ColumnZameer Afaqi

ہمیں کوئی بڑا انقلاب نہیں چاہیے ۔۔ ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

پاکستان میں جو بھی حکمران آتا ہے وہ عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر ایسے نان ایشوز میں الجھا دیتا ہے کہ وہ بے چارے اپنے حقیقی مسائل بھول کر ٹرک رکنے کا انتظار کرتا رہتا ہے اب یہی دیکھیے ملک کے عوام کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 40 فیصد آبادی کثیرالجہت غربت کا شکار ہے، کثیر الجہت غربت میں صرف آمدنی کو ہی معیار نہیں بنایا جاتا بلکہ صحت، تعلیم اور زندگی کی بنیادی سہولیات تک رسائی کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔
قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے جس عوام کیلئے آزادی جیسی نعمت ہزاروں جانوں ، مال ومتاع اور دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کے نتیجے میں حاصل کی وہ عوام آج سات دہائیوںبعد بھی اپنے بنیادی حقوق کیلئےخوار ہو رہی ہے۔ ایک الگ مملکت کا بنیادی مقصد ایک ایسا خطہ حاصل کرنا تھا جہاں خوشحالی امن و سکون کے ساتھ آزاد فضا میں اپنے تمام افعال آزادی کے ساتھ ادا کئے جاسکیں۔ بانی پاکستان کے پیش نظر یہی عوام کے مسائل تھے لیکن بانی پاکستان کی زندگی میں اور ان کی رحلت کے فوری بعد ایسے گروہ اس ملک کے اقتدار ، پالیسی سازی کے ادروں اور تعلیم کے شعبے پر قابض ہوگئے جنہوں نے عوام کیلئے ایسے نظریات کے خوش نما باغ دکھائے کہ وہ باغ نہ اُگ سکے اور نہ ہریالی نظر آئی مگر ملک ہر لحاظ سے بنجر بنتا گیا اس وقت ہم ذہنی بنجر پن کا ایک اعلیٰ نمونہ بن کر رہ گئے ہیں جہاں عقل اور شعور کے سوتے نہیں پھوٹتے بلکہ ذہنی وصوتی آلودگی کے نظارے اور مظاہرے بہر حال ہر جگہ نظر آتے ہیں ۔ جس ملک کے ساٹھ فیصد عوام کو روزگار کے مسائل ، چالیس فیصد سے زائد کو صحت اور آدھی سے زیادی آبادی کو تعلیم اور آدھی ہی آبادی کو رہائش کے مسائل نے جکڑ رکھا ہے وہاں کسی معاشی و اقتصادی نظرئیے کی حیا کا دور دور تک نشان نظر نہیں آتا جبکہ اس کے بر عکس ان نظریات کا فروغ روز افزوں ہے جو ان سب مسائل کی جڑ ہیں۔ عوام کے مسائل کے دفاع یا حل کے بغیر دفاع پاکستان کے اکٹھ گلی گلی محلے محلے، سمجھ سے بالا تر ہیں۔
خوشی جیسی انمول نعمت جو کئی لوازامات کا مجموعہ ہے، سے ہم محروم کر دیئے گئے ہیں ۔کسی بھی قوم کی سماجی اور اقتصادی ترقی میں خوشی اور اطمینان کا بہت اہم کردار ہے اور یہ خوشی اور اطمینان ویژنری قیادت میں قائم حکومتیں عوام کو مہیا کر سکتی ہیں جو منصوبہ بندی کرتے ہوئے عوام کی خوشی کو خصوصی اہمیت دیتی ہیںفنون لطیفہ کے اداروں کا جال بچھایا جاتا ہے۔ بے بسی اور مایوسی کا عالم دیکھیے کہ ہماری قوم خوشی اور تبدیلی بھی چاہتے ہیں تو کیسی ؟ بس اتنا ہی چاہتے ہیں کہ پانی کے کولر اور مٹکے کے ساتھ رکھا گلاس زنجیروں میں جکڑا نہ ہو، سجدہ کرتے ہوئے اس کا دھیان جوتوں کی چوری کی طرف نہ ہو، بجلی کے بل کو ادا کرنے اور، دو وقت کی روٹی کی خاطر کسی کو اپنی عصمت نہ بیچنی پڑے، کسی معصوم کے کاندھے پہ بوٹ پالش کا باکس نہ ہو، کوئی بڑا انقلاب، کوئی بڑی تبدیلی نہیں چاہتے۔
دہائیوں بعد بھی صورتحال یہ ہے کہ عوام بجلی، گیس پینے کی صاف پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں،اپنی چھت کا خواب بھی بھی نہیں دیکھ سکتے، انسانی جان و مال عدم تحفظ کے شکار ہیں، روزگار کے دروازے بند ہیں، مہنگائی کے باعث خودکشیوں اور جرائم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جبکہ دہشت گردی ایک اضافی بوجھ بن کر ملک اور معاشرے پر مسلط ہے جس کے خلاف لڑی جانے والی جنگ ہمارے وسائل اور بچی کچھی خوشیوںکو نگل رہی ہے۔ مگر قومی سطح پر ابھی تک ہم دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بھی کوئی متفقہ لائحہ عمل نہ بناسکے یوں لگتا ہے جیسے یہ جنگ صرف فوج کی ہے اور اس نے ہی لڑنی ہے۔
