کے حوالے سے جنرل ریٹائرڈ باجوہ کی رائے سے متفق ہوں لیکن اتفاق کرنے والے کسی طرح بھی ادارے کی پالیسی پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔جہاں تک ادارے کا سیاسی طور پر غیر جانبدار رہنے کا تعلق ہے تو اب تک تو حتمی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ غیر جانب داری کا یہ سلسلہ چلے گا اور اسٹیبلشمنٹ کا جھکاؤ کسی ایک سیاسی جماعت کی طرف نہیں ہو گا۔ یہاں تک کہ باجوہ دور میں تحریک انصاف کے ساتھ جو امتیازی سلوک برتا گیا تھا اب وہ سلوک بھی نہیں برتا جائے گا جبکہ ابھی تک کے جو اشارے ہیں، اس سے یہ بات واضح ہے کہ نئے آرمی چیف کی توجہ خالصتاً پروفیشنل معاملات پر ہے، کیونکہ نئے آرمی چیف نے آتے ساتھ ہی سرحدی علاقوں کا دورہ کیا ہے اور جوانوں سے ملاقات کی ہے، جس سے یہ بات بڑی واضح ہے کہ فوج کی توجہ
سکیورٹی اور پروفیشنل امور پر ہے۔ تین روزہ کورکمانڈر کانفرنس میں بھی سکیورٹی اور معیشت کے حوالے سے بات ہوئی جبکہ دو روزہ نیشنل سکیورٹی اجلاس میں بھی اسی حوالے سے بات ہوئی۔
عمران خان کو فرضی طور پر بے تکی اطلاعات بھی مل جاتی ہیں اور وہ اپنی مستقل یاواگوئی پر مبنی پالیسی کے تحت ان مبینہ مبہم اطلاعات کی بنیاد پر اطلاع قوم کو بھی دے دیتے ہیں۔ جیسے گزشتہ دنوں کسی نے ممکنہ طور پر عمران خان کو غلط بتادیا تھا کہ ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کرنے کا بندوبست کیا جا رہا ہے،پھر انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ بھی ان کے خلاف ہے، حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ سب عمران خان کی غلط فہمی ہے یا پھر وہ فوج کی موجودہ قیادت کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں یا پھر درپردہ حمایت مانگ رہے ہیں، لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ یہ سب کرکے ملک کی سلامتی اور فوج کی یکسوئی سے کھیل رہے ہیں کاش کہ کوئی سٹیک ہولڈر ایک قدم آگے بڑھ کر ان کا یہ کھیل ختم کروا دے، کیونکہ غربت، مہنگائی اور عدم تحفظ کے احساس میں گھری قوم کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ یہ کھیل اب ختم ہونا چاہئے، کیونکہ اب یہ کسی لکھاری یا صحافی کی رائے نہیں بلکہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی نے پاکستان میں جمہوریت کی صورت حال پر ایک رپورٹ جاری کردی ہے کہ سال 2022 جمہوریت کیلئے مایوس کن رہا،گزشتہ ستر سال میں اقتدار کے لالچی سیاست دانوں کے ساتھ مل کر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے جمہوریت کے ساتھ کھیلی جانے والی بہت سی چالیں سال بھر میں ایک ایک کر کے بے نقاب ہوئیں اور نومبر 2022 میں سبکدوش ہونے والے کمانڈر کے اعتراف پر اپنے نقطہ عروج کو پہنچ گئیں۔ اس سال میں جمہوری نظام کھل کر بے نقاب ہوا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان ملکی سیاست میں خرابی کو روکنا چاہتا ہے تو غیر آئینی کارروائیوں کے خلاف سنجیدہ اقدامات کرنا پڑیں گے،کمانڈ کی تبدیلی کے بعد سے اب تک سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ سیاست میں عدم مداخلت کی اس پالیسی کے تمام فوائد شاید فوری طور پر حاصل نہ ہوں لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ سیاست سے الگ رہنے کے اپنے عزم پر قائم رہی تو جمہوریت کی صورت حال میں طویل مدتی بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔
اس تناظر میں تو وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ تازہ بیان درست معلوم ہوتا ہے کہ ‘جنرل ریٹائرڈ باجوہ نے عمران خان کیلئے فوج کی ساری صلاحیتیں جھونک دی تھیںجنرل باجوہ نے عمران خان کیلئے جو کچھ کیا اب سامنے آ رہا ہے۔ عمران خان نے پاکستان کے معاش، سماج اور معاشرے کو نقصان پہنچایا۔ گالم گلوچ میں عمران خان کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ ان کے کرتوت سب کے سامنے ہیں۔ عمران خان ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے رہے لیکن انہوں نے ایک اینٹ بھی عوامی ترقی کیلئے نہیں لگائی۔ عمران خان کو لوگوں کی فکر ہوتی تو الزامات لگانے کے بجائے کام کرتے۔ عمران خان آج اقتدار پر بٹھانے والوں پر الزامات لگا رہے ہیں۔ عمران خان بطور وزیر اعظم ناکام ہوئے۔ عمران خان جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے بارے میں جو زبان استعمال کر رہے ہیں وہ کوئی نہیں کرتا، لیکن افسوس کہ وزیر اعظم شہباز شریف بھی اس کھیل کے خاتمے کیلئے کوئی مخلصانہ اور سنجیدہ اقدام اٹھانے سے گریزاں ہیں۔ کاش یہ کھیل ختم ہو جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button