آزادی کے بعد گذشتہ کئی برسوں سے سیاسی حکمراں ملک سے غربت کا خاتمہ کرنے کیلئے سینکڑوں سکیمیں،پروگرام اور منصوبے لا چکے ہیں اور صورتحال میں کچھ تبدیلی ضرور آئی لیکن غربت کی جو مجموعی صورتحال تھی وہ کم و بیش آج بھی پہلے کی طرح اپنی جگہ موجود ہے تمام سکیموں، حکومتی پالیسیوں اور پروگراموں کے باوجود ملک کی 70 فی صد عوام غریب ہی رہی۔ اسی مدت میں، انڈونیشیا، ملیشیا، چین، کوریا اور تھائی لینڈ جیسے ایشیائی ملکوں نے غربت کے خاتمے میں زبردست کامیابی حاصل کی اور اب ان ممالک کا دنیا کے کامیاب ملکوں میں شمار ہو رہا ہے۔ آزادی کے بعد سیاست پر شہروں کے امیر طبقے اور گاؤں کے زمیندار، جاگیر داروں، وڈیروں اور پیروں کی مکمل اجارہ داری قائم ہو گئی۔ سیاست اس طبقے کے ذاتی مفاد کی تکمیل کاذریعہ بن گئی۔
پاکستان میں ایک نیا سیاسی حکومتی طبقہ بادشاہوں اور انگریزوں کے سامراجی دور سے بھی زیادہ طاقتور اور دولتمند بن گیا۔ ریاستی اور قومی سطح کے کئی سیاسی رہنما اتنے طاقتور اور دولتمند ہو چکے ہیں کہ ماضی میں بڑے بڑے شہنشاہوں کے پاس اتنی طاقت اور دولت نہیں ہوا کرتی تھی۔ نئی نسل کے ان نئے سیاسی بادشاہوں نے جمہوری نظام کا سب سے زیادہ استحصال کیا۔ملک کا سیاسی نظام اب ایک مختلف ڈگر پر ہے۔ ملک کی بے چین اکثریت ایک طویل عرصے سے موثر جوابدہ فیصلہ کن طرز کے نظام کی خواہاں ہے جس کی امید انہیں کہیں نظر نہیں آتی۔ پی ٹی آئی ہو یا کسی بھی پارٹی کی جمہوری حکومت، ایسا کوئی غیر معمولی کام نہیں کیا گیا جس سے عوامی مسائل کے خاتمہ یا انسانی وسائل میں کوئی ترقی ہوتی ہوئی نظرآئی ہو۔جمہوری حکمرانوں، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے راہنمائوں کو مستقبل کا پاکستان کیسا ہونا چاہیے، کے بارے چنداں فکر نہیں حالانکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کی تمناؤں اور خوابوں کی نمائندگی کر رہے ہیں لیکن کسی کو بھی نہیں معلوم کہ وہ مستقبل کے چیلنجز کا کامیابی کے ساتھ سامنا کر نے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں،بدلتی ہوئی دنیا کے جدید تقاضوں کا انہیں فہم و ادراک ہے یا نہیں ۔
مہنگائی بے روزگاری، صحت عامہ کی بدترین صورتحال تعلیم کی جگہ پر جہالت گھر گھر قیامت برپا کر رہی ہے، جمہوری حکومتیں عوام کو ریلیف دینے کے طریقے ڈھونڈتی ہیں مگر یہ جمہوری حکمران عوام سے ریلیف بھی چھین رہے ہیں۔ مہنگائی کا یہ عفریت غریبوں کا خون خشک کر رہا ہے، مہنگائی کا گراف بہت ہی بلند ہے، خورونوش کی اشیا قوت خرید سے باہر ہوچکی ہیں، غریب آدمی کی پریشانیاں انتہا کو پہنچ چکی ہیں، لوگوں کو ابھی دو وقت کا کھانا نصیب نہیں ہو رہا، عوام کی محرومیاں بڑھتی جا رہی ہیںاور ایک اندازے کے مطابق 77 لاکھ خاندان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔(غربت کی لکیر سے نیچے ہونے کا مطلب حکومتی اشرافیہ میں سے کسی کو معلوم نہیں)مہنگائی کے باعث ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد بچے محنت مزدوری کرتے ہیں،ملک میں ساڑھے 37 لاکھ محنت کش بے روزگار ہیں ملک کا 45 فیصد پڑھا لکھا طبقہ بے روزگار ہے، اگر مہنگائی کو قابو نہیں کیا جاسکتا تو پھر تنخواہیں اس قدر بڑھائی جائیں تاکہ غریب عوام زندہ رہ سکے۔المیہ دیکھے اکتہربرس کے بعد بھی ہماری بے حسی میں کوئی فرق نہیں آیا ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کیا ہم ملک حاصل کرنے کا مقصد پالیا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button